Column

ہمارا سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داریاں

کوثر لودھی

قارئین! آج اس موضوع پر قلم اٹھانے پر میں اتنی مجبور ہوں کہ میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، اس لئے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر اس طرح کے کالم اور ٹاک شوز ہوں جن میں کرنٹ افیئر، جیو پولیٹیکل اور داخلی و خارجی اُمور کو زیر بحث لایا جائے مگر ہمارا دھیان ہمارے اتنے بڑے سماجی مسئلے کی طرف جا ہی نہیں رہا جس کو نہ صرف روکنا بہت ضروری ہے بلکہ اس کے تدارک کے لئے ہر شہری کو اپنا فوری کردار ادا کرنا ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے پیش کر دے‘‘۔ اور اس سلسلے میں آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ایک بہت بڑا واقعہ بھی پیس آیا، جس کے بعد آپﷺ کی یہ حدیث رقم ہوئی۔ ہم صرف یہ سوچتے ہیں کہ ہم کون ہیں؟ مسلمان، ہمارا مذہب کیا ہے؟ اسلام۔ اتنا کافی نہیں ہے، اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ ویسے تو پچھلے کچھ سالوں میں تیزی سے ہماری روایات، ہمارا طرز عمل گراوٹ کا شکار ہوا ہے۔ جس کی مثال ظہور اسلام میں پہلے کبھی نہیں ملتی۔ سوشل میڈیا خصوصاً ٹویٹر پر ہر وقت ننگی گالیاں، ایسی گالیاں جن کا تصور بھی کوئی شریف شخص کرے تو کانپ جائے۔ میں نے تو ٹویٹر کا استعمال بہت مہینوں سے بند کر دیا تھا مگر کچھ دنوں بعد جب میں نے ٹویٹر کھولا تو اس میں جو کچھ میں نے پڑھا، اس کے بعد میرا ذہن مائوف ہو گیا اور ایک پاکستانی نژاد امریکی بوڑھے شخص نے وہاں امریکہ میں بیٹھ کر ہمارے ملک میں وہ آگ لگانے کی کوشش کی کہ اس نے اتنا نہیں سوچا کہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ چکا ہے اور جب رب کے حضور پیش ہوگا تو کیا منہ لے کر جائے گا اور اس کے اس کو فالو کرنے والوں نے نعوذ باللہ حافظ قرآن ہونے کو بھی نہیں چھوڑا۔ ظاہر ہے کہ یہ چیزیں قلم لکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ گزشتہ دنوں ایک اجنبی نمبر میرے واٹس ایپ میں آگیا۔ میں نے اسے فوراً Delete کرنے میں تھوڑی سی سستی کا مظاہرہ کر دیا۔ اس نے جس قدر غلط جنسی مواد بھیجا کہ میں نے اس نمبر کو تو فوراً رپورٹ کر دیا مگر ایسا پہلی بار نہیں ہوا، میں ایک پختہ عمر کی عورت ہوں مگر وہی مواد ایک نوجوان لڑکی یا لڑکا دیکھے گا تو اس کے جذبات مشتعل ہوں گے اور اس کے ہاتھ میں جو بھی چڑھ گیا، ایک تباہی اور بربادی کی درد ناک کہانی جنم لے گی۔ اسی طرح آج کل والدین بالخصوص خواتین اپنے بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون پکڑا دیتی ہیں۔ اب تو کارٹون فلمیں بھی ایسی ایسی بننا شروع ہو گئی ہیں جنہیں دیکھ کر بچے جب بولنا شروع ہی کرتے ہیں تو ان کے سوالات والدین نہیں دے پاتے۔ غلط ٹوٹکے، کسی بھی خورو نوش کی پراڈکٹ کی سیل، یا کسی برانڈ کی ویلیو کم کرنے کے لئے ایسی ایسی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں کہ اکثر سادہ لوح نہیں بلکہ سمجھدار افراد بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک کا ایک مشہور نجی چینل اچانک سوشل میڈیا پر نمودار ہوتا ہے اور خبر چلتی ہے کہ ملک کی ایک بہت بڑی سیاسی و مذہبی شخصیت انتقال کر گئی ہیں۔ میں گاڑی میں بیٹھی تھی، میری دھڑکنیں رُک گئیں، اور میں نے اس چینل کے ایک رپورٹر کو فون کیا تو اس نے ہنس کر کہا کہ یہ کسی نے مذاق کیا ہے۔ یعنی اتنا سنگین مذاق اور پھر مذہب کے بارے میں وہ وہ معلومات دی جاتی ہیں کہ خدانخواستہ کوئی ایماندار شخص اپنا ایمان کھو سکتا ہے اور اس سے بڑا نقصان اور اس سے بڑا گناہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ بھئی ہر ملک، ہر دور میں لوگ سیاسی و مذہبی شخصیات اور ملکی اداروں کے سربراہوں کو پسند بھی کرتے ہیں اور ناپسند بھی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں بنتا کہ آپ اُن کے بارے میں غلط قسم کا پروپیگنڈا، غلیظ سوشل میڈیا مہم شروع کر دیں۔ یہ ایک گناہ کبیرہ ہے اور اس شخص کی کبھی بخشش نہیں ہو گی۔ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ اے ایمان والو! اپنے والدین کو گالیاں مت دو، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ایسا کون بدبخت ہو گا جو اپنے والدین کو گالیاں بکے گا، اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کسی کو گالی دیتا ہے، اس کے والدین کو گالیاں دیتا ہے تو دراصل وہ گالی خود اس کے اپنے والدین کو لگتی ہے‘‘۔ اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کے انسانوں میں سب سے افضل شخصیت جس کے دشمن بھی اُن کی نیکیوں کے معترف ہیں، جنہیں رب ذوالجلال نے شبِ معراج میں سدرۃ المنتہٰی پر بلا بھیجا اور کلام کیا۔ وہ عظیم شخصیت ’’ جو نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ‘‘ ہے۔ اُنہوں نے اتنی بڑی باتیں فرما دیں۔ سنت نبویﷺ، سیرت نبویﷺ، احادیث مبارکہ اُٹھا کر پڑھیں تو پتہ چلے کہ یہ ہم کس کام کے لئے دنیا میں پیدا کئے گئے اور ہم کس طرف کو چل رہے ہیں۔ جو راستہ ہماری منزل نہیں ہو سکتا، Up to Dateہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے اردگرد اور دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بالکل صحیح علم آپ کو ہو تاکہ آپ ذہنی طور پر بالغ نظری اور پختگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ کوئی دوسرا شخص قبر میں یا یومِ حساب میں آپ کے ساتھ نہیں ہوگا۔ نہ ماں، نہ باپ، نہ بھائی، نہ وہ بچے جنہیں ہم اپنے جگر کا خون پلا کر پالتے ہیں، نہ وہ دوست جن کے بہکاوے میں آکر ہم ہر غلط کام بھی کر لیتے ہیں۔ صرف اور صرف اپنے اعمال کا حساب آپ کو دینا ہو گا اور یہ کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ اگر آپ کے کسی ایک حرف سے کسی نے کچھ برائی سیکھ لی تو جب تک وہ دنیا میں برائی کرتا رہے گا، اس کا گناہ اور عذاب آپ کو ملتا رہے گا اور اگر آپ کے کسی ایک حرف سے کسی نے کچھ اچھائی سیکھی تو اس کا اجر و ثواب دنیا و آخرت دونوں میں ملتا رہے گا۔ خدا کے واسطے سوشل میڈیا کو معتبر سرگرمیوں کے لئے استعمال کیجئے اور جو صارفین باز نہ آئیں، باقاعدہ قانون کے ذریعے اُنہیں پابند سلاسل کیا جائے۔ اپنی نفرت کسی دوسرے پر مسلط نہ کریں اور نہ ہی کسی کی محبت میں اتنے آگی نکل جائیں کہ کسی اندھے اور آنکھوں والے میں فرق ہی مٹ جائے۔ والدین اور اساتذہ اس میں اہم ترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button