Column

سنبھلنے کا آخری موقع .. سیدہ عنبرین

سیدہ عنبرین

اس سے زیادہ لغو بات کیا ہوگی کہ دہشت گردوں کو بالغ نظر اور اپنے لوگ قرار دے کر سر پر بٹھایا جائے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے گھر کو نذر آتش کرنے والے پاکستان کی سکیورٹی کی ضامن افواج پاکستان کی تنصیبات پر حملے کرنے والے اور قومی اثاثوں کو توڑ پھوڑ کر تباہ کرنے والے دہشت گرد اور دشمن کے سپاہی تو ہوسکتے ہیں، اپنے لوگ نہیں ہوسکتے، ان سب سے دہشت گردی کی واقعات کے تحت سلوک ہونا چاہیے، یہاں صنف نازک یا صنف مضبوط کا فرق بھی روا رکھنا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔ بھارتی دہشت گرد کلبھوشن اور اس کا ٹولہ جو کچھ پاکستان میں کر رہا تھا یہ لوگ بھی ایسا کچھ کرتے نظر آئے، ان کی آڈیوز، ویڈیوز، ان کے نعرے، ان کی تقاریر اور عوام کو اشتعال دلا کر سڑکوں پر لاتے اور پھر ان کی حوصلہ افزائی کے تمام ثبوت موجود ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ دہشت گرد اور ان کی لیڈر شپ کب اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔
پی ٹی آئی کی ایک سابق وزیر صحت یاسمین راشد لوگوں کو اکٹھے ہوکر کور کمانڈر کی رہائش گاہ جناح ہائوس جانے کا پیغام دے رہی تھیں، پھر وہاں جو کچھ ہوا ان کی ہدایات کے عین مطابق ہوا۔
آج سے چند ماہ قبل جب انہیں ایسی ہی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کا کہنا ہے یہ سب انتقامی کارروائی ہے، وہ پچھتر سال کی ایک ضعیف عورت اور کینسر کی مریضہ کس طرح جتھوں کو تخریب کاری کیلئے راہ دکھا رہی تھی۔
ایک اور ستر سالہ پی ٹی آئی سابق وزیر شریں مزاری ہیں، ایک موقع پر انہیں ناپسندیدہ حرکات کے سبب پی ٹی آئی سے نکال دیا گیا تو وہ کابینہ کی میٹنگ میں رونے لگیں۔ اُنہوں نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیا، پھر کئی غیرملکیوں سے ان کی سفارشیں آئیں، جس پر ان کی پوزیشن بحال کی گئی، جس کے بعد اُنہوں نے حکومت پاکستان کے ذمہ دار اداروں کیخلاف زہر گھولنا شروع کیا اور اب تک جاری ہے۔
انصافی حکومت کے زوال کے بعد دو شخصیات ایسی ہیں، جن میں ایک عمران خان سے قدرے دور جبکہ دوسری شخصیت نہایت تیزی سے ان کے قریب آئی ہے، دونوں کا رشتہ میاں بیوی کا ہے۔ بظاہر تو جمشید چیمہ میاں ہیں اور مسرت جمشید بیوی ہیں، لیکن عملی زندگی میں معاملہ کچھ الٹ لگتا ہے، ایک منصوبے کے تحت میاں صاحب کچھ پیچھے رہ کر کمک مہیا کرتے نظر آتے ہیں، جبکہ مسرت جمشید چیمہ غیر علانیہ عمران خان کی چیف آف سٹاف بنی ہیں ۔ فارن کرنسی میں کئی ارب ڈالر منی لانڈرنگ کی رقم میں مزید کرپشن کے نیب میں درج مقدمے کے سلسلے میں جب عمران خان کو سپریم کورٹ کی طرف سے ناقابل یقین ریلیف دیا گیا اور انہیں عدالت میں جس طرح خوش آمدید کہا گیا پھر ان کی سہولت کیلئے سپریم کورٹ ریسٹ ہائوس کے دروازے کھولے گئے، وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ ان کے لئے جناب چیف جسٹس کی طرف سے نیک خواہشات کا اظہار بھی حیرت انگیز ہے۔
