Column

بے بس صدر اور ہلال امتیاز

روہیل اکبر
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جب سے بتایا کہ ہے کہ انہوں نے بلوں پر دستخط نہیں کیے بلکہ ان کے سٹاف نے یہ سارا کام انہیں بتائے بغیر ہی کرلیا ہے اس وقت سے لیکر اب تک ہر سیاستدان انہیں برا بھلا کہہ رہا ہے۔ یہ وہ سیاستدان ہیں جو پچھلے 16ماہ سے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے عوام کی مہنگائی سے چیخیں نکلوا رہے تھے اور جنہوں نے اس پر شور مچانا تھا انہیں پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ان حقائق کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے لیکن الٹا انہوں نے صدر کے ہی استعفے کا مطالبہ کر دیا تاکہ یہ سیٹ بھی خالی ہو جائے اور پھر کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہ رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے معلوم کیا جائے کہ وہ کون سی طاقت ہے جس نے ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے شخص کو بے بس کر دیا اور اس کی آواز پر لبیک کہنے والا بھی کوئی نہیں، الٹا سبھی اس کی بے بسی کا مذاق اڑا رہے ہیں، خیر یہ معاملات یونہی چلتے رہیں گے، اسی دوران صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ٹیتھیان کاپر کمپنی سے 5ارب ڈالر کے ریکوڈک کے تنازع کو مذاکرات کے ذریعے کامیابی سے ختم کرانے میں کردار ادا کرنے والے افسران کو ہلال امتیاز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان افسران میں وفاقی سیکرٹری برائے قانون و انصاف راجہ نعیم اکبر، انٹرنیشنل ڈسپیوٹ یونٹ کے سابق سربراہ احمد عرفان اسلم اور بریگیڈئیر عاطف رفیق شامل ہیں۔ ان افسران نے ریکوڈک تنازع کے دوران مختلف قانونی فورمز میں پاکستان کی نمائندگی کی اور کمپنی کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں ریکوڈک پراجیکٹ کی بحالی کے لیے بیرک گولڈ کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرتے ہوئے پراجیکٹ کو بحال کیا۔ پاکستان کو اس کیس میں 6ارب ڈالر کا جرمانہ ہوا تھا، ایسے افسران کی حوصلہ افزائی ہوتی رہنی چاہیے۔ یہی وہ لوگ ہیں، جن سے پاکستان کا معاشی نظام چل رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے جی بی میں ہر لحاظ سے تاریخی کام کیے ہیں۔ خاص کر جی بی کی سیاحت اور تعلیمی نظام میں جو انقلاب برپا کر دیا ہے، اس پر انہیں ہلال امتیاز ملنا چاہیے، اسی طرح پنجاب کے سیکرٹری معدنیات بابر امان بابر کو بھی ہلال امتیاز ضرور دیا جائے، جنہوں نے اس خستہ حال محکمے کو پنجاب کا کمائو ادارہ بنا دیا، ان کے حوالے سے ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے گلگت بلتستان میں بھی خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان کے دور میں شروع ہونے والے بہت سے منصوبے آج پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں، جس سے مقامی لوگوں کو فائدہ تو پہنچے گا ہی، ساتھ میں سیاحت کے شوقین افراد بھی ان مراعات سے لطف اندوز ہونگے۔ اسی طرح وفاقی محتسب اعجاز قریشی نے مجبور پاکستانیوں کو مختلف اداروں میں بیٹھے ہوئے شیطانی لوگوں کے چنگل سے چھڑوایا، وہ بھی قابل فخر ہے۔ آج کے اس دور میں جب انسان ہی انسان کا دشمن بنا بیٹھا ہے تو ایسے ماحول میں مفت انصاف وہ بھی سائل کی دہلیز پر پہنچانا کتنا دشوار کام ہے، یہ تو ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ اس طرح کے ایک اور درد دل والے صوبائی محتسب میں سیکرٹری طاہر رضا ہمدانی بھی اپنی مثال آپ ہیں، پولیس والوں میں سے کوئی اچھا افسر ڈھونڈنا ہو تو مشکل ہو جاتا ہے لیکن طاہر انوار پاشا جیسا بھی کوئی نہیں اور شوکت عباس جیسا پولیس افسر ملنا بھی ناممکن ہے۔ ایسے لوگ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں جو گھر سے عوام کی خدمت کے لیے نکلتے ہیں، انہیں بھی ہلال امتیاز سے نوازا جانا چاہیے اور ایسے لوگوں کو مثال بنا کر پیش کیا جائے تاکہ نئے آنے والے انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کو ایک عظیم ریاست بنانے میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں، اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لوٹنے والوں نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی، جی بھر کو لوٹا، جس کے بدلے میں عوام غربت اور ذہنی پسماندگی کی انتہا کو پہنچے اور مجبور لوگوں نے موت کو بھی گلے لگایا۔ لوگوں نے اجتماعی خودکشیاں بھی کیں، اور کچھ لوگوں نے اپنی غربت دور کرنے کے لیے ایک دوسرے کے گلے بھی کاٹے، لیکن اس کے باوجود پاکستان ترقی کرتا رہا، خواہ رفتار کچھوے کی چال سے بھی کم رہی۔ اس ترقی میں بھی زیادہ تر حصہ ہماری نوجوان نسل کا ہے، جنہوں نے مواقع نہ ہونے کے باوجود ہمت نہ ہاری۔ پاکستان مالی سال 2022۔23کے دوران انفارمیشن ٹیکنالوجی ( آئی ٹی) کی 2.6بلین ڈالر کی برآمدات حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
عالمی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کوئی بری کارکردگی نہیں حالانکہ پاکستان نے دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے میں آئی ٹی کی ترقی کا سفر دیر سے شروع کیا لیکن اس شعبے میں ترقی غیر معمولی رہی۔ ترقی کرتا ہوا آئی ٹی سیکٹر نہ صرف ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کماتا ہے بلکہ لاکھوں گریجویٹس کو روزگار بھی فراہم کرتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے بورڈ آف انویسٹمنٹ (BOI)نے آئی ٹی سیکٹر پر ایک رپورٹ بھی جاری کی ہے، جس کے مطابق پاکستان تیزی سے ڈیجیٹل ترقی کا سامنا کر رہا ہے اور آئی ٹی/آئی ٹی ای ایس سیکٹر ملک کے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے شعبوں میں سے ایک ہے، جو اس کے جی ڈی پی میں تقریبا 1فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔ اس سلسلہ میں پنجاب حکومت نے آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی میں معاونت کے لیے پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ ( پی ایس ای بی) کے ساتھ ملکر فیصل آباد، گجرات، جامشورو، کراچی، ملتان، پشاور، اور راولپنڈی شہروں میں سات سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک قائم کئے ہیں، جن کا مقصد آئی ٹی سیکٹر کو سہولت فراہم کرنا اور اس کی ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہے۔ پاکستان آئی ٹی کے شعبے میں بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہے اور عالمی سطح پر آئی ٹی فری لانسنگ کے شعبے میں تعاون کرنے والے چوتھے بڑے ملک کے طور پرجانا جاتا ہے۔ آج کا دور بھی آئی ٹی کا ہے اور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی بھی اس کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں، اسی لیے تو انہوں نے پنجاب کو آئی ٹی میں نمبر ون بنانے کا عزم کرتے ہوئے اس شعبے کو وسعت دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button