تازہ ترینخبریںپاکستان

پنجاب انتخابات کے لیے 21 ارب مختص کر دیے : ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک

قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک سیما کامل نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو آگاہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر پنجاب میں انتخابات کے لیے سٹیٹ بینک نے 21 ارب روپے کے فنڈز مختص کر دیے ہیں تاہم ان فنڈز کے اجرا کا اختیار سٹیٹ بینک کے پاس نہیں ہے۔

پیر کے روز ممبر قومی اسمبلی قیصر احمد شیخ کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا، ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک سیما کامل اور وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق باجوہ بھی شریک ہوئے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے پیر کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے حکام کو اس معاملے پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سٹیٹ بینک کو پارلیمان کی منظوری کے بغیر اخراجات کا اختیار نہیں اور یہ کہ فنڈز کے اجرا کا معاملہ آج ہی وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا جہاں سے منظوری کے بعد یہ کیس قومی اسمبلی میں لے جایا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 21 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کے معاملے پر سمری آج ہی وفاقی کابینہ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اجلاس کے آغاز میں چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ کیا وزیر خزانہ اسحاق ڈار اجلاس میں نہیں آئے جس پر انھیں حکام کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ وزیر خزانہ فی الحال عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں موجود ہیں۔

کمیٹی کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کے لیے 21 ارب کے فنڈز کے اجرا کی ہدایات کا جائزہ لیا گیا۔ اس پر بات کرتے ہوئے کمیٹی کے رکن برجیس طاہر نے کہا کہ ’ہم کہہ چکے ہیں کہ صرف پنجاب میں انتخابات ملک کے لیے نقصان دہ ہوں گے کیونکہ جو پنجاب میں جیتے گا، وہی باقی تینوں صوبوں میں جیتے گا اور (پاکستان کے زیر انتظام) کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی اسی جماعت کی حکومت ہو گی۔‘

برجیس طاہر کا کہنا تھا کہ ’اگر ملک کو نقصان پہنچانا ہے تو پنجاب میں پہلے الیکشن کروا لیں۔‘ انھوں نے سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے حکام سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ سٹیٹ بینک کو فنڈز فراہم کرنے کی ہدایت کیسے دے سکتی ہے؟

’کیا سٹیٹ بینک اور سیکریٹری خزانہ نے اپنی جیب سے فنڈز دینے ہیں۔‘ اس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ فیڈرل کنسالیڈیٹڈ فنڈ کے ایک ایک پیسے کا حساب وفاقی حکومت رکھتی ہے اور وزارت خزانہ آگاہ کر چکی ہے کہ انتخابات کے لیے بجٹ میں اضافی فنڈز نہیں رکھے گئے۔

وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ انتخابات کی مد میں دو بار اخراجات ملکی مفاد میں نہیں ہیں جبکہ قومی اسمبلی فنڈز کے اجرا کا مطالبہ پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔ برجیس طاہر کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک کا الیکشن کرانے کے لیے فنڈ جاری کرنا خلاف قانون ہو گا۔ اس موقع پر وزیر قانون کا کہنا تھا کہ عدالتی آرڈر کے ذریعے فنڈز کے اجرا کا معاملہ قومی اسمبلی کے سامنے رکھا جائے کیونکہ فنڈز کی تقسیم کے آئینی طریقہ کار کو اختیار کرنا ہو گا ورنہ کل کو 21 ارب روپے کے فنڈز کا حساب کون دے گا۔

انھوں نے کہا کہ اگر سٹیٹ بینک فنڈز جاری کر دیتا ہے تو کیا مستقبل میں یہ (سٹیٹ بینک) افسران کی تنخواہوں سے کٹے گا یا گورنر سٹیٹ بینک دیں گے؟ کیونکہ کل کو سوال اٹھ سکتا ہے کہ فنڈز کے اجرا کا آئینی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا یا شاید عدالتی احکامات میں قانونی معاملہ اوور لک ہو گیا ہے۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ’ہم کہتے ہیں اخراجات شفاف اور آئین کے مطابق ہونے چاہیں۔‘ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایک طریقہ کار یہ ہو سکتا ہے کہ دیگر اخراجات کی مد میں الیکشن اخراجات کر لیے جائیں۔

اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ ’سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ فنڈز جاری کرکے بعد میں ایکس پوسٹ فیکٹو منظوری لے لی جائے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر قومی اسمبلی نے 30 جون تک فنڈز کی منظوری نہ دی گئی تو پھر 21 ارب کا ذمہ دار کون ہو گا۔‘

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر یہ صورتحال ہوتی ہے تو اس حوالے سے سنجیدہ مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک آپشن یہ ہے قومی اسمبلی سے ابھی ایکس پوسٹ فیکٹو فنڈز کی منظوری لے لی جائے کیونکہ فنڈز کی حتمی منظوری کا اختیار قومی اسمبلی کے پاس ہے۔

اس موقع پر وزیر مملکت برائے خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ہم سپریم کورٹ کی ہدایات کا احترام کرتے ہیں۔ مگر رولز پر عمل درآمد کے تمام ادارے پابند ہیں۔‘ وزیر قانون کا کہنا تھا کہ پریم کورٹ نے کہا ہے کہ ایکس پوسٹ فیکٹو اجازت لے لی جائے۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی نے کہا کہ منظوری نہیں دیں گے تو اس کی ایکس پوسٹ فیکٹو منظوری مشکل ہو جائے گی۔ اٹارنی جنرل نے تجویز دی کہ قومی اسمبلی سے پہلے منظوری لے لی جائے تو بہتر ہو گا۔

وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہا کہ ’ہم اس ضمن میں سمری وفاقی کابینہ کو بھیج دیتے ہیں۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button