Columnعبدالرشید مرزا

آئی ایم ایف جب ایٹمی اثاثے مانگے گا؟ .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا
میرے ملک کے لوگوں آنکھیں کھولو بددیانت حکمرانوں کو پہچانوں ورنہ ہماری داستاں نہ ہوگی داستانوں میں وہ وقت دور نہیں جب ایک پاکستانی دوسرے کو اس لیے مارے گا کیونکہ اس کے پاس کھانا کھانے کے پیسے نہیں ہوں گے۔ معاشی بحران آتے ہیں لیکن تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب حاکم وقت بہتری کے لیے کوئی قدم نہ اٹھائے۔ بجٹ اگلے سال کی معیشت کا عکس ہوتا ہے لیکن 2022.2023 کا بجٹ دیکھیں تو اگلے سال کی معیشت کا بھیانک چہرہ نظر آتا ہے، معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں ترقی تو بہت دور کی بات ہے غریب کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں 7 کروڑ 70 لاکھ عوام غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے وہ بڑھ جائے گی، ایسا لگتا ہے صحت اور تعلیم کسی پاکستانی کا حق نہیں۔ حکومت نے اس بجٹ میں تعلیم کے لیے 12ارب اور صحت کے لیے 6 ارب رکھے ہیں یعنی 18 ارب اس کے مطابق 22 کروڑ عوام کے لیے صحت کے لیے 27 روپے اور تعلیم کے لیے 54 روپے مختص کئے ہیں۔ یعنی تعلیم اور صحت پر کسی غریب کا حق نہیں ہے۔
بجلی کی قیمت میں 9روپے، گیس کی قیمت میں 45 روپے، پٹرول کی قیمتوں میں 60 روپے اضافہ متوقع، پٹرولیم مصنوعات پر17 فیصد سیلز ٹیکس، 4 روپے فی لٹر پٹرول ڈویلپمنٹ لیوی لگائی جائے گی جس سے پٹرول 260 روپے پر چلا جائے گا، جس سے مہنگائی میں بے حد اضافہ نظر آئے گا۔ پیداوار کے اخراجات میں اضافہ ہوگا، برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 9.2 بلین ڈالر ہیں، جی ڈی پی سے قرضوں کی شرح 87فیصد ہے پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے جو انتہائی خطرناک ہیں، حکمرانوں نے پھر بھی ہوش کے ناخن نہیں لئے اور برآمدات پچھلے دس مہینوںمیں 30 ارب اور درآمدات 75 ارب ڈالر رہیں۔ درآمدات میں شامل مہنگی گاڑیاں، کاسمیٹکس نمایاں رہے ۔ ہم زرعی ملک ہیں اس کے باوجود ہم گندم، سویابین، چینی وغیرہ درآمد کررہے ہیں۔
ہمارا انرجی سیکٹر بحران کاشکار ہے جس کی بڑی وجہ تھرمل سے بجلی پیدا کرنا ہے،فرنس آئل سے بجلی 20 روپے یونٹ اور ہائیڈل سے 4 روپے فی یونٹ پیدا ہوتی ہے، ہائیڈل منصوبے فوری مکمل کرنے کی ضرورت ہے، بجلی مہنگی ہونے سے ہمارے انڈسٹریل یونٹس کی پیداواری خرچہ زیادہ ہوتا ہے اور برآمدات میں کمی آتی ہے۔
بجلی میں سالانہ 16 سو ارب کا نقصان ہو رہا ہے لیکن مراعات یافتہ طبقے کی بجلی بند نہیں کی گئی۔ مرکز کے بجٹ میں صوبوں کا حصہ 4.1 کھرب نکال دیں تو مرکز کے پاس 5 کھرب بچیں گے، ان پانچ کھرب میں سے 4کھرب قرضوں پر سود اور دفاع پر1.52 کھرب، نصف کھرب پینشنرز کا نکال دیں ترقیاتی بجٹ کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ قرضوں کی صورتحال کرنٹ اکاونٹ کو پورے کرنے کے لیے 12 ارب ڈالر قرض درکار ہوگا، بیرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے 21 ارب ڈالر، زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے 8 ارب ڈالر درکار ہوں گے یعنی 40 ارب ڈالر کا آئندہ مالی سال میں قرض لینا پڑے گا۔ تعمیراتی بجٹ 727 ارب رکھا گیا ہے جو پچھلے سال 900 رب سے کم ہے یعنی توقع کی جاسکتی ہے۔ نئے منصوبے تو دور کی بات ، جوپہلے سے چل رہے ہیں وہ بھی سست روی کا شکار ہوجائیں گے۔
کمال یہ ہے کہ جھوٹ پر مبنی حکومت کے بجٹ میں ڈالر 183 روپے تک گیا ہے جبکہ اس وقت ڈالر 205 روپے کا ہے،جس سے امید رکھی جاسکتی ہے کہ منی بجٹ آئے گا اور مہنگائی اور بڑھے گی۔ آئی ایم ایف کے حکم پرسٹیل ملز، پی آئی اے، واپڈا، ریلوے کی نجکاری کی جائے گی، یہ وہ ادارے ہیں جو وطن عزیز کی آمدن میں ایک بڑا حصہ ڈالتے تھے، کرپٹ اور نااہل حکمرانوں کی وجہ سے آج نقصان میں ہیں۔ان اداروں میں واپڈا پاکستان کے انرجی سیکٹر کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور پی آئی اے پاکستان کی کمیونی کیشن کے نظام کی بنیاد ہے، ان اداروں کی نجکاری سے مراد پاکستان کے کنٹرول کو کسی دوسرے ہاتھ میں دینا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج پاکستان کی معیشت کی ایسی صورتحال کیوں ہے؟ پچھلے پچاس سال سے یہ ہی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف ہے۔ سب نے ملک کر قرض لئے لیکن انڈسٹری، زراعت، آئی ٹی سیکٹر کو فروغ دینے کی بجائے قرض پر قرض لیا یہ ان کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب نتیجہ یہ نکلا ہم دنیا کے ان ممالک سے بھی پیچھے رہ گئے جن کو ہم امداد بھیجا کرتے تھے۔ اور کمال یہ ہے جن سیاسی جماعتوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا آج بھی ہماری بھولی بھالی عوام کے پسندیدہ لیڈر ہیں۔
میرے وطن عزیز کے لوگو اب بھی ہوش میں آجاؤ اور دیانتدار اور باصلاحیت لوگوں کا انتخاب کریں ورنہ ملک کی معیشت جہاں پر پہنچ گئی ہے وہاں پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے کچھ قدم باقی ہیں، آج ہم ملک کے ادارے بیچنے جارہے ہیں وہ وقت دور نہیں جب ہم ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف ہم سے ایٹمی اثاثے مانگے گا۔ اور ایک بات واضح ہے۔ ہمارے حکمران اور اپوزیشن دونوں تیار ہو جائیں گی اور ایک لمحہ ضائع کئے بغیر لندن اور امریکہ چلے جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button