ColumnImtiaz Ahmad Shad

کہیں سے کوئی اچھی خبر نہیں .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

ہم وہ قوم بن چکے جواپنے ہاتھوں سے اپنے گلشن کو آگ لگا کر ،اس کے گرد دھمال ڈال رہی ہے۔ہم دنیا کے کھوکھلے اور نکمے لوگ بن چکے۔نہ ہماری نصیحتوں میں اثر ہے اور نہ دعائوں میں۔ دہائیوں سے جو بو رہے تھے آج وہ زہر آلود فصل پک کر تیار ہو چکی۔ایک دوسرے پر بہتان لگا کر خود کو بہتر ین ثابت کرنے والوں کو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں پلک جھپکنے سے پہلے بند کمروں کی بات چوک چوراہے میں پہنچ چکی ہوتیہے۔پاکستان میں نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ جنازوں پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں جب کہ شادیوں پر صف ماتم بچھا ہے۔جو جس کے ذہن میں آتا ہے، شطر بے مہار،کہے چلے جا رہا ہے۔ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے قوم تو دور کی بات ہے ہم ہجوم بھی نہیں رہے۔کوئی روک ٹوک نہیں۔سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی سے لے کرپارلیمان تک کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ہم عزت ،شرم ،حیا اور اخلاقیات ایسے خیالات کوتو کب کے پسماندہ سوچ کہہ کر رد کر چکے۔

معاشرے کی ہر وہ برائی یا عیب جسے چھپانا ضروری ہوا کرتا تھا آج وہ موبائل فون کی سکرین پر بڑے فخر اور تواتر سے سات سال کے بچے سے لے کر ساٹھ سال کے بزرگ تک دیکھ رہے ہیں۔بھیڑ بکریوں کا ریورڑ بھی فصل اجاڑ دیتا ہے جب چرواہا ان سے نظریں ہٹا کر کہیں اور مشغول ہو جائے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ 24کروڑ بھیڑ بکریاں اس وقت چروائے کے بغیر میدان میں ہیںاور سامنے موجود ہر کھیت کو اجاڑے جارہی ہیں۔

کوئی بھی ریاست اس وقت تک مضبوط نہیں ہوتی جب تک اس کے ادارے مضبوط نہ ہوں۔ ہمارے ہاں اداروں کی یہ حالت ہو چکی کہ ہر روز کسی نہ کسی تفتیشی آفیسر کی لاش مل رہی ہے،انصاف کا یہ عالم کہ جن پر فرد جرم عائد ہونا تھی وہ حاکم وقت بن چکے ۔جنہوں نے قوم کو تحفظ دینا تھا وہ آج خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔مہنگائی اس سطح پر کبھی نہیں گئی تھی۔ پٹرول نصف ماہ میں تین بارتیس تیس روپے فی لیٹر بڑھایا گیا۔ بجلی ،گیس کے نرخ میں اضافہ ہوچکاہے۔ اشیاء خورو نوش قریباًساٹھ فیصد کی پہنچ سے دورہوچکی ہیں۔حرص و ہوس کے بازار گرم،اہل علم و دانش رسوا ہورہے ہیں جب کہ بھانڈ اور مسخرے مقام و مرتبے پا چکے ہیں۔غرض کہیں سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں آرہی ۔ڈھٹائی یہ کہ ہم پھر بھی زندہ قوم
ہیں۔انسانی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا ہے کہ کسی بھی ریاست کے تمام ادارے مل کر انہیں تحفظ فراہم کرنے میں مشغول ہیں جنہوں نے ریاست کے حقیقی وارثوں یعنی عوام کو خون کے آنسو رلائے اور ان کے تن سے کپڑا اور منہ سے نوالہ تک چھین لیا۔ موجودہ حالات کو اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن پُر اعتماد بھی ہے اور خوش بھی۔

جب کہ تجربہ کارحکومت کی ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ پس پردہ دیکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ جس مقصد کے لیے جن کی تاج پوشی کی گئی اور انہیں تخت عطا کیا گیا وہ مقصدپورا ہوچکا۔ قوانین میں تبدیلیاں کر لی گئی ہیں۔ اگلا معرکہ مارنے کے لیے انتخابی اصلاحات کا کام پایہ تکمیل کو پہنچ چکا۔نیب کو نکیل ڈالی جا چکی، جب کہ ریکارڈ میں ردوبدل کر کے تمام کیس کمزور کردیئے گئے،آخری بات مقصود چپڑاسی بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔جب تمام ریاستی مشینری ایسے خیر کے کاموں میں مشغول ہو تو ریاست کا کمزور ہونا کوئی انہونی نہیں۔کہا جا رہا ہے کہ مشکل وقت ہے، عوام کو برداشت کرنا ہو گا،75سالوں میں کوئی ایک حکومت بتائیں جس نے یہ جملہ نہ ادا کیا ہو؟مشکل وقت ہمیشہ عوام کا ہی منتظر کیوں رہتا ہے،میرے وطن کی اشرافیہ پر مشکل وقت کب آئے گا؟یاد رکھنا جب تک اشرافیہ پر مشکل وقت نہیں آتا اس وقت تک قوم کی مشکلات ختم نہیں ہوں گی۔وقت خود حیرت میں ہے کہ عام لوگوں کی آنکھوں میں جو  سرخی ہے،چہروں پر برہمی ،لہجے میں تندی ہے اورآس پاس سے بیزاری ہے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

