یوم آزادی اور اس کے تقاضے
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کو آج 76سال مکمل ہوگئے۔ قوم آج یوم آزادی ملی جوش و جذبے سے منارہی ہے۔ ہر طرف سبز ہلالی پرچموں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ اس کے لیے کافی دن پہلے سے تیاریاں کرلی گئی تھیں۔ ملک بھر میں پرچموں، بیجز، کپڑوں اور دیگر اشیاء کی خرید و فروخت عروج پر رہی۔ دیکھا جائے تو آزادی بڑی نعمت ہے، اس کی قدر وہی جان سکتا ہے، جس کو یہ میسر نہ ہو، جو تمام تر حقوق سے محروم ہو، جو تل تل مرتا ہو، وہی آزادی کی صحیح معنوں میں قدر سمجھ سکتا ہے۔ ہم اللہ کے فضل و کرم سے آزاد وطن اور فضا میں سانس لے رہے ہیں، ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اور اُن کے رفقاء نے انگریزوں سے آزادی کی خاطر جدوجہد کی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کا بھرپور ساتھ دیا۔ آزادی کا سفر چنداں آسان نہیں تھا۔ اس کی لیے بیش بہا قربانیاں دی گئیں۔ لاکھوں لوگ جان سے گئے۔ کتنی ہی عصمتیں لوٹی گئیں۔ مال و اسباب پر قبضہ کیا گیا۔ 1940کو لاہور میں منظور ہونے والی قرارداد پاکستان آزادی کے حوالے سے بڑی پیش رفت ثابت ہوئی اور محض سات سال کے قلیل عرصے میں مسلمانوں کو جدوجہد آزادی کے ثمر کے طور پر ارض پاک عطا ہوئی۔ آزادی کی نعمت پانے والے ہمارے بزرگوں کی خوشی اُس وقت دیدنی تھی۔ وہ پھولے نہیں سماتے تھے۔ ارض پاک کی مٹی کو چومتے تھے۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھے۔ ملک کی ترقی کے جذبے اُن میں موجزن تھے۔ آج ہم وطن عزیز کے طول و عرض میں نگاہ دوڑائیں تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں سے اکثریت قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد کو بھول کر نفسا نفسی اور ہیجانی کیفیات کا شکار ہوگئی ہے، نظریات کی جمع طمع نے لے لی ہے۔ مفاد پرستی انسانیت اور حقوق العباد پر غالب آگئی ہے۔ ہمارے بزرگ جنہوں نے بانیان پاکستان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک خوب کی تکمیل کے لیے سچے دل سے ان گنت قربانیاں دیں، وہ آج ہم سے خوش دِکھائی نہیں دیتے، افسوس کہ ہماری نوجوان نسل نظریہ پاکستان اور تحریک آزادی کی قربانیوں سے ناواقف ہے، کیونکہ اب انہیں ابتدا سے ہی قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد اور بزرگوں کی قربانیوں سے آگاہی دینے کے بجائے، بگاڑ کی طرف دھکیلا جارہا ہے، ان کے ہاتھوں میں خرافات کا باعث چیزیں دے دی جاتی ہیں۔ ہمارے عوام کی اکثریت یوم آزادی کو بطور چھٹی گزارتی اور انجوائے کرتی ہے۔ اس کی روح کے مطابق اس دن کو نہیں منایا جاتا۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ قرار دی جاسکتی ہے۔ یوم آزادی تقاضا کرتا ہے کہ مذکورہ بالا خرابیوں کو دُور کیا جائے۔ اپنی اصلاح کا سلسلہ شروع اور جاری رکھا جائے۔ انسانیت، اخلاقیات ، رواداری، بھائی چارے، برداشت، تحمل، صبر ایسے اوصاف کو اختیار کیا جائے۔ یہ وطن ہے تو ہم ہیں، یہی ہماری پہچان ہے۔ اسی سے ہمارا آج اور کل جڑا ہے۔ یہیں
