ColumnKashif Bashir Khan

قرض کی قسط پر شادیانے .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

پاکستان کی موجودہ اقتصادی حالت کا سوچ کر انسان دکھ کی گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے۔جو حکمران ماضی میں پاکستان کو ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے چنگل سے چھڑانے کی سیاسی بیان بازی کیا کرتے تھے آج صرف 1.1ارب ڈالر قرض ملنے پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔جن شرائط پر یہ قلیل قرض حاصل کیا گیا وہ قوم کے لیے شرمناک تو ہیں ہی لیکن اس نے خطرناک اقتصادی تنزلی کے شکار پاکستانیوں کے لیے زندگیاں دشوار ترین اور بدتر ترین بنا چھوڑی ہے۔پچھلے چار ماہ میں جو معاشی ستم پاکستان کے عوام پر ڈھائے گئے ان کی مثال پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔شاید عوام لاعلم ہیں کہ اس1.1ارب ڈالر کے لیے ان کے ساتھ کیا کیا گیا ہے۔پچھلے چار ماہ میں آئی ایم ایف کی ہر وہ شرط کو کسی چوں چرا کے بغیر ایسے مانا گیا جیسے پہلی جماعت کا طالب علم اپنے ٹیچر کی ہر بات خوف کے باعث مانتا ہے اور کسی بھی قسم کا اعتراض و سوال نہیں کرتا۔جو کچھ اس قوم کے ساتھ کیا گیا ہے اس کے بدترین اثرات تو فوری آنے شروع ہو چکے ہیں۔پٹرولیم کی قیمتوں میں تباہ کن اضافہ عوام کی ہر قسم کی نقل و حمل کو نہایت محدود کر ہی چکا تھا لیکن بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اور وحشیانہ اضافے نے عوام کے منہ سے لقمہ چھین کر انہیں گھروں سے باہر نکل کر احتجاج پر مجبور کر دیا ہے۔ آج ریاست ’’ماں جیسی ہوتی‘‘کا پرچار کرنا تو مضحکہ خیز اور فریب لگتا ہے۔ سیاست خدمت کہلائی جاتی تھی لیکن پاکستان میں سیاست اقتدار حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے والے بازی گر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے 22 کروڑ سے زائد پاکستانیوں کو ایسی گہری کھائی میں دھکیل چکے ہیں کہ جس سے سالہاسال نکلنا ممکن ہی نہیں دکھائی دے رہا۔چند گروہ جو اقتدار کے متوالے ہیں اور پاکستان ان کے لیے اقتدار کی’’سرائے‘‘ سے زیادہ نہیں، کو عوام کے سروں پر مسلط کرنے کے سنگین اور خطرناک نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
ماضی میں جھانکتے ہیں تو 1963 یاد آتا ہے جب پاکستان میں ڈالرچار اعشاریہ سات روپے کا تھااور جرمنی جنگ عظیم دوم کے بعد شدید مالی مشکلات کا شکار تھا۔ پاکستان نے اڑھائی کروڑ ڈالر جو پاکستانی قریباً 12کروڑ روپے بنتے تھے ، جرمنی کو 20 سال مدت کے لیے بطور امداد دیئے تھے۔اگر اس رقم کو روپے کی قدر میں بے انتہا کمی کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ آج کے حساب سے قریباً2کروڑ ڈالر یا 200 ملین ڈالر بنتے ہیں۔ پاکستان تب بھی معاشی طور پر اتنا مضبوط نہیں تھا لیکن بیرونی قرضوں میں آج کی طرح بری طرح جکڑا ہوا بھی نہیں تھا۔صرف 16 سالہ پاکستان کے اس وقت جرمنی کو دوسری جنگ عظیم کے بعد 24 ملین ڈالر کی رقم دوسرے مغربی ممالک اور مصر کے ساتھ بطور قرضہ دینے کوآج کل کے کچھ لکھاری اور نام نہاد دانشور ماننے کو تیار نہیں لیکن جہاں تک پڑھا اور سنا تو حقیقت یہی تھی کہ جنگ عظیم دوم کے بعد تباہ حال جرمن معیشت کو سہارا دینے میں ایوب خان کی پاکستانی حکومت نے اپنا کردار اس وقت (1963 میں)ادا کیا تھا لیکن افسوسناک اور شرمناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایوب خان کا دور وہ تھا کہ جس میں ہم نے اپنی آزادی پر بہت سمجھوتے کئے اور جو غلامی کا طوق1947 میں اتاراگیا تھا اسے کسی اور شکل میں قوم کے گلوں میں ڈال دیا گیا۔
کسی بھی آزاد ریاست کے لیے آزاد خارجہ پالیسی نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے بلکہ میرا تو یہ ماننا ہے کہ آزاد خارجہ پالیسی کے بغیر کوئی بھی قوم و ریاست آزاد کہلا ہی نہیں سکتی۔آج ہمارے حکومتی زعما دو کھرب اور چند کروڑ روپے کا قرض آئی ایم ایف سے حاصل کرنے کے بعد ایسے شادیانے بجا رہے ہیں جیسے ہم نے کشمیر آزاد کروا لیا یا بھارت فتح کر لیا ہو۔آزادی کسی علاقے پر تسلط کا نام نہیں۔ آزاد قوموں کی حکومتیں کسی بھی بیرونی طاقت کے اثر کے بغیر اپنی ریاست کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے آزادانہ فیصلے کیا کرتی ہیں۔کسی بھی ملک کی ترقی اور مستقبل کے فیصلے ان کی خارجہ پالیسی پر منحصر ہوا کرتے ہیں۔کسی ریاست کی خارجہ پالیسی ہی اس کی تجارت کے رخ اور حجم کا تعین کرتی ہے ۔آج ہمارا ہمسایہ ملک ایران جو امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیوں کا سالہاسال سے سامنے کر رہا ہے،اپنی خارجہ پالیسی آزادانہ طور پر چلا رہا ہے۔ ایران کا شمار دنیاکے ان گنے چنے ملکوں میں ہوتا ہے جو تیل کی پیداوار میں سرفہرست ہیں۔ پاکستان کا بہت بڑا بارڈر ایران کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔اگر بلوچستان وغیرہ کا آزادانہ سروے کیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ وہاں قریباً 60 فیصد ایرانی پٹرول، جو سمگل شدہ ہوتا ہے، استعمال کیا جاتا ہے۔میرے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں سمگل شدہ پٹرول آج بھی قریباً پاکستانی
