Columnمحمد مبشر انوار

مینڈیٹ۔۔۔ … محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

یہ کیا ہوا!جس طمطراق کے ساتھ تحریک عدم اعتمادکامیاب ہوئی تھی،جو بڑے بڑے دعوے مسلم لیگ نون کی حکومت نے اپنے اتحادیوں کے بل بوتے پر کئے تھے،ایک ماہ بھی نہیں گزرے کہ بڑے بڑے زعماء،جو کل تک مہنگائی کارونا رو رہے تھے،آج ببانگ دہل چیخ رہے ہیں کہ تیل کی مصنوعات پر دی جانے والی ریاستی سہولت ،ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے اور یہ سہولت ملک معیشت کا بیڑا ڈبو دے گی۔یا حیرت یہ چند ہفتوں میں کیا ماجرا ہو گیا کہ سارے دعوے اور مہارت ناک کے بل زمیں بوس کیوںہوگئی؟کیا عدم اعتماد سے پہلے ،کل کی اپوزیشن کا ہوم ورک مکمل نہیں تھا؟عدم اعتماد سے پہلے تک تو ماسوائے پیپلز پارٹی،ساری جماعتیں نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھیں،یہ زرداری ہی تھے جنہوں نے اپنی جوڑ توڑ کی سیاست اورکچھ خفیہ مقاصدکے تحت عدم اعتماد کی راہ ہموار کی بلکہ انتہائی سادگی اور جمہوری اقدار کا لبادہ اوڑھ کر مسلم لیگ نون کو ملکی قیادت پر دانستہ براجمان کرایا ۔

