Editorial

آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی

 

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے قرض پروگرام سے متعلق اعلامیہ جاری کردیاہے۔آئی ایم ایف کے اعلامیے کے مطابق قرض پروگرام میں جون 2023 تک توسیع کی منظوری دی گئی ہے۔ پاکستان کے لیے قرض پروگرام کا حجم 6 ارب ڈالر سے بڑھا کر ساڑھے 6 ارب ڈالر کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے لیے ایک ارب 10کروڑ ڈالرز کی قسط منظور کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو چیلنجز درپیش ہیں، پاکستان کو توانائی کے نقصانات کم کرنا ہوں گے اور ٹیکس آمدنی بڑھانا ہوگی۔پاکستان کو مارکیٹ کی بنیادپر ایکسچینج ریٹ یقینی بنانا ہو گا،کاروبار کرنے کا ماحول بہتر بنا کر پائیدار ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں اضافہ بہتر اقدام ہے۔ پاکستان کو سماجی شعبے میں تحفظ اور حکومتی ملکیتی اداروں کی کارکردگی کوبہتربنانا ہوگا۔اعلامیہ میں کہاگیاکہ مالی سال 2022ءکی پالیسی اور یوکرین جنگ کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر اور روپے پر بہت دباؤآیا،اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے اہم اقدامات اٹھائے ہیں،مالی سال 2023ء کے منظور شدہ بجٹ پر ثابت قدمی کے ساتھ عملدرآمد پاکستان کی فوری ترجیح ہونی چاہیے ۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ الحمدللہ آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کے لیے توسیع پروگرام کی منظوری دے دی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اتنے سخت فیصلے لئے اور پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ اِدھروزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ پروگرام کی بحالی پاکستان کی معیشت کے لیے مثبت پیش رفت ہے۔آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے پاکستان کے معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کا خطرہ ختم ہوگیا ۔ پاکستان مشکل معاشی امتحان سے سرخرو ہو کر نکلا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام ایک مرحلہ لیکن پاکستان کی منزل معاشی خود انحصاری ہے۔ دعا ہے آئی ایم ایف کا یہ آخری پروگرام ہواور آئندہ پاکستان کو کبھی اس کی ضرورت نہ رہے، پر امید ہوں مسلم لیگ نون کی سابق حکومت کی طرح ایک بار پھر آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہیں گے۔اِس معاملے پر مزید بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے جولائی 2019 میں قرضہ پروگرام پر معاہدہ کیا تھا جس کے تحت چھ ارب ڈالر ملنے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں تین ارب ڈالر وصول ہوئے تاہم اس سال کے شروع کے مہینوں میں پروگرام تعطل کا شکار ہوا اور پھر پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد مسلم لیگ نون کی سربراہی میں ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی ۔موجودہ حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے سخت فیصلے کیے اور پھر اِن فیصلوں پر عوامی ردعمل کا بھی سامناکیا لیکن زر مبادلہ کے ذخائر میں
کمی کی وجہ سے حکومت یہ مشکل فیصلے کرنے پر مجبور تھی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے تیل و بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا اور حکومت کو مجبوراً یہ شرط ماننا پڑی کیونکہ معاشی بحران میںبظاہر اور کوئی چارہ نہ تھااسی وجہ سے حکومت کو عوام کے شدید ردعمل اور تنقید کا سامناکرنا پڑا اور تاحال عوام معیشت کی بحالی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر ناخوش ہیں کیونکہ اُن کا براہ راست بوجھ عوام پر آن پڑا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبات جن کا حالیہ اعلامیہ میں بھی ذکر کیاگیا ہے یہی مطالبات پہلے بھی سامنے رکھے گئے تھے چونکہ اِن پر عمل درآمد بوجہ نہیں ہوسکا اس لیے ایک بار پھر یہ مطالبات دھرائے گئے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے مسائل کا شکار ہے اور موجودہ حکومت نے اِس ضمن میں جتنی کوششیں کی ہیں وہ سبھی کے سامنے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کی اشد ضرورت کا اندازہ اِس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کوامریکی حکام سے یہ کہنا پڑا کہ وہ آئی ایم ایف پر اِس معاملے پر بات کریں تاکہ پاکستان کو جلد ازجلد یہ پروگرام مل سکے۔آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان کو مسلسل نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا، روپے کی قدر میں بے انتہا کمی اور ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ، ملک میںمہنگائی کا طوفان اور ایسے کئی مسائل تھے جو آئی ایم ایف کی طرف سے قسط ملنے میں تاخیر کی وجہ سے پیدا ہورہے تھے یقیناً اب معاشی صورتحال بہتر ہوگی لیکن معاشی ٹیم کا اصل امتحان ہمارے نزدیک اب شروع ہوگا کیونکہ پٹرول اور بجلی پر سبسڈی کے خاتمے کے نتیجے میں عام پاکستانیوں پر بیک وقت کئی اطراف سے جو بوجھ پڑا ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ ایک تو بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کا بوجھ ہے اوردوسرا اِس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کن اور تاریخ ساز مہنگائی۔ مفتاح اسماعیل اور ان کی معاشی اب قرض پروگرام ملنے کے بعد عام پاکستانی کو کس طرح ریلیف دیتی ہے، اب معاشی ٹیم کا امتحان ہے کہ وہ معاشی حالات کیسے بہتر بناتے ہیں۔ یہاں ہم سابق وزیرخزانہ شوکت ترین کی مبینہ آڈیو کےمعاملے پر بھی گذارش کرنا چاہیں گے کہ سیاست کی قیمت کبھی ریاست نہیں ہونی چاہیے ، حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف سبھی کا خالص مقصد ملک کا مفاد اور عوام کو ریلیف دینا ہی ہونا چاہیے۔ آنے والے دنوں میں اِس معاملے کی مزید تفصیلات کھل کر سامنے آجائیں گی لیکن مقام شکر ہے کہ موجودہ حالات میں ہمیں بالآخر قرض مل ہی گیا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اب آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک روکے گئے فنڈز بحال کردیں گے اور اِس کے نتیجے میں قرضوں کی ادائیگی آسان اور ڈالر کی قیمت میں کمی آئے گی۔ سٹاک مارکیٹ اور کرنسی مارکیٹ پر مثبت اثر آئے گا۔ سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بھی بحال ہوگا۔ بلاشبہ قرض ملنے کے بعد ڈیفالٹ کا خطرہ یقینی طور پر ختم ہوگیا ہے مگر ہمیں قرض اُتارنے کی تشویش
ابھی سے لاحق ہونی چاہیے اوراگر ممکن ہو تو ابھی سے ایسی حکمت عملی ترتیب دی جائے کہ آئندہ ہمیں قرض لینے کی نوبت ہی پیش نہ آئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button