ColumnQaisar Abbas

ست رنگی جھیل اور موت کا رنگ .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر
گلگت سے ہنزہ روڈ پر نومل کی طرف اترتے ہوئے جیپ کے ذریعے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر وادئ نلتر اور پھر مزید گھنٹہ بھر کے بعد نلتر بالا کی جھیلیں ہیں ۔ ست رنگی جھیل کے قریب ہی 14 جون کی دوپہر وہاں کے مقامی دو لڑکے جن کی عمریں چودہ اور سولہ سال تھیں۔ان میں سے ایک لڑکا مویشی چراتے ہوئے نلتر ندی کے برف پانی میں گر گیا جسے بچاتے ہوئے چھوٹے بھائی نے بھی چھلانگ لگا دی۔ ایک لڑکا جس کا نام کاکا تھا وہ برف پانی میں زیادہ دیر رہ جانے اور نکالے جانے میں تاخیر کے سبب فوت ہوگیا جب کہ اس سے پہلے نکالا گیا لڑکا بھی فوت سمجھ کر چھوڑ دیا گیا کہ اس لمحے ہماری دونوں جیپیں جو بلیو جھیل کی جانب جارہی تھیں، وہاں پہنچ گئیں اور مینار ملتان میں تعینات کینسر سپیشلسٹ ڈاکٹر قرۃ العین ہاشمی نے اس مردہ قرار دئیے گئے لڑکے کی آنکھیں دیکھیں تو اس کی سی پی آر شروع کردی اور اسرار احمد چودھری نے منہ پر منہ رکھ کر سانسیں دینا شروع کیں تو چند منٹ کے عمل کے بعد اس لڑکے کو قے آئی اور وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ڈاکٹر عینی ہاشمی نے بتایا کہ دل کے دورے اور ایسے بہت سے امراض میں مردہ قرار دئیے گئے مریضوں کو اگر بروقت سی پی آر کے عمل سے گزارا جائے تو 70 فی صد لوگوں کی جان بچائی جا سکتی ہے اور ہم نے وہاں دیکھا کہ سی پی آر کی تربیت ہر شخص کو دی جانی چاہیے۔ نوٹ یہ خبر ان احباب کے لیے ہے جو سفر نامے کے لیے لکھی گئی تحریر پر اعتراض کر رہے تھے اس لئے خبر کے انداز میں معلومات فراہم کر دی گئی ہے۔
گلگت کی وادئ نلتر بالا میں واقع ست رنگی جھیل کا پہلا لمس ہی نا قابل فراموش تھا جس کی تہہ میں جو کچھ بھی تھا باطن نہ تھا۔ رتی گلی جھیل کے کچھ
راج ہنس ست رنگی جھیل میں بھی تیرتے تھے ۔ ہم جس لمحے وہاں پہنچے اس میں آٹھواں رنگ بھی شامل ہوگیا اور وہ محبت کا رنگ تھا۔
ست رنگی لیک سے رخصت لی اور نیلی جھیل کی جانب بڑھنے لگے ۔ دونوں جیپیں اپنی بوتھی اٹھائے وادی کی خاموشی کو توڑتے ہوئے آگے بڑھیں تو بلیو رنگ کی برف ندی ایک اور رنگ لیے ہماری منتظر تھی۔ کچھ عورتیں بین کر رہی تھیں اور مرد پانی سے لاشیں نکال رہے تھے ۔ پانچ سات سالہ دو بچیاں چیختی ہوئی پانی کی طرف بانہیں پھیلاتی تھیں تو راہگیروں کے دل سینے سے باہر نکل آتے تھے ۔
ہم بھی جیپوں سے اترے تو اس ندی کے سامنے بے بس ہوتے گئے ۔ دو لڑکے جو ابھی جوان ہونے کو تھے اور ایک ہی ماں کے بیٹے تھے جن میں سے ایک کا نام کاکا پکارا جا رہا تھا ، وہ پانی میں اس طرح گرے تھے کہ موت کی بانہوں میں آ گئے ۔ ممکن ہے پہلے ایک بھائی گرا ہو اور دوسرا اسے بچانے کے لیے ندی میں کود
گیا ہو ۔ دونوں لڑکوں نے سیاہ رنگ شلوار قمیض پہنے تھے اور پاؤں میں پلاسٹک کے جوتے تھے ۔
پھر ایک لڑکے کو ندی سے نکال لیا گیا اور ماں کو پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہ ندی کنارے پڑی لاش کو دیکھے یا ڈوب چکے بیٹے کو نکالنے کے لیے باہر کھڑے مردوں کی منت کرے۔ اس لاش کے گرد بین تھے جو آسمان تک یوں گئے کہ مردہ قرار دئیے گئے لڑکے کی مسیحائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹرقرۃ العین ہاشمی کو بھیجا اور انہوں نے اس لاش کے گرد بیٹھے رشتہ داروں کو ہٹایا آنکھوں کی پتلیاں دیکھیں ، سینے پر دونوں ہاتھوں سے دباو بڑھایا اور ان کے شوہر اسرار احمد چودھری نے منہ پر منہ رکھ کر پریشر دیا اور وہ چند منٹ کی محنت کے بعد جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ زرد رنگ زندگی میں بدلنے لگا اور دوسری طرف برف ہوچکی لاش کو ندی سے نکالا گیا تو ڈاکٹر عینی نے اسے مردہ قرار دے دیا ۔ ماں کی نظریں ڈاکٹر عینی پر تھیں تو پھر زندگی بچانے کا عمل دہرایا گیا مگر وہ بہت پہلے مر چکا تھا اور شاید اس کی موت برین کی شکستگی سے ہوئی تھی کیونکہ اس کی زبان اور آنکھوں میں موت تھی ۔ لوگ مر چکا کاکا کاندھوں پر اٹھا کر قریب ہی بنے گھروندوں کی طرف جا رہے تھے اور ایک میت کے باوجود ڈاکٹر عینی کے لیے دعائیں تھیں کہ ماں کی گود میں ایک زندگی اور ایک موت تھی ۔ بچ چکے لڑکے کے لیے ست رنگی لیک سے نیلی جھیل کی طرف جانے والے میاں بیوی زندگی بن کر بھیجے گئے تھے ۔ نیلے پانی کی اس ندی میں موت کا رنگ یوں نمایاں تھا کہ ہم سب بجھ سے گئے اور بچوں نے رونا شروع کر دیا۔ آنکھوں کے سامنے ہو چکی نو عمر موت اعصاب پر چھائی تھی اور خوبصورت وادی موت کا گھر لگتی تھی ۔کینسر سپیشلسٹ ڈاکٹر عینی نے چند دن بعد اسرار بھائی کے ساتھ حج پر جانا تھا اور اس سے پہلے ہی حج جیسا عمل کر لیا گیا تھا۔ پوری وادی نلتر میں ان کے لیے تشکر بھرے جذبات تھے ۔
ہم نے بلیو لیک کی طرف جانا تھا مگر عون ، حجاب ، سحاب ، عبداللہ اور آیت واپس جانے پر بضد تھے ۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ کوہ نوردی کی مہم اپنی منزل کے قریب جا کر نہیں روکی جا سکتی۔ سیاحت کے تجربات میں یہ پہلا واقعہ تھا جس نے زندگی اور موت کے رنگ ایک ہی ندی میں یکجا کر دئیے تھے ۔ ست رنگی جھیل سے بلیو لیک تک ہم ہمارے ساتھ سارے رنگ تھے مگر جواں مرگ رنگ سب پر بھاری تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button