ColumnJabaar Ch

نیا آغاز! ۔۔ جباز چودھری

جبار چودھری

نیا آغاز!

پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوگیا ہے۔ اگر سب ٹھیک رہا تو پنجاب میں تیس اپریل کو پولنگ ہونا طے ہوا ہے لیکن حالات مشکل نہیں سنگین ہیں۔راستے سب کٹھن اور منزل کا کوئی اتاپتا، نہ ہی کوئی نشان۔ملک صرف معاشی طورپرہی دیوالیہ نہیں ہورہا۔اس ملک کے تمام ادارے، پورا سسٹم، سب محکمے،سب شعبے ہی دیوالیہ پن کا شکارہیں ۔اس ملک کی سیاست دیوالیہ ہے۔معاشرہ دیوالیہ ہے۔ اخلاقی طورپرناقابل اصلاح اوراجتماعیت کا مکمل اختتام۔ عوام کا ریاست اور ریاستی معاملات سے ٹوٹتا تعلق بہت ہی تکلیف دہ ۔اس سے بڑی تباہی اور کیا ہوگی کہ انصاف کا آخری در،دربدر۔قاضی القضاء سمیت عدل کرنے والے ہر شخص پر شک کے دائرے۔گلی محلوں میں بینچ میں موجود قاضیوں کی اشکال دیکھ کر فیصلے سناتے عام لوگ اور سب سے خطرناک بات یہ کہ ان بینچز نے اپنے متعلق فیصلے بتانے والوں کو کبھی مایوس بھی نہیں کیا۔مقدمے کی شنوائی سے پہلے ہی جو فیصلہ لوگوں کی زبانوں پر ہوتا ہے عین وہی فیصلہ سنایا بھی جاتا ہے۔یہ تک پہلے بتادیا جاتا ہے کہ فیصلہ کتنے معززججز کے اختلاف سے آئے گااورکون کون سا معززجج اختلافی نوٹ لکھے گا۔انصاف کی دیوی کے محل میں بیٹھنے والے ہی تقسیم کا شکار۔ملک کا آئین ایک لیکن اس آئین کی تشریحات نہ صرف الگ الگ بلکہ ایک دوسرے سے مکمل متضاد۔آئین کی تشریح کے لیے سفید سنگ مررکی عمارت جانے والے نیا آئین لکھواکرواپس لوٹ آتے ہیں۔آئین اس عمارت پر دستک نہیں دیتا بلکہ ہر وقت ہی کٹہرے میں کھڑارہتا ہے۔ آئین سوال کناں ہے کہ مجھے بھی تو بتاؤمیراقصور کیا ہے۔میںنے آخرآپ سب کا کیا بگاڑا ہے کہ میرا حلیہ بگاڑے جارہے ہو؟
کسی کو کسی پر اعتبار ہی باقی نہیں بچا۔ہر طرف شک کے ڈیرے۔ایک دوسرے سے بات کرنا تو دور،دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادارنہیںپورا سسٹم اپنی بقاکی جنگ لڑتے لڑتے نفرتوں میں اتنا دورنکل آیا ہے کہ مقصد ہی صرف بقاکی جنگ رہ گیا ہے۔ہر کوئی اپنے پاؤبھرگوشت کیلئے ریاست کی پوری گائے کے پیچھے چھرالے کر بھاگ رہا ہے۔کسی کو کوئی پروا نہیں کہ وہ بوٹی نکالے گا تو گائے کیسے بچے گی۔بس ہر کسی کو اپنی بوٹی چاہیے توبس چاہیے۔ ایک فریق کو فوری الیکشن چاہیے اور دوسرے کو فرار۔کوئی یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کررہا کہ صوبائی اسمبلیوں کی اس طرح قبل از وقت تحلیل پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے تو پہلی بار وقوع پذیر ہونے والی صورتحال کیلئے کوئی مشترکہ حل بھی تو پہلی بار تلاش کرنا پڑے گا۔نوے دن میں الیکشن آئین کا تقاضا ہے ،بجا ہے اس پرکوئی دورائے ہیں اور نہ بحث، لیکن اس پر تو بحث کرلیں کہ آج دو صوبوں میں الیکشن ہوگئے تو وہاں پانچ سال کیلئے حکومتیں قائم ہوجائیں گی۔کل کو قومی اسمبلی کے الیکشن ہونا ہے تو آئین کا یہ تقاضا بھی تو ہے کہ انتخابات کے وقت نگران حکومت قائم ہو تاکہ الیکشن کی شفافیت پرسوال نہ ہوتو یہ تقاضا کل کو کیسے پورا ہوگا؟