ہماری نسلیں پروان چڑھ کر جوان ہوں گی۔ اپنی نسلوں کی بہتری کے لیے اچھائی کے پودے لگائے جائیں اور بُرائیوں کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے۔ مانا کہ ملک عزیز میں بُرائیوں اور خرابیوں کی بھرمار ہے، ان کا خاتمہ مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن ہرگز نہیں ہے۔ قوم کا ہر فرد اپنی اصلاح کا سلسلہ جاری رکھے اور ملک میں موجود خرابیوں کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو اس وقت ملک عزیز اور قوم کو جو مشکلات لاحق ہیں، اُن میں پہلے کبھی ایسی شدّت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس وقت معیشت کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ مہنگائی کے نشتروں نے غریب عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔ گرانی میں روز بروز شدّت محسوس ہورہی ہے۔ یہ تین گنا بڑھ چکی ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہیں۔ بے روزگاری کا عفریت پھن پھیلا رہا ہے۔ ملکی کرنسی اپنی بے توقیری پر ماتم کناں ہے اور ڈالر اسے چاروں شانے چت کرتا دِکھائی دیتا ہے۔ کاروبار سمٹ رہے ہیں۔ چھوٹے کاروباریوں کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ کتنے ہی اپنے کاروبار سمیٹ چکے ہیں جب کہ بڑے ادارے بھی اپنے آپریشنز کو محدود کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ملک پر قرض کا بار دن بہ دن بڑھتا چلا جارہا ہے۔ سابق حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں نے ملک و قوم کے لیے زیست کو انتہائی دُشوار گزار ترین بنا دیا ہے۔ پچھلے مہینوں میں سرمایہ کار یہاں پر عدم تحفظ محسوس کرتے ہوئے کاروبار بند کرنے پر مجبور ہیں۔ حالات دن بہ دن مزید گمبھیر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اس سب کے باوجود حالات بدل سکتے اور ملک و قوم کی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ یوم آزادی تقاضا کرتا ہے کہ قوم کا ہر ایک فرد حکومت کے ساتھ مل کر اگر ملک کی بہتری کے لیے اپنے حصّی کی ذمے داری حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ نبھائے تو جلد یہ تمام مصائب اور مشکلات ختم ہوسکتے ہیں۔ ملکی ترقی اور تعمیر کے لیے ملت کا ہر فرد کوشاں رہے۔ اپنے حصّے کی شمع جلاتا رہے۔ ملکی معیشت ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہوسکتی ہے۔ مہنگائی قابو میں آسکتی ہے۔ عوام خوش حالی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ بدعنوانی، بے روزگاری اور دیگر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ قرضوں کا بدترین بار اُتر سکتا ہے۔ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ ملک عزیز قدرت کا انمول تحفہ ہے اور یہ ان شاء اللہ تاقیامت قائم رہے گا۔ یہ قدرت کی عظیم نعمتوں سے مالا مال ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ زراعت کے شعبے میں بہتری پر توجہ دی جائے۔ اصلاحات لائی جائیں۔ کسانوں کی عصر حاضر کے مطابق تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ اسی طرح ملک کے طول و عرض میں قدرت کے انمول خزینے مدفن ہیں، جن میں بے شمار معدنیات شامل ہیں، تیل اور گیس کے ذخائر ہیں، اُنہیں تلاش کیا جائے اور صحیح طور پر بروئے کار لایا جائے۔ قرضوں کے بوجھ سے مستقل چھٹکارا حاصل کرنے کی سبیل کی جائے۔ خودانحصاری کی پالیسی پر گامزن ہوا جائے اور ملکی وسائل کو صحیح طور پر بروئے کار لایا جائے۔ حکومتی سطح پر کفایت شعاری کی راہ اختیار کی جائے۔ کاروباری افراد کو حکومت کی جانب سے آسانیاں اور سہولتیں فراہم کی جائیں۔ صنعت و حرفت کو فروغ دیا جائے۔ تمام شعبوں میں بہتری لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ شعبۂ سیاحت پر توجہ دی جائے اور اس حوالے سے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس صنعت سے صحیح معنوں میں استفادہ کا بندوبست کیا جائے۔ وسائل بے پناہ ہیں، بس اُنہیں درست خطوط پر استعمال کرکے ملک و قوم کے لیے فوائد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر کوئی مشکل، مشکل نہیں رہے گی اور ترقی اور خوش حالی کا دور دورہ ہوگا۔ عوام کے مصائب اور مشکلات ختم ہوجائیں گے۔