عوام پرپہلے اعصاب کا تنائو کچھ وقت تک رہا کرتا تھا، حکومتوں پر غصہ کسی ایک بات پر آتا تھا،اب تو مکمل طور پر ذہنی تنائو کا شکار ہو چکے،نہ کوئی راہ ہے اور نہ ہی راہرومنزل۔تاریخ ہمیں ایسے موڑ پر لے آئی ہے کہ دل میںآگ لگی ہے کسی کو دکھائی نہیں جا سکتی مگر جو آگ حکمرانوں کو نظر آتی ہے وہ جسم پر لگے شعلے ہیں ،افسوس جسم کو آگ لگانا بھی مشکل ہو گیا، اب خود پر پٹرول چھڑکنے کے لیے بھی خریدنے کی سکت نہیں۔حالانکہ ذہنوں میں الائو پہلے زیادہ دیر سلگتے تھے،آسائشیں کم اور مشکلیں زیادہ تھیں،جب سے سہولتیں بڑھی ہیں مشکلات نے مکمل بسیرا کر لیا ہے۔ پہلے یہ ہوا کرتا تھا کہ ادارے عوام کی حالت زار کی رپورٹ تیار کر کے حکمرانوں کو دیا کرتے تھے اور حکمران عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سیاسی ہتھکنڈہ استعمال کر کے کھیل جاری رکھ لیتے تھے۔ مگر اب کے بار ریاست نے یہ کردار بھی ختم کر دیا۔ حالات کس رُخ پر چل نکلے، واقعات کس منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ؟

کسی کو کوئی برواہ نہیں۔ حالات و واقعات مہنگائی زدہ بستی میں کیا کہرام مچانے والے ہیں،کون سی آفات نے کہاں سے حملہ آور ہونا ہے، کتنے دل جل چکے اور کتنے ذہنوں میں آگ کے آلائو تپ رہے ہیں؟یقیناً ریاست اس وقت مکمل طور پر بے خبر ہے۔تڑپتے ذہنوں میں جو لوگ حشر برپا کررہے ہیں اس کا انجام کتنا بھیانک اور درد ناک ہوگا ،شاید مقتدر حلقوں کو بھی خبر نہیں۔ایسی کون سی بستی ،دیہات اور شہر ہے جہاں بے چینی نہیں۔ بے قراری کا یہ عالم ہے کہ عوام کے گلے سے اب چیخوں کی آواز بھی نہیں نکل پا رہی۔حالات ایسے ہو چکے کہ پھولوں نے کانٹوں سے اور سانپ نے نیولے سے دوستی کرلی۔اہل دانش منظر سے غائب اور مسخرے بام عروج پا چکے۔ ریاست میں لگی آگ کی تپش سے وہ مکمل بے خبر ہیں جنہیں ہر خبر پر نظر رکھنی چاہئے تھی۔

ملک کے اندرونی اور بیرونی حالات کسی صورت درست نہیں۔کہیں سے کوئی خیر کی خبر نہیں آرہی۔ہر سو آسیب کا سایہ ہے۔ہر دور میں ریاست کو تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔جو بھی آیا اس نے نئے نئے تجربات کئے  اور ملک کو بد حال کرتا رہا،معلوم نہیں ہم نے مزید کتنے تجربات کرنے ہیں؟سب کو معلوم ہے کہ ہم نے جزا و سزا کے عمل سے رو گردانی کی جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔وقت ریت کی ماند ہماری مٹھی سے پھسل رہا ہے اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہماری مٹھی بند ہے۔اے میرے وطن کے اہل فکر،اہل علم ودانش ، میدان عمل میں اترو،اپنا فرض ادا کرو۔کردار سازی اور صبر و تحمل کا درس دو۔ ملک کو استحکام بخشنے کے لیے جو ضروری ہے وہ کرو،اگر آپ بھی اپنا کردار ادا نہیں کرتے تو یقیناً شک یقین میں بدل جائے گا کہ میری قوم کا زر خیز ذہن زنگ آلود ہو چکا۔یاد رکھیں لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکا ہمیشہ اپنے منہ پر مارا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button