صرف ایک صوبہ پنجاب ہی ایسا ہے کہ جو یہاں سے جیت گیا وفاق میں حکومت بناجائے گاتو کیا کل کو پنجاب میں جب ڈیڑھ سو قومی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن ہورہا ہوگا تو وہ کون کروائے گا؟ کیا اس وقت ایک منتخب حکومت کی نگرانی میں سب جماعتوں کوالیکشن قبول ہوگا؟ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ پنجاب کی صرف بیس سیٹوں کا الیکشن تھا توایک جماعت نے اس وقت کے وزیراعلیٰ حمزہ شہبازپر اعتراض کردیا تھا اور لاہور ہائی کورٹ نے صرف بیس حلقوں کے ضمنی الیکشن ،جی ضمنی الیکشن کیلئے صوبے کے وزیراعلیٰ کو عارضی اور ٹرسٹی وزیراعلیٰ بنادیا تھا تاکہ وہ اس الیکشن پر اثر اندازنہ ہوسکے تو وہ الیکشن جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت تشکیل پائے گی اس کو ایسے ہی چھوڑدیا جائے گا؟کیا کسی نے سوچا کہ اُس وقت پھر وہ سیاسی جماعت جس کی صوبے میں حکومت نہیں ہوگی وہ یہ الیکشن ہونے دے گی؟ کیا کل کو پھر سپریم کورٹ یہی مقدمہ دوبارہ نہیں سن رہی ہوگی؟کیا اس وقت بھی دوصوبوں کے منتخب وزرائے اعلیٰ کو غیر فعال کیا جائے گا؟ کیا اس وقت بھی وزرائے اعلیٰ کو دوماہ کیلئے ٹرسٹی قراردیا جائے گا یا ان کو عارضی بنیادوں پر ہٹاکر کوئی نگران سیٹ اپ بنایا جائے گا؟اگر ایسا ہوگا تو وہ کس آئین کے تحت ہوگا کیونکہ اس آئین میں تو ایسا کچھ نہیں ہے۔ہماراوژن عقل سے اتنا پیدل کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا بائیس کروڑ کے اس ملک میں اتنی سکت بھی نہیں بچی کہ ہم اتنے سادہ سے مسئلے کا کوئی قابل قبول حل آج نکالنے کی بجائے اس کو بھی کل عدالت کے دروازے پر پھینک کرپھر تین دو یا چار تین کی بحث کرتے پھریں؟آج جس معزز جج نے یہ سوال اٹھایا کہ الیکشن کی تاریخ سے پہلے اسمبلیوں کی تحلیل پر بھی بحث کرلیں شاید بہتر حل نکل آئے لیکن وہ معزز جج بینچ سے باہر ہوگئے۔
مجھے آئین میں درج ایک ایک حرف کا پاس ہے ۔نوے دن میں الیکشن ہونا ہیں اس پر بحث نہیں کہ سپریم کورٹ نے بھی وہی فیصلہ دیا جو لاہور کی ہائی کورٹ پہلے ہی دے چکی تھی توکیا وہ فیصلہ کافی نہیں تھا کہ ازخود نوٹس لے کر قوم کے سامنے سنگ سفید کی عمارت میں موجود تقسیم پر باتیں کرنے کا موقع دے دیا گیا؟بات اس پر ہونی لازم ہے کہ ہمارے ملک میں صوبائی اور قومی الیکشن اگر الگ الگ وقت پر کروانا ہے تو اس کا حل کیا نکالا جائے؟یہ قضیہ پہلے ہمارے سامنے اگر نہیں آیا تو اب آچکا ہے۔ اب اس پر بات کرکے اس کا حل نکالنے میں قباحت کیا ہے لیکن نہیں بس اپنا پاؤ گوشت نکالنا ہے چاہے گائے زندہ بچے یا مرجائے ہماری بلاسے۔ہمارے پڑوس میں یہ نظام موجود ہے لیکن ہمارے ہاں نہیں ہے تو بنانے میں کیا حرج ہے۔ہندوستان میں سارا سا ل انتخابات ہوتے رہتے ہیں لیکن کوئی نگران حکومت نہیں بنتی ۔وزیراعظم اور حکومت موجود ہوتی ہے لیکن الیکشن ہوجاتا ہے اور ہوتا بھی شفاف ہے۔ ہارنے والا کھلے دل سے قبول کرکے مخالف کو مبارکباد دیتا ہے۔ہمارے ہاں شکست تسلیم کرنے کا رواج ہی نہیں ۔جس کو اپنے گھر کے ووٹ بھی نہ ملیں وہ بھی دھاندلی دھاندلی کہہ کر شرمندگی مٹانے لگتا ہے تواس پر کسی جگہ فل سٹاپ لگانا ہے یا نہیں؟
