Aqeel Anjam AwanColumn

اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد! .. عقیل انجم اعوان

عقیل انجم اعوان

 

عمران خان نےقومی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان بھی جذبات اور جلد بازی میں کر لیا اور نتیجتاً اب عمران خان قومی اسمبلی میں واپس آنا چاہتے ہیں، لیکن وہ اگر یہ یوٹرن لیتے ہیں تو ان کے ووٹروں کا ان سے دور جانے کا خدشہ ہے اس بات کو لیکر پی ٹی آئی باوجود قومی اسمبلی میں واپس آنے کی خواہش کو دبا کر بیٹھی ہے۔دوسری طرف عمران خان اپنی مقبولیت کیش کراو کر جلد از جلد انتخابات کروانا چاہتے ہیں تاکہ عوامی سپورٹ کے زریعے ایک بار پھر وہ حکومت میں آ جائیں لیکن وہ جلد بازی میں ایسی سیاسی چالیں چل گئے کہ انتخابات جلد ہونا تو دور کی بات شاید ان میں چند ماہ تاخیر ہو جائے۔عمران خان نےلانگ مارچ کا آغاز اچھا کیا تھا لیکن مارچ کے اختتام پر عمران خان کا پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے کا اعلان انہیں سیاسی فائدہ پہنچانے کے بجائے الٹ نقصان پہنچا رہا ہے۔اس وقت قاف لیگ ایک مضبوط پوزیشن میں آ چکی ہے، وہ اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے تحریک انصاف سے آئندہ انتخابات میں دو درجن سیٹوں کا وعدہ لے چکی ہے جو ان کی ایک بڑی سیاسی جیت تصور کی جارہی ہے۔اس وقت ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ کیا عمران خان قبل از وقت
انتخابات کا اپنا ٹارگٹ حاصل کر پائیں گے؟لیکن فی الحال اس کا جواب نفی میں آ رہا ہے۔ اس وقت وفاقی حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ یا پھر باقی ماندہ مقتدر حلقے، سب ہی اس بات پر آمادہ ہیں کہ موجودہ حالات میں ملک انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔یعنی عمران خان ایک دفعہ پھر غلط سیاسی چال چل چکے ہیں جو ان کیلئے فائدے کے بجائے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔ اگر عمران خان قبل از وقت انتخابات کیلئے واقعی دباؤ بڑھانا چاہتے تھے تو عدم اعتماد کے فوراً بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کر دیتے لیکن ایسا کرنے کے بجائے پنجاب میں 10 سیٹوں والی جماعت کی جھولی میں وزارت اعلیٰ ڈال کر اپنی پارٹی کو ناراض کر دیا۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر 30 حلقوں پر تحریک انصاف کے مضبوط امیدوار نہ کھڑے ہو سکیں تو کیا وہ قاف لیگ کی حمایت کریں گے یااپنی سیاست بچانے کو ترجیح دیں گے؟ یہاں بھی اس فیصلے کا نقصان تحریک انصاف کو ہی پہنچ رہا ہے۔ دوسری طرف وفاقی حکومت کسی صورت پنجاب میں الیکشن کرانے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہی۔ دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت دونوں اسمبلیوں کا نگران سیٹ اپ الیکشن کمیشن نے ہی مقرر کرنا ہے کیونکہ موجودہ سیاسی انتشار اور عدم مفاہمت کی وجہ سے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان رابطے کا فقدان ہے اس وجہ سے بال الیکشن کمیشن کے کورٹ میں آنا ہے کہ نگران سیٹ اپ تشکیل دے۔ایسا لگ رہا ہے کہ اس ساری صورتحال میں عمران خان کئی مقدمات بھگتنے کیلئے تیار ہو جائیں کیونکہ عمران خان جیسے ہی دونوں اسمبلیاں تحلیل کریں گے وہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے ملنے والی تمام مراعات سے محروم ہو جائیں گے، کیونکہ رولز
آف بزنس کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد وہ حکومتی پروٹوکول کا حق کھو دیں گے۔ سادہ الفاظ میں صوبائی اسمبلیوں کے ختم ہونے کے بعد عمران خان صوبائی حکومت کی محفوظ پناہ گاہوں سے محروم ہو جائیںگے۔اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو دونوں صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کے بعد دونوں صوبوں میں نوے روز کے اندر انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے کیونکہ جب تک نئی مردم شماری اور حلقہ بندیاں نہیں ہوں گی مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق انتخابات کرانا غیر آئینی تصور کیے جائیں گے۔ اگر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے کر دونوں صوبوں میں انتخابات کرانا مقصود ہے تو پھر آئین کی شق 51میں ترمیم کرنا ہو گی۔ واضح رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اس فیصلے پر عمران خان اور چاروں صوبائی وزراا علیٰ کے دستخط موجود ہیں۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے قومی اسمبلی کے 123ممبران کو بھی سپیکر کے پاس جا کر اپنے استعفے منظور کرانے کی ہدایت کر دی ہے۔ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے ممبران کے استعفے منظور ہونے کے بعد ہر صورت سندھ اور بلوچستان کی اسمبلی توڑ کر انتخابات کرانے پڑیں گے اور الیکشن کمیشن کو فوری نگران سیٹ اپ تشکیل دینا پڑے گا۔ اگر یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے توپھر قوی امید ہے کہ الیکشن مئی 2023میں ہوجائیں گے، لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کے بعض اراکین اسمبلی استعفو ں کے حق میں نہیں ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو تحریک انصاف کیلئے خطرے کی علامت تصور کی جارہی ہے۔ دوسری طرف عمران خان اپنے جارحانہ مزاج کے باعث اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کھو چکے ہیں۔ اب عمران خان مختلف مقدمات کی زد میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کے کئی ممبران ان کے جارحانہ طرز عمل کے خلاف نظر آتے ہیں۔یہ امر واقعہ ہے کہ اگر عمران خان ممنوعہ فنڈنگ کیس، توشہ خانہ ریفرنس اور توہین الیکشن کمیشن کی زد میں آتے ہیں تو آئین کے آرٹیکلز 204، 63(ون) اور 62 (ون ) (ایف)کے تحت وہ آئندہ الیکشن لڑنے کیلئے نااہل ہو سکتے ہیں اور ان تمام سزائوں کی صورت میں وہ پارٹی کی چیئرمین شپ سے بھی محروم ہو سکتے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں عمران خان کوا عتدال اور ٹھہرائو کی سیاست کی ضرورت ہے۔عارف علوی سمیت جتنے بھی ان کے دوست ان کو جارحانہ رویہ ترک کرنے کا کہہ رہے ہیں وہ ا ن کے دوست ہیں دشمن نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button