60 روپے میں فی لیٹر دستیاب ہے۔اب سوچنے کی بات ہے کہ اگر اس تیل کو حکومتی لیول پر اپنی کوالٹی کے مطابق درآمد کیا جائے تو یہ پاکستان کو کس قیمت پر پڑے گا اور عوام کی زندگیوں میں کتا سکون آئے گا؟اسی طرح عالمی بدلتے حالات میں یوکرائن پر حملے کے بعد روس پر شدید پابندیوں کے باوجود روس سے سستے تیل اور گیس کو جب یورپی یونین کے ممبر ممالک بالخصوص جرمنی، بھارت،سری لنکا،برمااور فرانس وغیرہ سستے داموں خرید سکتے ہیں تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب موجودہ حکمرانوں کے پاس تو ضرور ہے بلکہ وہ اس کے کردار ہیں لیکن وہ اس کا جواب عوام کو نہیں دیتے۔ماضی کے حکمرانوں نے بیرونی بالخصوص امریکہ کی غلامی کا جو طوق عوام کے گلوں میں ڈالا تھا وہ آج بہت مضبوط ہو چکا اور اس طوق کے رکھوالے وہ مختلف گروہ ہیں جو آج حکومت تو پاکستان پر کر رہے ہیں لیکن ایجنڈا آئی ایم ایف اور امریکہ کا نافذ کر چکے۔گویا وہ امریکی استعمار اور سامراج کے پاکستان میںنائبین ہوئے۔ آج کچھ مغربی ممالک سستا تیل،گیس اور گندم وغیرہ روس سے خرید رہے اور وہ بھی ڈالر اور روبل کی بجائے چین کے سلور کارڈ پر تو پھر سوچنا ہوگا ہمیں بھی کہ عوام کو غریب ترین اور معاشی طور پر لاغر کرنے کے باوجود ہم آزادانہ تجارت کیوں نہیں کر رہے اور آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر اور چند کروڑ قرضہ ملنے پر کس چکر میں شادیانے بجا رہے ہیں؟آج تو عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ کیسا ایک ارب ڈالر کا قرض حکمران حاصل کر رہے ہیں جس کے عوض قرض ملنے سے قبل ہی عوامی معاشی قتل عام کی تمام شرائط مان لی گئیں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ Moratorium (ناگزیر حالت کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کا اعلان)کا اعلان کر کے عالمی مالیاتی اداروں اور ملکوں سے وقت حاصل کر لیا جاتا اور ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کر کے فنڈز اکٹھے کر کے ملک کو قرضوں اور معاشی بدترین بحران سے نکالا جاتا،لیکن ایسا کرنا موجودہ حکمرانوں کے بس میں نہیں لگتا کیونکہ اب تو یقین ہوچلا کہ ان کو اقتدار ملا ہی عالمی مالیاتی ادارے اور امریکہ کے خوفناک ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر تھا۔ ملک میں معاشی اور سیلاب کی وجہ سے جو ہولناک تباہی ہوئی ہے، اس کے پیش نظر آئی ایم ایف سے ملنے والا ایک ارب ڈالر سے کچھ زیادہ کا قرضہ تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے اور اتنے چھوٹے قرضے کے لیے عوام کا معاشی قتل عام دردناک اور افسوسناک ہے۔ اگر عمران خان جو اقتدار سے بھی بے دخل ہوچکا ہے، تین گھنٹے کی ٹیلی تھون میں قریباً ساڑھے پانچ ارب کا چندہ اکٹھا کر سکتا ہے تو پھر پاکستان کے قرض اتارنے اور ملک کو خود کفیل بنانے کے لیے کیا کچھ نہیں ہو سکتا لیکن یہ سب کرنے کے لیے امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کا ہمارے گلے میں ڈالا ہوا طوق اتارنے کی ضرورت ہے اور آزاد خارجہ پالیسی کے ذریعے آزادانہ پالیسیاں کے تحت بزنس کرنے والا حکمران چاہیے ہو گا جو کم از کم موجودہ حکمران ہرگز نہیں ہو سکتے۔ سابق وفاقی وزیر اطلاعات کی اس بات سے اتفاق نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ پاکستان کے عوام کو اس قرضے کے ذریعے تباہ کرنے کی سازش پر عمل کیا جارہا ہے اور حکمرانوں کا ایجنڈا پاکستان کو بند گلی میں پہنچانا ہے جس میں کامیابی کے بعد ان کا ٹھکانہ پاکستان نہیں ہو گا۔آج پاکستان کی معیشت اور عوام کا حال قابل ترس ہو چکا اور اس بدترین حالت کے ذمہ داران کا سراغ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔قارئین بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان اقتصادی طور پر آج کہاں کھڑا ہے اور اس خوفناک صورتحال سے نکلنے کا حل موجودہ حکمرانوں کے پاس ہے یا نہیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button