عمران خان عدالتی ریسٹ ہائوس پہنچے تو اُنہوں نے اپنے اعتماد کے ساتھیوں بالخصوص چیف آف سٹاف شبلی فراز یا کسی دوسرے شخص سے ملاقات کرنے کی خواہش نہیں کی بلکہ چار خواتین کو طلب کیا، ایک ان کی بیگم بشریٰ بی بی ہیں، یقیناً ان حالات میں بیگم کی یاد ستاتی ہے۔ دوسری خاتون مسرت جمشید چیمہ ہیں، جو کئی مسائل کے حل کے علاوہ اعلیٰ شخصیات تک ان کی پیغام رسانی کے فرائض سر انجام دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ دو خواتین اور ہیں، جنہیں طلب کیا گیا، ان دونوں خواتین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ملازمائیں ہیں۔ یہ دونوں خواتین جب وہاں پہنچیں تو اُنہوں نے چادروں کی بکلیں ماری ہوئی تھیں۔ چہرے چھپائے ہوئے تھے، وہ ملازمائوں کے لباس میں نہیں تھیں، البتہ ان پر خادمائوں کا گمان ہوتا تھا، انہیں چہرے چھپانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اعلیٰ عدالتی ریسٹ ہائوس کسی غریب کی جھونپڑی نہیں ہے، جہاں آٹا گوندھنے والی برتن دھونے والے اور روٹی پکانے والی کے ساتھ ساتھ لیپا پوتی کرنے والی کی ضرورت ہو، یہ آراستہ و پیراستہ ریسٹ ہائوس ہے، جہاں پر قسم کے خدمت گار ہمہ وقت وقت ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں، کسی بھی مہمان کو اپنے ساتھ ملازمائوں کی ضرورت پیش نہیں آتی، لیکن خان کا اس ریسٹ ہائوس میں قیام ایک سپیشل گیسٹ کے طور پر تھا، یہاں جو کچھ ہوا وہ سب بھی سپیشل تھا۔ دہشت گردوں نے عمران خان کو ریلیف ملنے اور بعد ازاں لاہور پہنچنے پر جشن فتح منایا جبکہ حکومت پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی کے ذمہ داروں کے خلاف ایک اور مزید منظم کریک ڈائون کرنے کی اطلاعات آرہی ہیں، جو ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا حلف دے کر میدان میں آنے کی تیاری میں ہیں۔ اس کا پہلا اور آخری حل صرف ایک ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں اداروں میں خدمات انجام دینے والوں کو ہاتھ پائوں باندھ کر دہشت گردوں کے سامنے نہ پھیکا جائے بلکہ انہیں دہشت گردوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا اختیار دے کر تعینات کیا جائے۔ ملک دشمن سرگرمیوں میں حصہ لینے والی خواتین کو گرفتار کرنے کی اطلاعات آرہی ہیں، لیکن ابھی وہ عورتیں گرفتار نہیں ہوئیں جو فوجی ٹرکوں میں شہریوں کی حفاظت کیلئے آنے والے سپاہیوں کو اکساتی تھیں کہ وہ اپنی فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور عمران خان کا ساتھ دیں۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث اور گرفتار شدگان کی نسبت ایسی خواتین سے امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، انہیں حوالات میں آرام دہ بستر بہترین کھانا، فون کی سہولت میسر ہے، حالانکہ ان کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جس کے لئے یہ ملک دشمن عورتیں پوری طرح کوالیفائی کرتی ہیں۔
جناب مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم کی طرف سی سپریم کورٹ کے سامنے دھرنوں کا اعلان کیا گیا جس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے دشمن کے ہاتھ میں بندوق ہے اور غلیل سے اس کا مقابلہ کرنے جارہے ہوں، غلیل بھی ایسی جس میں پتھر موجود نہیں، بہت دیر کی مہربان آتے آتے۔
افواج پاکستان کی طرف سے تحمل کو کمزوری سمجھنے والے اور ایک دوسرے اٹیک کی تیاری کرنے والے ہوش کے ناخن لیں، سنبھلنے کیلئے یہ آخری موقع ہے، اس سے فائدہ اٹھاکر اپنی سمت درست نہ کی گئی تو پھر ہر طرف سے بین کی آوازیں آئیں گی۔ یہ بین قائدین پی ٹی آئی اور کارکنوں کے گھر سے بیک وقت شروع ہونگے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button