Columnعبدالرشید مرزا

اگر آپ وزیر خزانہ ہوتے ۔۔ عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

اگر آپ وزیر خزانہ ہوتے

سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان جب بھی ملاقات کیلئے بلاتے پاکستان کے معاشی بحران کی وجہ سے فکر مند نظر آتے ہیں آج کی ملاقات میں انہوں نے مجھے ایک سوال کیا کہ اگر آپ وزیر خزانہ ہوتے تو معیشت کی بہتری کیلئے کونسی تجاویز دیتے۔ حقیقت یہ ہے پاکستان اس وقت معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی، بڑھتی ہوئی افراط زر، شرحِ مبادلہ اور غیر معقول حد تک بلند شرح سودکے ساتھ، ملک سری لنکا کی معاشی تنزلی کی طرح کی راہ پر گامزن ہے۔ ملک میں مہنگائی کا 48 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔
آج وطن عزیز 130 بلین ڈالر کا مقروض ہے یعنی ہر پاکستانی قریباً 2 لاکھ 35 ہزار کا مقروض ہے، آدھا پاکستان غربت کی لکیر سے نیچے کی ذندگی گزار رہا ہے۔ جی ڈی پی سے قرض کی شرح 88 فیصد ہے۔برآمدات ہماری درآمدات کی آدھی سے بھی کم ہیں۔ ان مشکل حالات میں پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے تجاویز حاضر خدمت ہیں یہ تجاویز وزیر اعظم شہباز شریف کیلئے بھی قابل عمل ہیں۔ سیاسی استحکام کا فقدان معاشی ترقی کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے عمران خان، نواز شریف اور آصف علی زرداری ملک کے عدم استحکام کے بیرونی ایجنڈے پر عمل کررہے ہیں۔ اگر پاکستان کے تمام سیاستدان اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کریں اور اپنا سرمایہ پاکستان واپس لے آئیں تو معیشت بہتر ہو سکتی ہے اور جتنا سرمایہ واپس آئے اسے اگلے دس سال تک ٹیکس فری کی سہولت دی جائے۔ ہماری بدقسمتی ہے ہم نے لوٹنے والوں سے پیسہ نہیں نکلوایا بلکہ سرمایہ کاری کرنے والوں کیلئے مشکلات پیدا کیں۔ ایک پائیدار اقتصادی نقطہ نظر کیلئے ادائیگیوں کے توازن کو مستحکم کرنے کیلئے ڈالر کی آمدنی میں حصہ ڈالناہے اور شرح تبادلہ تشویش کی ایک بڑی وجہ ہے۔پاکستان کافی عرصے سے کمزور ایکسچینج ریٹ میں کمی کی گرفت میں ہے۔ آج ایک ڈالر کی قیمت اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جو قریباً 286 پاکستانی روپے ہے۔ طویل عرصے میں، روپے کی قدر میں بڑی کمی برآمد کنندگان خاص طور پر ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان کیلئے بدترین ہے کیونکہ اس سے ان پٹ لاگت بڑھ جاتی ہے، جس سے برآمدات کم مسابقتی ہوتی ہیں۔ برآمدات کے ذریعے کمائے گئے ڈالر سب سے زیادہ پائیدار ہوتے ہیں جس کے اضافی فائدے کو واپس کرنے کی کوئی مجبوری، کوئی سود نہیں۔ لہٰذا، برآمدات کے ذریعے پیدا ہونے والے ڈالر پر توجہ مرکوز کرنا بانڈز سے کہیں بہتر آپشن ہے۔ مزید برآں، سود معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہے۔ جس کو آہستہ آہستہ ختم کرنے سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔پاکستان کے وہ ادارے جو گورنمنٹ کی ملکیت ہیں جیسے پی آئی اے، پاکستان ریلوے وغیرہ انہیں مکمل پرائیویٹ کرنے کی بجائے جس سے بیروزگاری بڑھنے کا خطرہ ہے،انہیں پرائیویٹ اور پبلک پاٹنر شپ کی بنیاد پر چلانا چاہیے جس سے سرمایہ کاری بھی آئے گی اور اچھی مینجمنٹ بھی ملے گی اور ادارے ترقی کریں گے۔ آئی ٹی کے شعبے میں اچھی پلاننگ کے ساتھ ایک سال میں آسانی سے 2 سے 3 بلین ڈالر کا اضافہ کرسکتا ہے۔ آج زرعی درآمدات 8 ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں جدید ٹیکنالوجی اور ریسرچ سے ہمارے کاشتکار ایک ایکڑ کی پیداوار میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ماہرین کی مدد سے ان کی تربیت کی جائے۔ جس سے ہماری زرعی اجناس کی درآمدات میں کمی آئے گی اور 5 بلین ڈالر کے قریب زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔ مہنگی گاڑیاں، کاسمیٹکس، کھانے پینے کی اشیاء، گارمنٹس وغیرہ کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک انڈیا نے ایسی اشیاء جو درآمد کی جاتی ہیں جیسے گاڑیاں ان کی ٹیکنالوجی اپنے ملک میں لے کر آئے ہیں جس میں تمام پارٹس ملک کے اندر بنتے ہیں جس سے معیشت بہتر ہوئی اور زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔ انٹر پرینیور شپ اور اختراع کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے نوجوانوں اور اپنے حق سے محروم ہنر کو نچلی سطح پر معاشی انقلاب لانے کیلئے بااختیار بنا سکیں۔ ہمیں اپنی پالیسی سازی کو معاشی فارمولے سے چھٹکارا دلانا چاہیے جس کے تحت معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے شرح سود کو ختم کرنا ضروری ہے، زیادہ افراد کو معیشت میں لانے کیلئے انٹرپرینیورشپ اور مالی شمولیت بہت ضروری ہے۔ مالی سال 21 کے مقابلے مالی سال 22 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 517 فیصد اضافہ ہوا۔ اپنے بڑھتے ہوئے قرضوں کے خطرات سے نمٹنے کیلئے توانائی کی کارکردگی کو یقینی بنا کر درآمدی بل میں کم از کم 5 بلین ڈالر، خاص طور پر توانائی کی کمی کریں۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ پٹرولیم کی درآمدات میں جون 2022 میں حجم کے لحاظ سے 50 فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان نے گزشتہ سال 24 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کیں۔گیس کو صرف پیداواری مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ توانائی کی ایمرجنسی کا اعلان کریں اور توانائی کے تحفظ کیلئے ایسے اقدامات متعارف کروائیں جو پاکستان کی معیشت کو ایک سے زیادہ طریقوں سے بچا سکیں جس میں جارحانہ تحفظ درآمدی بلوں میں 25فیصد سے زیادہ کمی کرتا ہے اور 6 بلین ڈالر کی بچت کرتا ہے۔ قرضوں کی شرح کو کم کرنے کیلئے بڑے پراجیکٹس جیسے بھاشا ڈیم، داسو ہائیڈرو پاور وغیرہ جن سے سالانہ دن اتنی ذیادہ ہوتی ہے کہ ذیادہ سے ذیادہ چار سے پانچ سال میں اپنی سارے اخراجات پورے کر لیتے ہیں ان پراجیکٹس کے 49فیصد شیئرز سرمایہ کاروں کو ڈالرز میں دئیے جائیں جس سے سرمایہ کاری آئے گی اور زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔ فوری طور پر ہمیں کوشش کرکے اپنے قرضوں کی ادائیگی کو ری شیڈول کروانا چاہیے تاکہ ہمیں پاؤں پر کھڑا ہونے کا وقت مل جائے گا۔ ہمیں تھرمل کو کم کرکے ہائیڈرو پاور کی انرجی کو بڑھانا ہوگا تاکہ فرنس آئل پر جو ہمارے ڈالر خرچ ہوتے ہیں وہ بجیں گے۔ نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو ہماری آبادی کا 60فیصد ہیں یعنی ہماری آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مبنی ہے جن کی عمر 30 سال سے کم ہے ان کو ٹیکنیکل مہارت دینے چاہیے جس کے بعد وہ نوجوان ملک کے اندر اور بیرون ملک سے وطن عزیز کو سرمایہ فراہم کرسکتے ہیں اور بیروز گاری کم ہوگی۔ پاکستان کے وہ ادارے جن قوم اعتماد کرتی ہے جیسے الخدمت فاؤنڈیشن، اخوت فاؤنڈیشن وغیرہ، ان کا ایک بورڈ بنایا جائے جو ملک کے موثر افراد کو اپیل کریں ان مشکل حالات قرض کی ادائیگی کیلئے ضرور ایک بڑا سرمایہ اندرون اور بیرون ملک سے اکٹھا ہو جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button