مسلم لیگ نون کو تخت پر بٹھانے کی وجہ اس وقت واضح نظر آ رہی ہے کہ معاشی بدحالی کا سارا نزلہ مسلم لیگ نون کی قیادت کے سر رہے اور کسی طرح عوام کو اُن سے بد ظن کیا جا سکے،زرداری اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں،اس کا نتیجہ تو نئے انتخابات میں سامنے آئے گا لیکن ابھی تک کی صورتحال میں یا جب تک یہ حکومت قائم رہتی ہے ،عوام کاغم و غصہ مسلم لیگ نون پر بڑھتا رہے گا۔ البتہ اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کہ مسلم لیگ نون کا ووٹر،بالخصوص وسطی اور شمالی پنجاب میں ہنوز مسلم لیگ نون کے ساتھ کھڑا ہے،اس ووٹ بنک میں کسی طور پر بھی کوئی واضح شگاف نظر نہیں آتا۔گذشتہ کئی دہائیوں سے دیکھا گیا ہے کہ مسلم لیگ نون کا ووٹر جلسوں کی رونق نسبتاً کم بڑھاتا ہے لیکن بیلٹ بکس سے نکلنے والے ووٹوں کی تعداد ان عوامی جلسوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے اور مسلم لیگ نون انتخابی میدان مار لیتی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ مسلم لیگی اکابرین نے انتخابی سیاست میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دے رکھے ہیں،
بیلٹ بکسوں میں ووٹوں کی بڑی تعداد،اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آج انتخابی سیاست کی کارروائی زبان زد عام ہے کہ کس طرح نون لیگ ووٹوں میں برتری حاصل کرتی رہی ہے اور آج بھی اس کی اکثریت کس طرح ممکن ہے۔ البتہ یہ ساری مشق بذات خود جمہوری انداز کی چیخ چیخ کر نفی کرتی ہے لیکن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘کا نعرہ لگانے والوں کے لیے ووٹ کی عزت صرف اتنی ہے کہ یہ ان کے حق میں ہو وگرنہ ووٹ نہ صرف بے عزت ہو جاتاہے بلکہ اس کی کوئی توقیر بھی نہیں رہتی،بدقسمتی سے یہ رویہ آج دیگر سیاسی جماعتوں میں بھی پروان چڑھ چکا ہے۔
ووٹ کو عزت تو اسی صورت دی جا سکتی ہے کہ سیاسی جماعتیں ووٹر کے ساتھ رابطے میں رہیں،ووٹر کے مسائل کو سمجھیںاوران مسائل کے حل میں اپنی بھرپور کوششیں کریںتا کہ ووٹ کو عزت دی جا سکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ایک عرصہ تک پاکستان کی واحد قومی سیاسی پارٹی رہی ،ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں عوامی رابطے پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کیا اور ہمیشہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام‘‘کو گردانا،اپنی اس کوشش میں بے نظیر بھٹو نے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی لیکن بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد،زرداری چیئرمین بنے تو اپنے مزاج کے عین مطابق عوام میں نکلنے کی بجائے،ڈرائنگ روم کی سیاست پر عمل پیرا ہو گئے۔
اپنے گذشتہ دور حکومت میں زرداری کی اسی پالیسی نے پیپلز پارٹی کو صرف سندھ تک محدود کر دیا،موجودہ صورتحال زرداری کی اسی ڈرائنگ روم کی سیاست کا شاخسانہ ہے اورزرداری اسی سیاسی نقصان کا حساب برابر کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ نئے انتخابات میں وہ مسلم لیگ نون سے پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ اسی لیے کر رہے ہیں کہ کسی طرح پیپلز پارٹی دوبارہ پنجاب میں متحرک ہو سکے لیکن سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی یہ سیاست کیا پیپلز پارٹی کو پنجاب میں فعال کر سکے گی؟یہاں زرداری کی سیاست ایک بار پھر غلط تخمینے لگا رہی ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت پنجاب سے نشستیں حاصل کرنے سے پیپلز پارٹی کسی بھی صورت پنجاب میں فعال نہیں ہو سکتی کہ خیرات میں حاصل کی گئی نشستیں اور ووٹ کبھی بھی پارٹی کی نشستیں یا ووٹ نہیں ہوسکتا البتہ تخت اسلام آباد تک رسائی میں معاون ضرور ہوسکتا ہے،جو اگلے انتخابات میں پھر اپنے اصل قائد کے پاس واپس چلا جائے گا۔
زرداری کی یہ چال اور تصور کہ اس طرح مسلم لیگ نون کو پنجاب میں شکست دی جا سکتی ہے،خام خیالی ہے البتہ ڈنکے کی چوٹ پر جو مقابلہ اس وقت عمران خان مسلم لیگ نون کے ساتھ کر رہا ہے،صرف وہی لائحہ عمل ہے کہ جو مسلم لیگ نون کی قریباً چار دہائیوں سے جاری اجارہ داری کو ختم کر سکے۔
عدم اعتماد کے بعد تبدیلی نے صرف ایک کام کیا ہے کہ شہباز شریف کا نام وزرائے اعظم کی فہرست میں شامل کروا دیا وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ اس تبدیلی نے رہی سہی ساکھ بھی برباد کر دی ہے اور عمران خان کے مخالفین جو سمجھتے تھے کہ عمران خان اپنی کارکردگی سے عوام میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا،اپنے قیاس میں شدیدترین ناکامی کا شکار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان اپنے دعوے کے عین مطابق اپوزیشن میں جا کر مزید خطرناک ہو چکے ہیں اور آئے روز اس کی مقبولیت آسمانوں کو چھو رہی ہے،درحقیقت یہ عمران کا وہ مؤقف ہے جس کی پذیرائی عوام کر رہے ہیں اور اپنے رجحان کا اظہار کررہے ہیں کہ انہیں کسی
بھی عالمی طاقت کی غلامی قبول نہیں اور نہ ہی چند خاندانوں کی غلامی قبول ہے۔
تسلیم کہ پاکستانی معاشی حالات ایسے نہیں کہ پاکستان اپنے فیصلے خود کر سکے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ عالمی برادری کا حصہ رہتے ہوئے اپنی الگ لائن لے کر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالے لیکن یہ ضرور ہے کہ انہی حالات کے اندر رہتے ہوئے ایک ایسی پالیسی پر ضرور عمل پیرا ہو،جس سے پاکستانی مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ امریکی خواہشات تو بہت سی ہیں اور ان خواہشات میں سب سے بڑی اور اہم خواہش یہی ہے کہ پاکستان کسی بھی طرح، کسی بھی میدان میں استحکام حاصل نہ کر سکے بالخصوص خطے میں بھارتی تسلط کو تسلیم کرے اور چین و روس کے خلاف امریکی منصوبوں میں حصہ دار رہے۔ بیرونی حمایت سے برسر اقتدار آنے والوں کے لیے ان شرائط و خواہشات پر عمل درآمد کرنا کوئی مشکل نہیں لیکن پاکستانی ووٹرز کی حمایت سے برسراقتدار آنے والی کسی سیاسی جماعت کے لیے ایسی پالیسی پر عمل کرنا ممکن نہیں اوریہ وہ فرق ہے جو نہ زرداری کو سمجھ آرہی ہے اور نہ ہی نواز شریف اس کو سمجھ رہے ہیں،
ممکنہ طور پر ماضی ان قائدین کے سامنے ہے،جو وہ عوامی سیاست کی بجائے جوڑ توڑ اور سمجھوتوں کی سیاست پر یقین کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف عمران خان تنہا، اپنی زندگی کو داؤ پر لگائے اور دھمکی کے باوجود،اپنے خودداری و آزادی کے مؤقف کے ساتھ عوام میں موجودہے،بعینہ بھٹواور بے نظیر اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے باوجود اپنے عوامی انداز سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے اور عوام میں رہتے ہوئے اپنی عوامی سیاست کو زندہ رکھااور اسی سیاست کی نذر اپنی جان کر دی۔تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت تو حاصل ہو چکی لیکن حکومت دلدل میں سنبھلنے کے لیے جتنے ہاتھ پیرماررہے ہیں،اتنے زیادہ دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں،
ملکی سیاست میں جلسے جلوسوں سے انتخابی رنگ بھرچکاہے،زرداری لاکھ کہیں کہ وہ انتخابی اصلاحات اور نیب کا مکو ٹھپنے کے بعد انتخابات میں جائیں گے،ممکن نہیں رہا۔ حکومت بری طرح معاشی مشکلات کاشکارہو چکی ہے،تیل کی مصنوعات پر قیمتیں بڑھاتے ہیں تو مصیبت، نہیں بڑھاتے تو مصیبت ہے،مقدمات سے نجات تو دور کی بات،ایک ایک قدم بھاری نظر آرہا ہے اور توقع ہے کہ کوئی وقت جاتا ہے کہ موجودہ حکومت نئے انتخابات کا اعلان کر سکتی ہے۔ اصل سر درد یہ ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں عین ممکن ہے کہ 1997کے بعد عمران خان دو تہائی اکثریت حاصل کر کے ،منقسم مینڈیٹ کی روایت کو توڑ دے اور اس کے بعد اپنے احتساب کے منشورپر بلا امتیاز سختی سے عملدرآمد کرواتے ہوئے،پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکال سکے،اگر بلا امتیاز عملدرآمد نہ کروایا گیا تو پاکستان مزید گرداب میں گھر جائے گا۔اس وقت پاکستان جن مشکلات کا شکارہے،اس میں جمہوری کلچر کے عین مطابق بہتر تو یہی ہے کہ حکومت سازی کے لیے فریش مینڈیٹ حاصل کیا جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button