تازہ ترینخبریںسیاسیات

متاثرین ‘ریڈ لائن’ : سول ملٹری تنازع کی 75 سالہ داستان کے کرداروں کا احوال

تاریخ سے ہم نے بس یہ سیکھا ہے کہ تاریخ سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ماضی میں سیاستدانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی، دوطرفہ فاصلوں کی خلیج کو وسعت دے کر سیاسی حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کرنے کا باعث بنتی رہی ہے اور اس کی ابتدا پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی۔
پاکستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کا انجام کبھی نہ تو سیاست اور نہ ہی سیاستدانوں کے حق میں سامنے آیا۔
اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکمرانوں کے مابین اختلاف کا نتیجہ کبھی سیاسی حکمرانوں کے لیے اچھا نہیں رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا جونیجو، میاں نوازشریف ہوں یا بے نظیر اور یوسف رضا گیلانی ہوں یا پھر عمران خان سب کا انجام ایک سا نظر آتا ہے۔ ہم نظر ڈالتے ہیں ہماری سیاسی تاریخ کے ان اہم ماہ و سال پر جب سول ملٹری دھینگا مشتی کے نتیجے میں سول حکومتیں گھر بھیجی گئیں۔

خواجہ ناظم الدین:
اپریل 1953 میں جب اس وقت کے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل غلام محمد نے ایوب خان کی معاونت سے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا ۔

بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں قیوم نظامی کی کتاب (جرنیل اور سیاست دان ، تاریخ کی عدالت میں) کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بعض مؤرخین کے مطابق خواجہ ناظم الدین کی حکومت گرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ دستور تیار کروا رہے تھے، اُس میں گورنر جنرل کے اختیارات کم کر دیے گئے تھے۔ ناظم الدین، ایوب خان کو توسیع دینے اور فوج کے حجم کو قومی وسائل سے زیادہ بڑھانے کے مخالف تھے۔
سکندر مرزا :
قیام پاکستان کے ٹھیک گیارہ برس بعد سنہ 1958 میں ملک میں پہلا مارشل لا لگا دیا گیا۔ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ اکتوبر 1958 میں آئین منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ اُس وقت پاکستان کسی غیر معمولی بیرونی خطرے سے دوچار نہیں تھا۔ اندرونی خطرہ صرف یہ تھا کہ اگر انتخابات ہو جاتے تو غالباً اسکندر مرزا کو کرسیِ صدارت سے ہاتھ دھونا پڑتے۔ سکندر مرزا کے کرسی سے ہاتھ دھونے کے پیچھے ایک کہانی ہے کہ سید امجد علی کے بیٹے کی شادی اسکندر مرزا کی بیٹی سے ہونا تھی۔ سید امجد علی نے اُنھیں شادی کی تاریخ مقرر کرنے کو کہا تو اسکندر مرزا نے جواب دیا کہ وہ اگلے چند دن بہت مصروف ہیں۔ امجد علی نے کہا حالات معمولات پر آنے میں کافی وقت لگے گا؟ تو اسکندر مرزا نے اس کا جواب دیا کہ چند دن میں، مَیں ایوب خان کو سیدھا کر دوں گا۔
اور یہ تمام تر گفتگو انٹیلیجنس سن رہی تھی ۔
27 اکتوبر تک کوئی کارروائی نہ کی گئی کیونکہ امریکی سیکریٹری دفاع نے پاکستان کی فوج امداد کے مذاکرات کے لیے پاکستان آنا تھا۔ 27 اکتوبر کو امریکی سیکریٹری کے دورے کے اختتام کے بعد یحییٰ خان اور ان کی ٹیم نے اپنے ایکشن پلان کے دوسرے حصے پر کارروائی شروع کر دی جس کے نتیجے میں جنرل ایوب خان نے رات دس بجے اسکندر مرزا کو صدارت سے الگ کر دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو:
ایم اے چودھری اپنی کتاب ’مارشل لا کا سیاسی انداز‘ میں لکھتے ہیں ’پاکستان کے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آئین کو تشکیل دینے کے سلسلے میں ایک دفعہ یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس ملک میں مارشل لا کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں گے۔ مگر حیف کہ مارشل لا ہی کی حکومت نے اُنھیں پھانسی دی اور دفن کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو فوج اور بیوروکریسی میں اصلاحات کے خواہاں تھے اور جمہوری بالادستی کو قائم کرنا چاہتے تھے۔اُنھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی کئی اعلیٰ درجے کے فوجی افسران کو ملازمتوں سے سبکدوش کر دیا، جن میں لیفٹیننٹ گل حسن خان بھی شامل تھے. لیکن ضیاء الحق نے مارشل لاء کر بھٹو کو ہی ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کر دیا ۔

