ColumnImtiaz Aasi

آرمی ایکٹ کی گنجائش اور ضمانت .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے عمران خان کو دوران ریمانڈ عدالت نے ضمانت دے کر کوئی خلاف قانون کام کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ سانحہ نو مئی میں ملوث افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت سزائیں دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس میں شک نہیں سانحہ نو مئی میں سرکاری املاک اور بعض حساس مقامات پر گھیرائو جلائو میں ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں اور نہ کوئی مہذب شہری ایسے لوگوں کی ستائش کر سکتا ہے۔ سانحہ میں ملوث افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت کو سزائیں دینے سے پہلے قانونی پہلوئوں پر غور کرنا ہوگا۔ پہلے عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے دوران ریمانڈ ضمانت دینے کی بات کریں گے۔ جب کوئی ملزم عدالت یا پولیس آفیسر کے روبرو پیش ہو دوران ٹرائل پولیس یا عدالت کے سامنے جواز موجود ہو اگر ملزم کسی ناقابل ضمانت جرم کا مرتکب نہ ہوا ہو اور وہ جرم مزید انکوائری یا تفتیش کا متقاضی ہو ایسے ملزمان کو عدالت ضمانت پر رہا کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 497کی ذیلی دفعہ 2اور 497کی دفعہ 1واضح ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سانحہ نو مئی میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اسی قسم کے ایک کیس شیخ لیاقت حسین بنام فیڈریشن آف پاکستان پی ایل ڈی (405)کے پیرا 35جس میں امریکہ کے دو مقدمات 327،304اور یو ایس آر ون کا حوالہ دیتے ہوئے بریگیڈئیر ایف بی علی کیس میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس حمود الرحمان نے قرار دیا ہے جب تک سویلین کسی ایسے علاقے میں جرم نہ کریں جہاں جنگ ڈیکلیئر کی گئی ہو تو ایسے ملزمان کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہوگا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل کرنے کے بارے میں ابہام دور ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ متعلقہ اداروں کو ان پہلوئوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا جن حساس مقامات پر گھیرائو جلائو کے واقعات پیش آئے، کیا ان جگہوں پر سکیورٹی اہلکار تعینات تھے ؟، اگر وہاں موجود تھے تو انہوں نے حملہ آوروں کو روکنے کے لئے کیا اقدامات کئے؟۔ فوجی عدالتوں کا قیام مارشل لاء ادوار میں بھی عمل میں لایا جاتا رہا ہے اور جرائم میں ملوث لوگوں کو فوری سزائیں دی جاتی رہیں ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام اور اس سانحہ میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے کیا اقدامات کئے جاتے ہیں، اس کا آنے والے وقت میں پتہ چل جائے گا، آیا اس سانحہ میں ملوث پی ٹی آئی ورکرز یا جو بھی ہوا انہیں سزائیں دینے کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ تاہم 1975ء میں فوجی عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سازش کرنے والے میجر نادر پرویز اور میجر نثار کو سزائیں دی تھیں۔ ان کے ساتھ پولیس سروس آف پاکستان کے ایک ریٹائرڈ میجر ظہیر جو بعد ازاں اسلام آباد پولیس کے آئی جی رہ چکے ہیں، کو محض ایک ٹیلی فون کال کرنے پر ملوث کر دیا گیا تھا، جنہیں بعد میں فوجی عدالت نے مقدمہ سے بری کر دیا تھا۔ فوجی عدالتیں راولپنڈی، سیالکوٹ، گوجرانولہ، ملتان، فیصل آباد، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں قائم کی جائیں گی۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے تحریک انصاف پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے، سیاسی جماعت پر پابندی حکومت عائد نہیں کر سکتی بلکہ حکومت ریفرنس دائر کر سکتی ہے جس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہوتا ہے۔ کسی سیاسی جماعت پر پابندی اتنا آسان کام نہیں بلکہ اس مقصد کے لئے عدالت عظمیٰ میں ٹھوس شواہد پیش کئے بغیر پابندی ممکن نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ولی خان کی جماعت پر پابندی عائد کی تھی، جسے بعد میں عوامی نیشنل پارٹی سے منسوب کر دیا گیا جو آج تک سیاست میں سرگرم عمل ہے۔ سیاست دانوں کو کسی جماعت یا سیاست دان کے خلاف ایسے اقدامات سے قبل ان تمام پہلوئوں پر غور کرنا چاہیے۔ مستقبل قریب میں وہ خود بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ ہمیں کسی سیاسی جماعت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ایک کالم نگار کی حیثیت سے ہمیں حالات کا درست تجزیہ کرنا چاہیے نہ کہ کسی خاص سیاسی جماعت یا سیاست دان کا کاسہ لیس بن کر حالات کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کی سانحہ نو مئی کے سلسلہ میں ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے سیاست دان ہوں یا عام شہری ہمیں افواج کے شانہ بشانہ چلنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ملک عشروں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ کے پی کے خصوصا بلوچستان اس وقت بہت زیادہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ افواج پاکستان کے بہادر سپوت اپنی جانوں کے نذرانے دے کر ملک اور قوم کی حفاظت کئے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی ورکرز اور دیگر رہنمائوں پر حساس مقامات پر حملہ آور ہونے کے الزامات ہیں انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوگی۔ کوئی معاشرہ سرکاری املاک اور حساس مقامات پر حملوں کی اجازت نہیں دے سکتا۔ زمانہ طالب علمی میں ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف طلبہ تحریک کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس دور میں طلبہ نے ڈبل ڈیکر بسوں اور بنکوں کو جلایا جس کے نتیجہ میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس آخر ایک روز بند ہو گئی لہذا سرکاری املاک اور حساس مقامات پر گھیرائو جلائو سے کیا مقصود تھا؟ حقیقت تو یہ ہے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان الیکشن کی تاریخ پر اتفاق ہو جاتا تو شائد ہمیں سانحہ نو مئی دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں میں بعض طالع آزما اقتدار سے چمٹے رہنے میں عافیت سمجھ رہے ہیں، حالانکہ دیکھا جائے ملک میں حالات کی خرابی کے اصل ذمہ دار وہی ہیں، جنہوں نے اقتدار کی خاطر حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ سانحہ نو مئی کے بعد سپریم کورٹ کے سامنے حکومت اور اس کے اتحادیوں نے عدلیہ کی جس طرح تذلیل کی کوئی مہذب معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ عدالتوں سے من پسند فیصلوں کی توقع اور حساس مقامات پر حملوں کی روش ہم نے ترک نہ کی تو ہمارا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button