ملاوٹ مافیا کے خلاف کریک ڈائون ناگزیر
وطن عزیز کے طول و عرض میں کھانے پینے کی معیاری اشیاء ڈھونڈے سے بھی نہیں مل پاتی ہیں، جہاں دیکھو غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ اشیاء نظر آئیں گی۔ دودھ معیاری ہے نہ آٹا، پتی، گھی، تیل اور مسالہ جات وغیرہ، ان سب میں ہی ملاوٹ عام بات ہے، جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ ہوٹلوں، بیکریوں اور فیکٹریوں میں غیر معیاری کھانے پینے کی اشیاء حفظان صحت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر تیار کی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ معصوم بچّوں کو بھی نہیں بخشا جاتا اور ان کے لیے بنائی جانے والی کھانے پینے کی چیزیں مثلاً ٹافی، بسکٹ، پاپڑ، جیلی، چاکلیٹ وغیرہ انتہائی غیر معیاری ہوتی ہیں۔ یہ کاروباری لوگ اپنی تجوریاں بھرنے کے چکر میں انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، ان کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد مختلف امراض کا شکار ہورہی ہے۔ آخر کب تک لوگ ملاوٹ شدہ، غیر معیاری، مضر صحت اشیاء استعمال کرتے رہیں گے۔ کب اُن کو خالص اشیاء کھانے پینے کے لیے دستیاب ہوں گی۔ یہ سوال جواب کا متقاضی ہے۔ ملک بھر میں ایسے لوگوں کے خلاف کریک ڈائون کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس کی جاتی رہی ہے، لیکن بدقسمتی سے اب تک مکمل طور پر ان پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے، ملک کے تمام صوبوں میں محض کبھی کبھار ہی دو چار روز کے لیے ایسے افراد کے خلاف کارروائیاں عمل میں لائی جاتی رہی ہیں، پھر اس کے بعد راوی چَین ہی چَین لکھتا ہے۔ حالانکہ ملک کے طول و عرض میں سال بھر غیر معیاری، مضر صحت اور زائد المیعاد اشیاء دھڑلے سے فروخت ہوتی رہتی ہیں اور عوام کی صحتوں سے سنگین کھلواڑ جاری رہتے ہیں۔ یہ امر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے۔ اس تناظر میں ملک بھر میں اُس وقت تک غیر معیاری، ناقص، مضر صحت اور زائد المیعاد اشیاء کی روک تھام کے لیے کریک ڈائون کرنے کی ضرورت ہے، جب تک یہ مشقِ ستم مکمل طور پر ختم نہیں ہوجاتی۔ ملاوٹ شدہ اور مضر صحت اشیاء فروخت کرنے والوں کے خلاف کڑی کارروائیاں جاری رکھی جائیں۔ تمام میں ملاوٹ مافیا کے خلاف کارروائیوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے کسی رو رعایت کے مستحق نہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ ان سے عوام کو نجات دلائی جائے، ملک بھر میں ان کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے، سب سے بڑھ کر ان چھاپہ مار کارروائیوں کو تسلسل کے ساتھ اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک ملاوٹ مافیا پر مکمل قابو نہیں پالیا جاتا۔ اس حوالے سے درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم ضرور مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