تازہ ترینخبریںسیاسیات

آرمی ایکٹ کے تحت عمر قید٬ موت کی سزا یا کچھ اور؟

آرمی ایکٹ کے تحت عمر قید٬ موت کی سزا یا کچھ اور؟ تحریک انصاف کے 3800 سے زائد گرفتار کارکنان کا مستقبل کیا ہوگا ؟

9 مئی 203 کو نیب نے رینجرز کی مدد سے چئیر مین تحریک انصاف عمران خان کو آسلام آباد ہائیکورٹ سے القادر ٹرسٹ کیس کی مد میں گرفتار کیا تھا ۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد کارکنان کو شدت پسندی نے اپنی آغوش میں لے لیا اور مشتعل کارکنان نے جی – ایچ – کیو راولپنڈی ، کور کمانڈر ہاؤس لاہور ، پشاور ریڈیو اسٹیشن اور دیگر فوجی تنصیبات اور دیگر سرکاری املاک پر حملہ آور ہو کر نقصان پہنچایا ۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس سانحے کی مذمت بھی لیکن اس سانحے میں ملوث شر پسند عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کرتے ہوۓ 3800 سے زائد تحریک انصاف کے کارکنان کو حراست میں لے لیا گیا اور اس سانحے کے زمہ داروں کے خلاف آرمی ایکٹ 1952اور اسپیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلا کر ان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔

آرمی ایکٹ کیا ہے ؟

آرمی ایکٹ پاکستان فوج کے قانون کا ایک ایکٹ ہے جس میں ملزم کا ٹرائل اس صورت میں ہوتا ہے جب جرم کا ارتکاب کوئی فوجی اہل کار کرے لیکن بعض صورتوں میں اس کا اطلاق عام شہریوں پر بھی ہو سکتا ہے ۔
ایکٹ کے تحت کارروائی کی صورت میں ملزم کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کہا جاتا ہے۔

اس فوجی عدالت کا صدر ایک حاضر سروس فوجی افسر ہوتا ہے، استغاثہ کے وکیل بھی فوجی افسر ہوتے ہیں۔ یہاں ملزمان کو وکیل رکھنے کا حق دیا جاتا ہے۔
اگر کوئی ملزم پرائیویٹ وکیل رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو فوجی افسر ان کی وکالت کرتے ہیں۔

2105 سینیٹ نے21 ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کی متفقہ منظوری دی تھی۔ اور یہ بل اس وقت کے وزیر قانون زید حامد نے پیش کیا تھا ۔

مندرجہ ذیل جرائم میں ملوث افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جا سکتی ہے :

1:- سول اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والےدھماکہ خیز مواد رکھنے والے
2:- پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والے
3:- فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے والےاغوا برائے تاوان کے مجرم
4:- غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو مالی معاونت فراہم کرنے والے
5:- مذہب اور فرقے کے نام پر ہتھیار اٹھانے والے
کسی دہشت گرد تنظیم کے اراکین

کیا تحریک انصاف کے کارکنان پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے ؟
جی ہاں بالکل آرمی ایکٹ کے تحت تحریک انصاف کے کارکنان پر اس ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے ۔
آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی میں دو ایسی شقیں موجود ہیں جن کے تحت عام شہریوں پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے جن میں پہلی، جاسوسی یا عسکری راز فراہم کرنا اور دوسری فوجیوں کو حکم نہ ماننے پر اکسانا یا پھر فوج کے ادارے کے خلاف اکسانا شامل ہے۔
آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کے تحت کسی بھی سویلین کا معاملہ 31 ڈی میں لا کر اس کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے پہلے اس سویلین کے خلاف کسی تھانے میں مقدمہ کے اندارج اور مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔
کیا ماضی میں آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز ملزمان کو سزائیں ہوئی ہیں ؟
اس کی تازہ مثال ہمیں ماضی میں ملتی ہے ۔ میجر جنرل ریٹائرڈ ظفر مہدی عسکری کے بیٹے حسن عسکری ہیں جنھیں جولائی 2021 میں پانچ برس قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
گزشتہ روز حسن عسکری کے اہل خانہ نے ایک انٹرویو میں حسن عسکری کی گرفتاری پر ایک تفصیلی انٹرویو دیا تھا ۔ جس میں یہ بتایا گیا کہ حسن عسکری پر الزام تھا کہ انھوں نے سنہ 2020 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں مبینہ طور پر اُن کی مدت ملازمت میں توسیع ملنے اور فوج کی پالیسوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کو کہا تھا۔ انھوں نے اس خط کی نقول پاکستانی فوج کے متعدد جرنیلوں کو بھی بھیجی تھیں۔

حسن عسکری کے والد کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ پنڈی بینچ میں دی گئی درخواست میں بتایا گیا تھا کہ ان پر مقدمہ گوجرانوالہ چھاؤنی میں چلا جہاں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے انھیں مجرم ڈیکلیئر کرتے ہوئے پانچ سال قید کی سزا سنائی۔
ایک فوجی اہلکار نے اپنی شناخت صیغ راز میں رکھتے ہوۓ بتایا کہ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے دور میں 25 سویلینز کا ملٹری ٹرائل ہوا اور ان میں سے تین کو سزائے موت جبکہ دیگر کو 10-14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔

تحریکِ انصاف کے گرفتار کارکنان کا مستقبل کیا ہے ؟

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے وقتا فوقتا جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق ان چار برسوں میں کل 641 افراد کو فوجی عدالتوں کی طرف سے سزائیں سنائی گئیں جن میں 345 افراد کو سزائے موت ہوئی۔
ان میں سے اب تک 56 افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ اس عرصے میں صرف پانچ افراد ان عدالتوں سے بری ہوئے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ دو کی ذیلی دفعہ آٹھ کے تحت ممنوعہ مقامات کی ایک تعریف بیان کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نہ صرف وہ تمام مقامات ممنوعہ مقام تصور ہوں گے جنہیں حکومت نے واضح طور پر ایسا قرار دیا ہو اور بلکہ وہ تمام مقامات یا عمارتیں بھی ممنوعہ مقام تصور ہوں گی جہاں جنگ یا دفاعی نظام سے متعلق تنصیبات یا ریکارڈ وغیرہ موجود ہو۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ تین کے مطابق اگر کوئی بھی شخص ریاست کے مفادات اور سلامتی کے منافی کوئی بھی شخص اوپر بیان کردہ کسی ممنوعہ مقام میں محض داخل ہو جاتا ہے تو اسے جرم تصور کیا جائے گا اور ایسے شخص کو10- 14 برس تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
اسی طرح آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ آٹھ کے مطابق ایسے افراد کے سہولت کاروں اور اعانت کنندگان کو بھی وہی سزا دی جاسکتی ہے جو اس جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو دی جائے گی۔
اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے گرفتار کارکنان کو کم از کم 10 – 14 سال کی با مشقت قید سنائی جا سکتی ہے اور جرم کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے عمر قید با مشقت یا سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے ۔
یاد رہے 21 مئی 2033 بروز اتوار کو تحریک انصاف کے ملزمان کے خلاف باقاعدہ کاروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button