پاکستان

45 سال قبل سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا ٹھیک تھا یا غلط، عدالت کل فیصلہ سنائے گی

سپریم کورٹ اس سوال پر 13 سال پہلے دائر صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے کل یعنی بدھ کو سنائے گی۔ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے سنہ 2011 میں یہ ریفرنس دائر کیا ان 13 برسوں میں اس صدارتی ریفرنس پر مجموعی طور پر بارہ سماعتیں ہوئیں۔

موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے اس صدارتی ریفرنس پر سات سماعتیں کی تھیں اور اس نو رکنی بینچ نے چار مارچ کو اس صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے محفوظ کیا تھا۔

اس ریفرنس کی آخری سماعت کا احوال

اس ریفرنس کی آخری سماعت پر ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی صنم بھٹو کے وکیل رضا ربانی نے عدالت کو اس مقدمے سے جڑے کچھ تاریخی حقائق بتائے۔ اس مقدمے میں مدعی احمد رضا قصوری نے بھٹو کے ساتھ اپنے اختلافات اور اپنے والد میں تاخیر سے شکایت درج کرانے سے متعلق ججز کے سوالات کے جوابات دیے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بھٹو کے قتل کے مقدمے کے گواہ کے بارے میں بتایا کہ ان کا کچھ نہیں پتا چل رہا ہے کہ آخر وہ گئے کہاں ہیں۔

رضا ربانی نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس اسلم ریاض حسین بیک وقت سپریم کورٹ کے جج اور پنجاب کے قائم مقام گورنر بھی تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مارشل لا آرڈر کے تحت تو کچھ بھی ہو سکتا تھا، مارشل دور میں تو گورنر ٹرائل بھی چلا سکتے تھے۔

رضا ربانی نے کہا کہ وہ تو بادشاہ تھے مارشل لا میں جو مرضی کریں۔

ان کے مطابق بیگم نصرت بھٹو نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں سپریم کورٹ میں چیلنج کیں۔ جسٹس یعقوب اس وقت چیف جسٹس تھے اور انھوں نے جیسے ہی درخواست سماعت کے لیے منظور کی انھیں بطور چیف جسٹس پاکستان ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس پاکستان بنا دیا گیا۔

رضا ربانی نے کہا کہ مارشل لا ریگولیشن کے تحت ججوں نے حلف لے رکھا تھا۔ مگر ان کے حلف میں سے آئین کا لفظ حذف کر دیا گیا تھا۔

ان کے مطابق اس وقت ججز آئین پاکستان کے تحت ججز نہیں تھے۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بھی اس وقت آئین کے تحت کام نہیں کر رہی تھیں۔ بھٹو کیس میں فئیر ٹرائل کے پراسیس پر عمل نہیں کیا گیا۔

اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ باقی سب عوامل کے علاوہ جنرل ضیا کا تعصب بھی موجود تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے ہم نے وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کا پوچھا تھا، کیا ان کا کچھ پتہ چلا وہ کہاں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ ’ہمیں ان کا کچھ پتہ نہیں چلا، مسعود محمود کا صرف ایک خط سنہ 1977 کا موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ تو پہلے کا خط ہے اس کے بعد مسعود محمود کا کیا بنا؟

عامر رحمان نے کہا کہ ’ایف آئی اے سے پتہ کیا وہ کہتے ہیں جب تک ان کا پاسپورٹ نہ ہو پتہ نہیں چل سکتا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہماری تین وزارتیں اس پر لگی ہیں کہ مسعود محمود کہاں گئے۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس میں مختصر رائے بھی دے سکتی ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان عدالت ایسا کر سکتی ہے۔ ان کے مطابق سپریم کورٹ مکمل انصاف کی فراہمی کیلئے آرٹیکل 187 کا استعمال کر سکتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’اگر ہم نے آرٹیکل 187 کا استعمال کیا وہ رائے کے بجائے فیصلہ ہو جائے گا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ ہمیں پھانسی کے بعد میں منظر عام پر آنے والے تعصب کے حقائق کی تفصیلات تحریری طور پر دے دیں۔

بھٹو کے خلاف مدعی احمد رضا قصوری نے عدالت کو کیا بتایا؟

احمد رضا قصوری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے بھٹو کیس میں ’پرائیویٹ کمپلینٹ‘ سنہ 1977 میں دائر کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے باپ کا قتل سنہ 1974 میں ہوا تو آپ نے اتنا وقت کیوں لیا؟ احمد رضا قصوری نے جواب دیا کہ ’پہلے کیس بند ہو گیا تھا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیس بھی کافی پہلے بند ہوا آپ تبھی کیوں نہ گئے کہ ناانصافی ہو گئی۔ آپ نے تین سال کیوں لیے تھے اس کا جواب کیا ہو گا؟

