ColumnNasir Sherazi

الیکشن مسائل کا حل نہیں! … ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

بھینس فیملی سے تعلق رکھنے والا نر ہو یا مادہ، بچہ ہو یا بڑا، ہر وقت منہ چلانا یعنی جگالی کرتے رہنا ان کا محبوب مشغلہ نظر آتا ہے، اس کے بعد جو کام وہ بہت شوق سے کرتے ہیں، وہ ہے پانی کے جوہڑ میں بیٹھے رہنا، اُن کے بس میں ہو تو دن رات پانی میں گھسے رہیں، وائلڈ لائف کے حوالے سے ایک نامور ٹی وی چینل پردیکھا ایک ادنابھینسا جھومتا جھامتا چلا آرہا ہے، وہ پانی پینے کے لیے ایک جوہڑ کے کنارے رکتا ہے، پانی پی کر منہ اٹھاکر ادھر اُدھر دیکھتا ہے جیسے اُسے کسی ساتھی کی تلاش ہو، کسی کو قریب نہ پاکر وہ تنہا ہی جوہڑ میں اُتر جاتا ہے، اس میں عقل ہوتی تو کم پانی میں ڈیرہ ڈال دیتا اورٹھنڈک حاصل کرلیتا لیکن چونکہ شوق کا کوئی مول نہیں، پس وہ گہرے پانیوں کی طرف بڑھتا ہے بالآخر ایک دلدل میں پھنس جاتا ہے، تمام ترکوشش کے باوجود نکل نہیں پاتا، اپنے آپ کو مشکل میں گھراپاکر وہ باآواز بلند چیخنا شروع کردیتا ہے، اتفاقاً ایک ریسکیو ٹیم اِدھر آنکلتی ہے، وہ اُسے دلدل میں پھنسا دیکھ کر نکالنے کا فیصلہ کرتے ہیں،

وہ موٹے رسوں کے سرے بھینسے کے سینگوں میںپھنساکر دوسرے سرے گاڑی کے ساتھ باندھ دیتے ہیں، پھر ریسکیو ٹیم کے ممبران زور لگاتے ہیں، گاڑی سٹارٹ کرکے آہستہ آہستہ آگے بڑھاتے ہیں، کافی تگ ودو کے بعد وہ بھینسے کو دلدل سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، باہر نکلتے ہی بھینسے کے اوسال بحال ہوجاتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ اب خشکی کی طرف منہ کرجائے و ہ غصے کے عالم میں اپنے کھُر زمین پر مارتا ہے اور ریسکیو کرنے والوں کی طرف لپکتا ہے، سب لوگ اس کے سینگوں سے محفوظ رہنے کے لیے گاڑی میں سوار ہوجاتے ہیں لیکن بھینسا ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا، وہ گاڑی کو ٹکریں مارنا شروع کردیتا ہے،اس کی کوشش ہوتی ہے کہ گاڑی میںسوار افراد کو گاڑی سے باہر نکال کر اپنے سینگوں پر رکھ لے، ڈرائیور سمجھداری سے کام لیتے ہوئے گاڑی وہاں سے دور لے جاتا ہے، بھینسا زیادہ دور تک ان کے پیچھے دوڑ نہیں سکتا وہ ہانپ جاتا ہے، پھر خراماںخراماں چلتا ہوا اسی جوہڑ کے کنارے آکر پانی پیتا ہے اور ایک مرتبہ پھر گہرے پانی کامزہ لینے کے لیے بڑھتے بڑھتے دلدل میں پھنس جاتا ہے،

وہ بہت شور مچاتا ہے لیکن ریسکیو ٹیم بھی دورنکل چکی ہوتی ہے وہ دوسری مرتبہ اُسے دلدل سے نکالنے کے لیے نہیں پلٹتی۔
یہ کلپ ختم ہوا تو مجھے 2018کے الیکشن یاد آگئے، کیسے حکومت بنی، کیسے تعداد پوری کرکے سادہ اکثریت دلائی، پھر کس طرح اقتدار آگے بڑھا اور کس طرح حکومت دلدل میں پھنسی، دوسری مرتبہ اسے نکالنے کے لیے کوئی نہ آیا، بتایا جارہا ہے کہ ملک میںدو بحران ہیں، ایک سیاسی اور دوسرا مالیاتی، ان کا حل بتایا جاتا ہے کہ الیکشن کرادیئے جائیں تو پھر چھومنتر سے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، میرے تجربے اور خیال کے مطابق فوری الیکشن مسائل کا حل نہیں ہیں، معاملات مزیدانتشار کی طرف جائیں گے، الیکشن 2023میں اپنے وقت پر کرائے جائیں۔

