Columnfarrukh basir

متاثرین سیلاب کی بحالی بڑا چیلنج ۔۔ فرخ بصیر

فرخ بصیر

سیلاب نے جس پیمانے پر ارض پاک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، اس کے نتیجے میں ہونیوالے جانی و مالی نقصانات کے ازالے میں بہت وقت درکار ہو گا۔بھلا ہو اقوام اور حکومت کا کہ انہوں نے اس قدرتی آفت سے نبٹنے کے لیے این سی او سی کی طرح نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوارڈی نیشن سنٹر قائم کر دیا ہے، جہاں نہ صرف سیلاب سے ہونے والی جانی و مالی تباہی کی مستند رپورٹنگ ہو سکے گی بلکہ متاثرین کی امداد کو بھی مربوط کیا جا سکے گا۔ اس وقت تک سیلاب کے نتیجے میں ایک تہائی ملک زیر آب آ چکا ہے۔بحیثیت قوم ہم اس وقت تباہی کے پہلے مرحلے کا سامنا کر رہے ہیں۔روزانہ متاثرین اور ان کے حوالے سے اندوہناک خبریں اور کلپس سوشل میڈیا کی زینت بنے رہتے ہیں۔جن سیاسی وسماجی شخصیات اور اداروں میں قدرتی آفات میں کام کرنیکی اہلیت اور اللہ تعالیٰ نے انہیں توفیق دی ہے وہ یہ افتاد سامنے آتے ہی متاثرہ علاقوں میں سرگرم ہو گئے تھے مگر اس پر سیاسی جماعتوں کا رد عمل اتنا تیز اور کار آمد نہیں تھا جتنی بڑی آزمائش پاکستانی قوم پر آئی ہے۔سیاسی جماعتوں کی طرف سے مختلف اضلاع اور مقامات پر ریلیف کیمپ اور ٹیلی تھون لگانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے،وزیر اعظم
شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری دن رات متاثرین سیلاب کی ا شک شوئی میں مصروف ہیں اور اب تو خان صاحب 5ارب روپے کے عطیات کا اعلان کروا چکے ہیں مگر اس نیک کام میں موقع پرست اور بے ضمیر لوگ بھی اپنے اپنے حرص کی جیبیں بھرنے کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں۔حکومت اور مقامی انتظامیہ کو ایسے عناصر کیخلاف سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے جو انسانی ہمدردی کا بھیس بدل کر اپنے متاثرہ بہن بھائیوں کی مددکےلیے آنیوالوں سے امدادی اشیاء ہتھیا رہے ہیں۔
ملک بھر کے مخیر حضرات اور بعض اداروں کے سمیت دنیا بھر سے امدادی اشیاء سے بھرے جہاز کراچی اور اسلام آباد پہنچ رہے ہیں تاہم اگر ہم نے
انٹر نیشنل کیمونٹی میں اپنے اعتماد اور احترام کا رشتہ برقرار رکھنا ہے تو متاثرین سیلاب کی امداد میں شفافیت کو ہر صورت یقینی بناناہو گا۔عام آدمی کو امدادی سرگرمیوں میں شامل کرنے کے لیے اس کے اور امدادی اداروں کے درمیان اعتماد کا مضبوط پل تعمیر کرنا ہو گا۔اس وقت لاہور سمیت ملک بھر میں پاک فوج سمیت مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں اور پارٹیوں کی طرف سے ریلیف کیمپس لگانے کا سلسلہ جاری ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم ان امدادی سرگرمیوں کو مربوط انداز میں آگے بڑھاتے تو نہ صرف ہمارا کام آسان ہو جاتا بلکہ اس کے نتیجے میں اندرونی و بیرونی امداد کی تقسیم بھی اچھے اور احسن طریقے سے ممکن ہو پاتی۔خیر دیر اب بھی نہیں ہوئی ،اس وقت متاثرین سیلاب کو خیموں ،پینے کے صاف پانی،ادویات،خشک خوراک اور گرم کپڑوں کی شدید ضرورت ہے۔حکومت متاثرہ جگہوں پر امداد تقسیم کرنے کے لیے ہنگامی طور پر مصنوعی شیڈز بنائے۔جہاں سے ون ونڈو آپریشن کے ذریعے متاثرین کو حسب ضرورت روزانہ کی بنیاد پر خوراک،ادویات پینے کا صاف پانی اور دیگر اشیاء فراہم کی جائیں جبکہ سیلاب کے نتیجے میں کھلے آسمان تلے بیٹھے افراد تک خوراک اور دیگر امدادی اشیاء پہنچانے کے لیے پاک فوج کے علاؤہ چاروں وزرائے اعلیٰ کے ہیلی کاپٹرز وقف کر دئیے جائیں اور اگر ضرورت پڑے تک سیلاب تھمنے تک دوست ممالک سے ہیلی کاپٹرز کرائے پر لیکر ریلیف ورک مکمل کیا جائے،وزیر اعلیٰ پنجاب نے تو اپنا ہیلی ریلیف آپریشن کے لیے دے بھی دیا ہے اب دوسروں کو تقلید کی ضرورت ہے۔
متاثرہ علاقوں میں سرکاری اور نجی ہسپتالوں اور ہلال احمر کے تعاون سے موبائل ہسپتال بھیجے جائیں ، جہاں سیلابی پانی کے باعث جانا ممکن نہیں وہاں پاک بحریہ، نیشنل و پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور ضلعی انتظامیہ کے تعاون سےموثر بوٹس میں عارضی ہسپتال بنا کر ریسکیو1122،ہلال احمر، ڈاکٹرز، نرسوں اور عملے کے تعاون سے طبی امداد مہیا کی جا سکتی ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق بارشوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے 15ستمبر تک چلتے رہنے کا امکان ہے جس کے بعد متاثرین کی بحالی اور گھروں کو واپسی ممکن ہو سکتی ہے۔اس اہم اور آخری مرحلے پر میری تجویز ہو گی کہ حکومت ڈی ایچ اے،
بحریہ ٹاؤن سمیت ملک بھر کی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور انکے مالکان کو متاثرین سیلاب کو گھربنا کر دینے کی ذمہ داری سونپے۔سٹیٹ بنک اور وزارت ہائوسنگ کے تعاون سے ہاؤسنگ سیکٹر کے لیے مالیاتی پیکیج کا اعلان کیا جائے اور متاثرین کو سستے گھربنا کر دینے کے عوض ہاؤسنگ سیکٹر کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے تو لاکھوں بے گھروں کو اپنی چھت پھر سے مہیا ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن میں کم و بیش 144سے زائد سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ ان سے بقدر جثہ متاثرین سیلاب کے لیے ڈونیشنز لی جائیں۔بڑے بڑے سیاسی خاندانوں میں اتنی اسطاعت ہے کہ وہ فی کس ایک سے دو ارب روپے کی نقدامداد دیکر پوری پاکستانی قوم کے سامنے سر خرو ہو سکتے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن میں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے جمع شدہ مالی گوشواروں کی مدد سے ان سے بھی مالی تعاون کی اپیل کی جائے۔ سمندر پار پاکستانی ویسے ہی ہر ماہ اربوں روپے کی ترسیلات زر ملک کو بھیجتے ہیں، حکومت ملک واپسی کے وقت ایئر پورٹس پر کسٹم،امیگریشن اور دیگر مراحل سے با عزت گزرنے کا کوئی وی آئی پی پیکیج دیکر متاثرین سیلاب کے لیے زیادہ سے زیادہ امداد دینے کی ترغیب دے سکتی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button