ColumnImtiaz Aasi

ایسی صورت حال کبھی نہ دیکھی تھی .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

عجیب تماشا ہے شہباز گل کو ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے کرنے کا معاملہ مسئلہ کشمیر بنا دیاگیا۔یوں لگ رہا تھا،جیسے شہباز گل کو کسی دوسرے ملک کے حوالے کیا جاناتھا۔وفاق اور پنجاب کی حکومت نے اس معاملے کو اپنی انا کا مسئلہ بنایاحالانکہ معمول کے مطابق کسی حوالاتی یا قیدی کو علاج معالجہ کے لیے جیل سے باہر ہسپتال منتقل کیا جانا ہو تو جیل کا میڈیکل آفیسر پہلے یہ معلومات کر لیتا ہے کہ ملزم یا مجرم کے علاج کے لیے راولپنڈی کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال میں علاج معالجہ کی مروجہ سہولت موجود ہے ورنہ ملزم کو اسلام آباد کے پمز ہسپتال بھیج دیا جاتا ہے۔شہباز گل کا کیس اس معاملے سے بالکل مختلف تھا ۔شہباز گل کا اسلام آباد پولیس نے مزید تفتیش کے لیے دو روزہ ریمانڈ حاصل کیاتھا۔
قانونی طور پر شہباز گل کو اسلام آباد پولیس کے ہی حوالے کیا جانا تھا مگر اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا گیا۔ ایسی صورت حال کبھی نہ دیکھی تھی کہ وفاقی حکومت کو رینجرز اور ایف سی کو بلانا پڑاآخر وزیراعلیٰ کے احکامات پر شہباز گل کو جیل حکام نے اسلام آباد پولیس کے حوالے کردیا۔وفاق اورپنجاب کے درمیان اس طرح کی محاذ آرائی کوئی اچھا شگون نہیں بلکہ وفاق اور پنجاب کے درمیان کھنچا تانی اور بڑھ گئی ہے۔وفاق میں میاں شہباز شریف اور پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کو حکومت ملنے کا مقصد عوام کو تماشا دکھانے کی بجائے ملک اور عوام کے مسائل کو حل کرنا مقصود ہے نہ کہ ایک ملزم کی حوالگی کو اتنا بڑا مسئلہ بنا کر عوام کو تماشا دکھانا تھا۔ تازہ ترین سیاسی صورت حال میں دیکھا جائے تو وفاق اور پنجاب کی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔وفاق اور پنجاب مقدمات کے اندراج میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کررہے ہیں۔سیاست دان اقتدار میں ہوتے ہیں تو انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتااور ان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کسی طریقہ سے زچ کر سکیںخواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے ایسی کشمکش میں عوام کے مسائل دھرے رہ جاتے ہیں اور سیاست دان اپنی سیاسی رقابتوں میں لگے رہتے ہیں۔

قارئین کو یاد ہوگا تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران پنجاب میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور پولیس ملازم کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا حالانکہ عمران خان کی جماعت کے ورکرز نے جلوس کی شکل میں اسلام آبادآنا تھا نہ کہ انہوں نے سرحدوں کی طرف مارچ کرنا تھا۔سیاسی کارکنوں کے گھروں پر بغیر وارنٹ چھاپے مارئے گئے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو جس طرح پامال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی عمر رسیدہ رکن صوبائی اسمبلی پر تشدد کیا گیا۔ کہتے ہیں وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ پنجاب میں ضمنی الیکشن ہونا تھا تحریک انصاف نے ایسا جھاڑوپھیرا کہ فریق ثانی کو سمجھ نہیں آئی ہوا کیا ہے۔

تحریک انصاف کے لیے اس کشمکش میں چودھری پرویز الٰہی کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔مسلم لیگ نون کی بھرپور کوشش تھی کہ چودھری پرویز الٰہی نہ صرف وزیراعلیٰ نہ بن سکیں بلکہ انہیں سپیکر کے عہدے سے علیحدہ کیا جا ئے جس میں انہیں کامیابی نہیں ہو سکی ۔چودھری پرویز الٰہی کو حمزہ کے خلاف سپریم کورٹ جانا پڑا اور عدم اعتماد کے نتیجہ میں چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بن گئے۔پنجاب کی وزارت اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو دینا شریف خاندان کے لیے سیاسی موت سے کم نہیں تھا۔ شریف خاندان کے وہم و گمان میں نہیںتھا کہ چودھری پرویز الٰہی صوبے کی وزارت اعلیٰ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔وفاق اور صوبے کے درمیان گرما گرمی میں تیزی الیکشن کمیشن کے عمران خان کے خلاف فیصلے سے پہلے آچکی تھی۔مسلم لیگ نون کے دور میں تحریک انصاف کے کارکنوں پر بے جا تشدد کیا گیا آخر ان کی بدعائیں رنگ لے آئیں اور پنجاب حکومت نے تشدد کرنے والے پولیس ملازمین کے خلاف اختیارات سے تجاوز کرنے کی پاداش میں تادیبی کارروائی کا فیصلہ کر لیا۔
پنجاب کے آئی جی پولیس چودھری پرویز الٰہی کے وزارت اعلیٰ سنبھالنے سے پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر چکے تھے اور وفاق سے اپنی خدمات واپس لینے کے لیے کہہ دیا۔اگرچہ چیف سیکرٹری نے بھی وفاق کو اپنی خدمات واپس لینے کا خط لکھا جس میں انہیں کامیابی نہیں ہو سکی ۔پنجاب حکومت انہیں اب بدلنا چاہتی ہے تو وفاق رضامند نہیں ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیںتو انہیںحکومت کی تبدیلی کے بعد ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ پولیس جب سیاسی جماعتوں کی آلہ کار بن جائے تو حکومتی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ کے احکامات کے برعکس تحریک انصاف کا فیصلہ کر دیا اور دیگر جماعتوں کا فیصلہ ابھی تک التواء میں ہے۔اس سارے سیاسی کھیل کا غریب عوام کو کیا فائدہ پہنچا ہے وہ تو پہلے کی طرح مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہیںاور سیاست دانوں کو اپنے اقتدار کی فکر لاحق ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین کے سٹاف آفیسر شہباز گل نے بیان داغ کے سیاسی صورت حال کو مزید آلودہ کر دیا ہے۔ ہم کیسے پاکستانی ہیں رائل ملٹری اکیڈیمی برطانیہ کی تقریب میں سپہ سالار کو اعزاز سے نواز جا رہا ہے اور سیاست دان اسی ادارے کی بے توقیری کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ الیکشن میں کسی جماعت کو شکست ہو جائے تو اس کی ذمہ داری اداروں پر ڈال دی جاتی ہے حالانکہ سیاست دانوں کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔عسکری ادارے فرنٹیر پر تحریک طالبان سے نبروآزما ہیں اور سیاست دان اسی ادارے کو زچ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ سیاست دان ذاتی مفادات اور اقتدار کی طمع چھوڑ کر ملک و قوم کی بقاء کی خاطر یک جاں ہو جانا چاہیے اور ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کے لیے مل جل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ اللہ نہ کرے ہمیں تباہی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔اس وقت جس طرح کی سیاسی کشمکش جاری ہے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button