جنرل ضیا نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے۔ الیکشن کے بعد وزیراعظم کے طور پر محمد خان جونیجو کا انتخاب عمل میں آیا ۔جونیجو کو چناؤ اس لیے تھا کیونکہ ضیا کسی ایسے شخص کو وزیرِ اعظم نہیں بنانا چاہتے تھے جو بعد میں اِن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکے ۔
طاہر کامران اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ضیا کی جانب سے جونیجو کو ہٹانے کی وجوہات کے پیچھے جونیجو کا جنرل ضیا کی خواہشات کے برعکس جنیوا معاہدہ پر دستخط کرنا ان کی معزولی کا بڑا سبب بن گیا۔
علاوہ ازیں راولپنڈی میں اوجڑی کیمپ کے واقعے کے ذمہ دار فوجی افسروں کو موردِ الزام ٹھہرانا بھی ضیا الحق اور جونیجو کے مابین اختلافات کا بڑا سبب تھا۔

بے نظیر بھٹو:
بے نظیر بھٹو پہلی بار 1988 کے الیکشن میں وزیرِ اعظم بنیں مگر وہ اپنی مُدت کو پورا نہ کر سکیں۔
بی بی سی نے اپنی فیچر رپورٹ میں سعید شفقت کا حوالہ دیا ہے کہ ’سب سے طاقتور ادارے کے ساتھ بے نظیر کے تعلقات کی خرابی کی چار وجوہات تھیں جو اُن کی حکومت کے خاتمے کا سبب بن گئیں۔
’اُس میں ایک وجہ یہ تھی کہ 1990 میں بے نظیر نے آرمی کے سلیکشن بورڈ کے معاملات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔

میاں نواز شریف:

میاں نواز شریف کے اقتدار کا پہلا دور اسی شورش اور محاذ آرائی کی نذر ہو جاتا ہے مگر جب یہ دوسری بار وزیرِ اعظم بنتے ہیں تو عوام کی اکثریت کا اعتماد لے کر بنتے ہیں مگر پھر بھی اپنا دور مکمل کرنے سے قاصر ٹھہرتے ہیں اور جنرل مشرف انھیں ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کر لیتے ہیں۔فوج نے نواز شریف کی جانب سے عسکری اُمور میں مداخلت کو بھی ناپسندیدگی سے دیکھا۔

جبکہ رسول بخش رئیس کا خیال ہے کہ جب نواز شریف کے پاس 1997 کے الیکشن کے بعد دوتہائی اکثریت آ گئی تو وہ فوج کے قابو میں نہ رہے اور انھوں نے بھٹو کی طرح سول سپریمیسی لاگو کرنے کی کوشش کی۔
اسٹیبلیشمنٹ سے اپنی محاذ آرائی کی وجہ سے وہ 2013 میں نواز شریف عام انتخابات کے نتیجے میں تیسری بار وزیرِ اعظم بن گئے مگر تیسری بار بھی اپنی مدت پوری نہیں کر پائے۔
2016 میں ایک خبر سامنے آئی جو آنے والی تاریخ میں ڈان لیکس‘ کے عنوان سے مشہور ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے پیچھے ایک بڑا محرک ڈان لیکس رہی۔اس معاملے کی سنگینی کھل کر اُس وقت سامنے آئی جب پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے ڈان لیکس سے متعلق جاری اعلامیے کی تردید کرتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا کہ یہ نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے تاہم بعد میں حکومتی نوٹیفکیشن مسترد کرنے والی ٹویٹ واپس لے لی گئی تھی۔
یوسف رضا گیلانی:

22 دسمبر 2011 کو اُس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں چوہدری نثار علی خان کے نکتہ اعتراض کے جواب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اگر فوج اور متعلقہ ادارے وزارت دفاع کے ماتحت نہیں ہیں اور متحدہ ہندوستان سے علیحدگی کے بعد اگر یہاں محکوم ہی رہنا ہے تو اس پارلیمنٹ اور جمہوریت کی کوئی وقعت اور فائدہ نہیں۔ اور یوسف رضا گیلانی بھی اپنی مدت ملازمت بھی پوری نہیں کرسکے ۔

عمران احمد خان نیازی
سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو بنانے اور اس کو چلانے میں اسٹبلشمنٹ کا بنیادی کردار رہا ہے ۔ شروعات میں تو یہ تعلقات بہت اچھے چلے لیکن
گذشتہ سال جب نئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری کا معاملہ سامنے آیا تو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی خواہش تھی کہ جنرل فیض حمید کو اس عہدے پر مزید کچھ عرصہ کام کرنے دیا جائے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس گزارش کی وجہ سے جنرل باجوہ اور عمران خان کے تعلقات خراب ہوۓ کیونکہ جنرل باجوہ یہ نہیں چاہتے تھے ۔اس بات کا خود عمران خان برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔
تاہم لیفٹینینٹ جنرل ندیم انجم کو نیا آئی ایس آئی چیف تعینات کر دیا گیا لیکن وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے تعیناتی کی سمری کی منظوری میں تاخیر ہوئی جسے فوج اور تحریک انصاف حکومت کے درمیان تناؤ کا باعث سمجھا گیا۔ اور پھر پی ڈی ایم نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے تحریک عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کر لی اور اس وقت کے وزیراعظم کو بھی مدت سے پہلے ہی چلتا کر دیا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button