تازہ ترینخبریںپاکستان

پنجاب انتخابات کیس: نظرِ ثانی کو اپیل میں تبدیل مت کریں، چیف جسٹس

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے پنجاب الیکشن نظر ثانی کیس کی سماعت کرتے ہوئے رولنگ دی ہے کہ نظر ثانی کو اپیل میں تبدیل نہ کیا جائے۔

سپریم کورٹ میں پنجاب الیکشن نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی جب کہ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل دیے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل سے قبل عدالت کو آگاہ کیا کہ تحریک انصاف سمیت کیس فریق کے جواب کی کاپی نہیں ملی تمام جوابات کا جائزہ لینے کے لیے موقع دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی درخواست پر دلائل تو دیں آئندہ سماعت پر کوئی نیا معاملہ اٹھانا ہو تو ضرور اٹھائیں۔

سجیل سواتی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 188 اختیارات کو محدود نہیں کرتا بلکہ بڑھاتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پاکستان نظر ثانی کی اجازت دیتا ہے، کیا ہم آپ کی مدد کریں کہ جوابات میں کیا کہا گیا ہے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں محدود نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا جا سکتا ہے لیکن کم نہیں کیا جاسکتا، نظر ثانی اپیل میں سپریم کورٹ دائرہ اختیار دیوانی اور فوجداری مقدمات میں محدود ہوتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی حقوق کیلیےعدالت سے رجوع کرنا سول نوعیت کا کیس ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت کارروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی۔ آرٹیکل 184 تھری کا ایک حصہ عوامی مفاد اور دوسرا بنیادی حقوق کا ہے۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ انتخابات کا مقدمہ اگر ہائیکورٹ سے ہوکر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟ انتخابات سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے کروڑوں عوام کے حقوق جڑے ہیں۔ عوامی مفاد تو 90 روز کے اندر انتخابات ہونے میں ہے۔ آپ کے مطابق اگر ہائیکورٹ سے اپیل آئے تو عدالتی دائرہ کار محدود ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ نظر ثانی کیس میں آپ کا موقف ہے کہ دائرہ محدود نہیں لیکن کیا یہ بنیادی حقوق کے مقدمے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں؟ سپریم کورٹ کیوں اپنے دائرہ اختیار میں ابہام پیدا کرے؟

وکیل سجیل سوتای نے کہا کہ آرٹیکل 184 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے نظر ثانی کا دائرہ محدود نہیں کیا جاسکتا، آئینی مقدمات میں نیا نقطہ اٹھایا جاسکتا ہے، عدالت کو نظرثانی میں انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا چاہیے اور نظر ثانی میں ضابطہ کی کارروائی میں نہیں پڑنا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ کیا آپ کی دلیل یہ ہے کہ 184(3) میں نظر ثانی کو اپیل کی طرح سماعت کیا جائے؟

اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ بالکل میں یہی کہہ رہا ہوں 184(3) میں نظرثانی دراصل اپیل ہی ہوتی ہے۔ 184 (3) کے مقدمے میں نظر ثانی کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سجیل سواتی ایڈووکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی دلیل مان لیں تو نظر ثانی میں ازسر نو سماعت کرنا ہوگی، آئین میں نہیں لکھا کہ نظرثانی اور اپیل کا دائرہ کار یکساں ہوگا، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ آئین میں دائرہ کار محدود بھی نہیں کیا گیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نیا مؤقف تو اپیل میں بھی نہیں کیا جاسکتا اگر آپ کی دلیل مان لیں تو بہت پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عدالت کو مکمل انصاف کیلیے آرٹیکل 187 کا اختیار بھی استعمال کرنا چاہیے۔ عدالت کا تفصیلی فیصلہ آ جائے تو زیادہ آسان ہو جائے گا۔

اس موقع پر چیف جسٹس کا الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے مکالمہ بھی ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے دلائل میں بڑے اچھے نکات اٹھائے ہیں، ان نکات پر عدالتی حوالہ جات اطمینان بخش نہیں ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن اور حکومت اس کارروائی کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، ماضی میں حکومت بینچ پر اعتراض کرتی رہی ہے، کبھی فل کورٹ کبھی چار اور تین کا نکتہ اٹھایا گیا، جو باتیں آپ نے لکھ کر دی ہیں وہ پہلے کیوں نہیں کی گئیں؟ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا کسی اور ادارے میں اب الیکشن کمیشن کو یہ موقف اپنانے پر مجبور کیا ہے؟

چیف جسٹس نے رولنگ نظرثانی کو اپیل میں تبدیل مت کریں، آئین نے آرٹیکل 184(3) میں اپیل کا حق نہیں دیا، دائرہ اختیار بڑھانے کیلیے آئین میں واضح ہونا چاہیے۔
عدالت نے کیس کی سماعت بدھ کی دوپہر سوا بارہ بجے تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ آج پاکستان تحریک انصاف نے مذکورہ کیس میں اپنا جواب بھی سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے جس میں عدالت عظمیٰ سے اپیل مسترد کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button