احمد رضا قصوری نے کہا کہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے صورتحال ہی ایسی تھی، چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’سنہ 1974 میں آپ کے اور کتنے بہن بھائی موجود تھے؟ احمد رضا قصوری نے جواب دیا کہ ’ہم چھ بھائی تھے کوئی بہن نہیں ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کا ایک اچھے اثر و رسوخ، تعلقات اور وسائل والا خاندان تھا۔ آپ جیسا بااثر خاندان کیسے کمپلینٹ فائل کرنے میں اثر لیتا رہا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ نے انکوائری بند ہونے کا آرڈر بھی چیلنج نہیں کیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’جس شخص کو آپ والد کا قاتل سمجھتے تھے اس سے ملنا تو نہیں چاہتے ہوں گے، مگر آپ دوبارہ پارٹی میں آئے اور ٹکٹ کے لیے بھی اپلائی کیا؟

احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’میں جانتا تھا مجھے ’مارک‘ کیا گیا ہوا ہے، پی این اے کے ٹائم بھی مجھ سے رابطہ ہوتا رہا، مجھ سے وہ بوتل لانے کا کہا جاتا، جس میں والد کا خون محفوظ کیا تھا۔ میں ایک اچھا پبلک سپیکر تھا اس لیے مجھے مہم میں شمولیت کا کہا گیا۔ میں جانتا تھا بھٹو مجھے قتل کروا دے گا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کی بات میں ایک اور تضاد ہے۔ جب آپ کو پتہ تھا بھٹو اتنا طاقتور ہے تو پھر آپ ان کے خلاف کیسے بول سکتے تھے؟ احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’میں پیپلز پارٹی میں ایک انتہائی طاقتور شخص تھا۔ صرف پانچ لوگوں کو نشان پیپلز پارٹی ملا میں ان میں ایک تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو میرے علاوہ ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’پھر یہ محبت نفرت میں کیسے بدل گئی؟ احمد رضا قصوری کے مطابق ’میں صرف اس لیے بتا رہا ہوں کہ ایسا نہیں ہے کہ مجھے کچھ ملا نہیں تھا تو خلاف ہو گیا۔‘

احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’ہمارے اختلاف ذوالفقار علی بھٹو کے چار بیانات پر شروع ہوئے۔ پہلا بیان 14 فروری 1971 کا تھا کہ ہم آنے والے اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔ دوسرا بیان 28 فروری 1971 میں اقبال پارک لاہور کا بیان تھا، جب بھٹو نے کہا تھا جو ڈھاکہ گیا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ تیسرا بیان 14 مارچ 1971 میں نشتر پارک کراچی کا بیان تھا، وہاں بھٹو نے کہا آپ مشرقی، میں مغربی پاکستان کی اکثریت رکھتا ہوں۔ احمد رضا قصوری کے مطابق ’اس بیان پر سرخیاں لگی تھیں اُدھر تم اِدھر ہم۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو سنہ 1971 کی بات ہے اس وقت تو بھٹو وزیر اعظم نہیں تھے۔ آپ کے والد کا قتل تو 1974 میں ہوا ہے۔

احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’کوئی پندرہ سولہ کے قریب حملے ہوئے تھے مجھ پر پہلے دس سے زیادہ ایف آئی آرز تھیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ان ایف آئی آرز میں تو آپ نے بھٹو کو نامزد نہیں کیا۔‘

احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’پہلی ایف آئی آرز میں بھٹو کو میں نے نامزد نہیں کیا تھا، جب میرے والد کا قتل ہو گیا تو میں نے کہا بس بہت ہو گیا۔

احمد رضا قصوری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بھٹو کا چوتھا بیان جو وجہ اختلاف بنا وہ ڈھاکہ ملٹری آپریشن شروع ہونے پر تھا۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’کراچی ائیرپورٹ پر بھٹو نے آپریشن پر کہا شکر ہے پاکستان محفوظ ہو گیا ہے۔‘

ان کے مطابق ایک لیڈر کو اسی وقت کہنا چاہیے تھا یہ پاکستان کی تباہی کا آغاز ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’قصوری صاحب آپ قتل کیس پر فوکس کریں، جو صدر پاکستان نے ریفرنس میں سوال پوچھا اس پر رہیں۔

احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’مغربی پاکستان سے ضمیر کی آواز پر ڈھاکہ جانے والا میں واحد شخص تھا، وہ سیشن ہوجاتا تو آج ہنستا بستا پاکستان ہوتا۔‘

جسٹس یحیی آفریدی نے پوچھا کہ ’ججوں کے تعصب پر جو باقی لوگوں نے بات کی اس پر آپ کیا کہیں گے؟ احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’تعصب کا الزام صرف مولوی مشتاق پر تھا، مگر مولوی مشتاق نے تو فیصلہ تحریر نہیں کیا تھا، فیصلہ تو آفتاب حسین نے لکھا، وہ متعصب نہیں تھے۔

جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ ’سپریم کورٹ میں اپیل کے فیصلے سے متعلق ایک جج کا انٹرویو موجود ہے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’وہ فیصلہ چیف جسٹس انوار الحق نے لکھا، فرض کریں وہ ضیاالحق کی ہدایات پر ایسا کر رہے تھے پھر تو وہ ضیا کو بہت عزیز ہوتے، تاریخ مگر یہ بتاتی ہے جب پی سی او آیا تو انوار الحق نے حلف لینے سے انکار کیا۔ احمد رضا قصوری نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے ایک سوال اٹھایا کہ ’جو شخص پی سی او کا حلف نہیں لے رہا کیا وہ کسی معصوم کی جان لے گا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button