’’ لوکس آف کنٹرول ‘‘
صفدر علی حیدری
ایک بدو نے جناب رسالت مآبؐ کو متوجہ کرنے کے لیے آپ کے کندھے پر رکھی چادر کو اتنے زور سے کھینچا کہ آپؐ کی گردن پر نشان پڑ گیا۔ آپؐ کو اس شدید تکلیف ہوئی مگر آپ نے چندہ پیشانی سے اس کے سوالوں کا جواب دیا اور ماتھے پر ایک بھی بل نہ آنے دیا ۔
تاریخ کی کتابوں میں امام حسنؓ کا ایک واقعہ مرقوم ہے، امامؓ ایک دن وہ اپنے مصاحبین کے ساتھ کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک شامی نے آپؓ کو برا بھلا دینا شروع کر دیں۔ آپؓ نے اپنے ساتھیوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور خاموشی سے اسے دیکھتے رہے۔ وہ برا بھلا کہہ کہہ کر تھکا اور خاموش ہو گیا ہے۔ اب امامؓ اس سے فرمانے لگے: ’’ مجھے لگ رہا ہے کہ تم سفر سے آئے ہو، شاید تمہارے پاس رہنے کے لیے جگہ نہیں ہو گی۔ کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہو گا، تو آئو میرے گھر چلو، میں رہنے کے لیے جگہ دوں گا، کھانا دوں گا‘‘۔ شامی نے گالیاں دیں لیکن امام نے اس کے ساتھ کیسا برتائو کیا ؟، امام کی گفتگو نے اسے اس قدر متاثر کیا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا: ’’ آج سے پہلے میری نظر میں آپؓ سے برا انسان کوئی نہیں تھا لیکن آج میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؓ سے اچھا انسان اس دنیا میں دوسرا کوئی نہیں ‘‘۔
ایک شرارتی نوجوان نے صحابی رسول جناب سلمان فارسیؓ سے پوچھا، آپؓ نے تحمل سے جواب دیا:’’ قیامت کے دن اگر میرے نامہ اعمال میں نیکیاں زیادہ ہوئیں اور گناہ کم تو میری داڑھی کے بال کتے کی دم کے بالوں سے افضل ہوں گے۔ اور اگر میرا نامہ اعمال میں برائیاں زیادہ ہوں گی اور نیکیاں کم تو پھر کتے کی دم کے بال افضل ہوں گے‘‘۔
اس مضمون میں Locus of Control کے تصور پر بات کرنا مقصود ہے، یہ ایک نفسیاتی اصطلاح جو کہ کسی فرد کے اس یقین کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس کی زندگی کو متاثر کرنے والے واقعات پر وہ کس سطح پر کنٹرول رکھتا ہے۔ لوکس آف کنٹرول کی دو اہم اقسام ہیں:
1): کنٹرول کا اندرونی مقام: یہ پہلو کہ کسی کی زندگی میں جو کچھ ہوتا ہے اس پر کنٹرول ہوتا ہے۔
2): کنٹرول کا بیرونی مقام: یہ زاویہ کہ بیرونی عوامل ، جیسے قسمت یا رویے کسی کی زندگی میں ہونے والے واقعات کو کنٹرول کرتے ہیں ۔
زیادہ تر لوگ دو انتہائوں کے درمیان کہیں گر جاتے ہیں۔ یہ ان افراد کی خصوصیات پر بھی تبادلہ خیال کرتا ہے جن میں ایک غالب اندرونی یا بیرونی کنٹرول کا مقام ہوتا ہے اور یہ ان کے رویے ، حوصلہ افزائی اور مجموعی صحت کو کیسے متاثر کر سکتا ہے ؟
اوپر جو تین واقعات پیش کیے گئے ایسے سیکڑوں واقعات تاریخ اسلامی کا حسن ہے جن سے اس کا دامن چھلکتا ہے
یہ تینوں واقعات اندرونی لوکس آف کنٹرول کی عمدہ مثالیں ہیں۔
آپ کس موقع پر کیا رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، اس کا فیصلہ مثالی طور پر آپ کو کرنا ہے۔ یہ آپ کی آزادی کا مظہر ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو اپنے جذبات پر کتنا کنٹرول حاصل ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ میں انتہا کا ضبط ہے۔
انسان کو زندگی میں ہر طرح کے حالات کا سامنا رہتا ہے۔ ہر جگہ ہر کام انسان کی مرضی کے مطابق ہو یہ ضروری نہیں ، ہر جگہ انسان کو موافق ماحول میسر آئے یہ بات بھی ضروری نہیں۔ انسان کو اکثر اوقات ایسے حالات اور رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس کے لیے ناگوار اور ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ اب یہاں پر اس کا امتحان ہے کہ وہ ان حالات میں کیسا رویہ اپناتا ہے ۔
آزاد منش لوگ اس منزل سی بزرگانہ انداز سے مسکراتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کا لوکس آف کنٹرول ان کے اندر ہوتا ہے۔ جس پر بیرونی عوامل اس حد تک اثر انداز نہیں ہو سکتے کہ ان کا ضبط ٹوٹ جائے یا وہ غصے میں آ کر وہ کچھ کر گزریں جو ان کو اوندھے منہ زمین پر گرا دے
بجا طور پر کہا گیا ہے کہ بہادر وہ نہیں ہوتا جو اپنے مخالف کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر تو اس کو کہتے ہیں جو غصے کی حالت میں بے قابو نہ ہوئے۔ جیسے جناب امیر کو خود پر ضبط تھا ۔ آپ نے اپنے مخالف کو چھوڑ دیا تھا حالاں کہ اس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا تھا ۔ یہی ضبط ضابطہ اخلاق طے کرتا ہے۔ یہی ضابطہ بہادر کو شجاع بناتا ہے ۔ اور شجاع وہ ہے جو رزم گاہ میں بھی اپنے مخالف کے بے توقیری نہ کرے ۔ اس کا مثلہ نہ کرے ۔ اس کے مردہ وجود تک کا احترام کرے ۔اب جن کا لوکس آف کنٹرول بیرونی ہوتا ہے ان کو ہوا کا جھونکا بھی ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔ ایسے لوگ کان نہیں سنبھالتے اور کتے کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں، تول کر نہیں بولتے ، بول کر خسارہ تولتے ہیں اور اپنی شخصیت کو مٹی میں رولتے ہیں۔ جہاں عاجزی مسنون ہو وہاں طاقت کا استعمال کرتے ہیں اور ’’ جھک گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا ‘‘، کانوں کے کچے ہوتے ہیں۔ بلا کے جلد باز ، انتہا کے جذباتی ، پرلے درجے کے بیوقوف ۔ ان کی اپنی رائے نہیں ہوتی ۔ حالات اور واقعات سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں اور اکثر غلط سمت میں قدم بڑھاتے ہیں۔ ان کی رائے گھڑی تولہ ہوتی ہے گھڑی ماشہ۔ انسان کو اگر خود کو خوش اخلاق بنانا ہے تو اسے یہ کوشش کرنی ہو گی کہ اس کا کنٹرول اندرونی ہو ، دوسرے کے ہاتھ میں نہ ہو، دنیا میں جتنے بھی بڑے اور کامیاب انسان گزرے ہیں وہ وہی ہیں جن کا لوکس آف کنٹرول اندرونی ہوتا ہےاور یہ بھی سچ ہے کہ اکثر لوگوں کا لوکس آف کنٹرول بیرونی ہوتا ہے ۔