ہندوستان میں نگران سیٹ اپ اس لیے نہیں کہ وہاں الیکشن کمیشن اتنا مضبوط ہے کہ وزیراعظم کی اتنی اوقات ہی نہیں رہتی کہ اس کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے کی ہمت کرپائے ۔ہمارے ہاں الیکشن کمیشن کو غریب کی جورُو(بیوی) بناکر رکھ دیا ہے۔ جو آتا ہے منہ اٹھاکر اس کو چپیڑلگاجاتا ہے ،کسی جماعت کا منشی کہہ جاتا ہے ۔اعلیٰ عدلیہ بھی اس عظیم ادارے کی پشت پر کھڑی ہونے کی بجائے سامنے کھڑی ہوتی ہے ۔اس کے کیے ہوئے فیصلے ردی کی ٹوکریوں میں پھینک دیتی ہے۔جعل سازی کرکے، پیروں کے انگوٹھے لگاکر ننگی دھاندلی کرکے اسمبلی آنے والوں کے خلاف الیکشن کمیشن کے نااہلی کے فیصلوں پر سٹے آرڈر جاری کرکے پانچ پانچ سال نمائندگی کا حق دیے رکھتی ہے۔ایسے میں الیکشن کمیشن کیا کرے؟وہ ڈسکہ کی دھندمیں الیکشن کوگُم ہونے سے بچائے توسیاسی جماعت سے دشمنی ہو جائے؟ وہ خاک آزاد ہوگا ؟الیکشن کمیشن کو آزاد اورخود مختار اس ملک کے اداروں نے بنانا ہے اور سب سے بڑھ کر سیاسی جماعتوں نے خود بنانا ہے۔ اوبھائی گیم کے رول تو بنالو پھر کھیل بھی لینا۔سیاسی جماعتیں چاہیں تو چیف الیکشن کمشنر اور باقی ممبران کے انتخاب کا پیمانہ سخت ترین بنالیں۔ بندہ لگاتے وقت باریک سے باریک چھلنی سے گزارلیں ۔اس کے بعد اس کے پیچھے دیوار کی طرح کھڑے ہوجائیں۔اس کے فیصلوں کو ماننا شروع کردیں۔عدالتیں اس کے فیصلے قبول کرنا شروع کردیں ۔ الیکشن کمیشن کے خلاف آنے والی درخواستوں کورد کرنا شروع کردیں دیکھیں کیسے یہ ادارہ شفاف الیکشن نہیں کرواتا۔وہ کروائے گا ۔اس کو کروانا پڑیں گے کیونکہ اس کے پاس عوام کی قوت اور اعتماد ہوگا لیکن یہاں جو ہارجاتا ہے وہ الیکشن کمیشن کو اپنا مجرم نمبرون قراردیتا ہے ۔جو بھی الیکشن کمیشن کوللکاررہا ہو اس کی تفتیش کرکے دیکھ لیں پیچھے کوئی اس کا ذاتی مفاد نکلے گا۔اس کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
الیکشن ہوجائیں گے لیکن کیا مسائل کا حل ہوگا؟ جواب ہے نہیں ہوگا۔توپھرحل کیا ہے؟ کرنا کیا ہے؟حل یہ ہے کہ اس ریس میں سرپٹ دوڑنے والے ایک منٹ کے لیے ٹائم آؤٹ لے لیں۔ رک کر سوچیں تو سہی کہ وہ جس ریس میں دوڑ رہے ہیں اس کی منزل کیا ہے؟اگر منزل نظر نہ آئے توسب ایک جگہ ہوکر کوئی’’ ٹروتھ کمیشن ‘‘بنالیں۔عدلیہ سے لیکر اسٹیبلشمنٹ تک سے مستفید ہونے والے اپنا اپنا سچ بول دیں ۔ایک فریش اسٹارٹ یا نیا آغازکرلیں۔فی الوقت صرف ایک کام کرلیں کہ الیکشن کو شفاف اور آزادکیسے بنانا ہے۔اس گیم کے رول کیا ہوں گے۔نگران سیٹ اپ ہونا چاہئے یا اس سے جان چھڑانی ہے۔الیکشن کمیشن کو آتے جاتے چپیڑیں کرانی ہیں یا اس کی طرف انگلی اٹھانے والے کواٹھانا ہے۔اور جو بھی جیت جائے اس کو برداشت کرنا ہے۔آئین کی صرف تشریح کرنی ہے نیا آئین نہیں لکھنا۔احتساب کرنا ہے انتقام نہیں لینا۔اس طرح کا نیا آغازکرکے دیکھ لیں شاید ہم دیوالیہ ہونے سے بچ جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button