تازہ ترینخبریںپاکستان

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت شروع

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع ہو گئی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹیوں کا ریکارڈ آج طلب کر رکھا ہے، جبکہ تمام فریقین سے تحریری جوابات طلب کر رکھے ہیں۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سے متعلق ریکارڈ تاحال فراہم نہیں کیا ہے۔

ن لیگ کی فل کورٹ بنانے کی استدعا

چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کے قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں ن لیگ نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کر دی۔

درخواست میں مسلم لیگ ن کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایکٹ کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھانے والی درخواستوں کی سماعت جاری ہے، ‎ایکٹ کے مقاصد میں ایک بینچ تشکیل اور سماعت پر چیف جسٹس کے اختیارات ہیں۔

مسلم لیگ ن کی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت مقدمات کی سماعت میں سینئر ترین ججوں کو بھی کردار دینا ہے، قانون بننے سے پہلے ہی فوری داخل درخواستوں پر چیف جسٹس نے 8 رکنی بینچ بنایا۔

درخواست میں مسلم لیگ ن نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے 13 اپریل کو مقدمات کی سماعت کے لیے 8 رکنی بینچ پر خوشی محسوس کی، بینچ نے اسی دن ایک عبوری حکمِ امتناع سے مجوزہ ایکٹ پر عمل درآمد روک دیا۔

مسلم لیگ ن نے استدعا کی ہے کہ درخواست ہے کہ ان درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، معاملہ بڑی آئینی اہمیت کا ہے اور اس میں شامل نکات منفرد نوعیت کے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایک طرف منتخب نمائندوں کے ذریعے قانون سازی کا حق اور اختیار استعمال کیا گیا ہے، دوسری طرف عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی ضرورت ہے۔

مسلم لیگ ن کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس تناظر میں فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کے آرٹیکل 175(2)،191 اور55 کی عدالتی تشریح ہونا ہے، پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایکٹ کو نفاذ سے پہلے ہی عبوری حکم سے روک دیا گیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیچیدہ مسائل اور قانون کے پائیدار حل کے لیے تمام ججز کی اجتماعی حکمت اوردانش ضروری ہے، خود چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات خاص طور پر بینچوں کی تشکیل میں اشتراک شامل ہے۔

ن لیگ کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان حالات میں یہ مناسب نہیں کہ اس معاملے کی سماعت 8 رکنی بینچ کرے، سماعت بھی وہ بینچ کرے جس کا انتخاب اور سربراہی چیف جسٹس خود کر رہے ہوں۔

درخواست میں ن لیگ نے کہا ہے کہ ایسا تاثر خواہ بے بنیاد ہو کہ ’بینچ چیف جسٹس کے خیالات سے بنا ہے‘ اس سے گریز کرنا چاہیے۔

مسلم لیگ ن نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے کئی موجودہ اور ریٹائرڈ ججز نے بینچ کی تشکیل کے طریقہ کار پر تحفظات ظاہر کیے ہیں، یہ تحفظات بار ایسوسی ایشنز، بار کونسلز، سیاسی جماعتیں اور قانونی مبصرین بھی اٹھا رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button