دریں اثناء سب مل کر مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں، جو باآسانی حل ہوسکتے ہیں،فوری طور پر فنانشل ایمرجنسی لگاکر اہم فیصلے کیے جائیں، مارکیٹ سے پرائیویٹ منی چینجر مافیا کا خاتمہ کرکے ڈالر کے معاملات نیشنل بینک کے حوالے کیے جائیں، غیر ملکی سرکاری نمائشی دورے بند کیے جائیں، اشیائے تعش، بڑی گاڑیاں، الیکٹرونکس اشیا، کتے کے بسکٹ، پنیر، جام جیلی، برانڈڈ ملبوسات، جوتے، جیولری، موبائل، چائے، فیشن اور اِس زمرے میں آنے والی تمام اشیاء کی امپورٹ بند کرکے ڈالر بچایا جائے، اِن اشیاء کی مجموعی تعداد تین ہزار سے زائد ہے، ایکسپورٹ کو بڑھایا جائے، سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے آنے والا زرمبادلہ، پٹرول اور کھانے کے تیل کی درآمد پر خرچ کیا جائے،

یا اِس سے قرضوں کی قسط ادا کی جائے، مزید قرض لینے سے گریز کیا جائے، بلاسود قرض و امداد پر توجہ دی جائے، حکومت اپنے خرچ کم کرکے کابینہ مختصر کرلے، ان کی تنخواہیں ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی تنخواہیں اور الائونس مکمل طور پر ختم کریں، یہ سب لوگ کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن لڑتے ہیں، یہ غریب غربا نہیں کہ انہیں لاکھوں روپے نقد اور مراعات دی جائیں، قوم مشکل میںبوجھ اٹھاتی ہے تو قوم کے نمائندے اِن سے زیادہ بوجھ اٹھائیں اور ملک و قوم سے محبت کا ثبوت دیں، سکول، کالج، یونیورسٹیاں کم از کم تین ماہ کے لیے بند کردیں تاکہ پٹرول اور بجلی کی بچت ہو، سڑک پرصرف موٹر سائیکل یا ہزار سی سی کی گاڑی کو چلنے اور پٹرول حاصل کرنے کی سہولت ہو، جن کے پاس لگژری گاڑیاں ہیں ان کے گھروں میں
چھوٹی گاڑی بھی موجود ہوتی ہے،اسے استعمال کریں اور اسے اپنا ناک کا مسئلہ نہ بنائیں، ملک ہے تو ناک بھی ہے، ورنہ کچھ نہیں، سب کچھ خاک میں مل جائے گا۔ سرکاری اعلیٰ افسران کو بھی چھوٹی گاڑیاں اور صرف ایک گاڑی دیں،

یہ لوگ آسمان سے اترے ہوئے نہیں ہیں، کئی کئی لاکھ روپے تنخواہیں اور لاکھوں کی پنشن لینے والوںکی تنخواہیں اور پنشن سرکاری گریڈ کے برابر لائیں۔ دوہری شہریت رکھنے والی عفریت سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑائیں یہ جونکیں پاکستان کا تمام خون چوس جائیں گی اور پھر بریف کیس اٹھاکر شوکت عزیز کی طرح امریکہ یورپ کو منہ کرجائیں گی۔

اسمبلیاں توڑ کر قومی حکومت بنانے اور اسے کچھ عرصہ چلانے میں بھی کوئی حرج نہیں، حکومت میں نمائشی عہدے جیسے صدر اور گورنر اور دیگرعہدے ہیں، انہیںختم کرکے اخراجات بچائے جائیں، زیادہ بہتر سیدھا سادھا صدارتی نظام لائیں، مرکز میں صدر اور صوبوں میں گورنر چھوٹی سی کابینہ کے ساتھ جنگی بنیادوں پر کام کریں، مڈل ایسٹ اور یورپ میں ہفتے میں دوچھٹیاں ہوتی ہیں، شارجہ نے اپنے مسائل پر قابو پانے کے لیے ہفتے میں تین چھٹیوں کا اعلان اور اس پر عمل شروع کردیا ہے، ہم پورے ملک میںدو چھٹیاںکرکے فیول اور انرجی دونوں بچاسکتے ہیں، مہنگے انڈر پاسز اور سرکاری عمارات کی تعمیر موخر کرنا ضروری ہے، فوری الیکشن کرائے گئے تو صاف نظر آرہا ہے کہ مختلف جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی، تحریک انصاف تنہا رہ گئی ہے ایک آدھ کمزور جماعت اس کے ساتھ اتحاد کرسکتی ہے، کوئی مذہبی جماعت ان کے ساتھ نہیں جائے گی، تحریک انصاف کو ایک بڑے اتحاد کا سامنا کرنا پڑے گا جو مل جل کر قومی اسمبلی کی قریباً اڑھائی سو سیٹیں لے جائے گا ان کے حصے میںوہی کچھ آئے گا جو آن میرٹ پچھلی مرتبہ انہیں ملا باقی کام تو اِنہیں ریسکیو کرنے والوں نے کیا اور انہیں اقتدار دلایا،

خان کو سنگین مقدمات کا سامنا ہے، فیصلے قریب ہیں، اس مرتبہ مذہبی اور سیاسی جماعتیں ان کے مقابل ہوں گی، ان کے پاس اے ٹی ایمز نہیں ہوں گے، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کا انتخاب اب لاکھوں کا نہیں کروڑوں کا خرچ ہے، خرچ کرنے والا ہارنے کے لیے نہیں جیتنے کے لیے الیکشن لڑتا ہے،غالب امکان ہے کہ تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے کے لیے مالی طور پر مضبوط 342ارکان نہیں مل سکیں گے، پس وہ مجبوراً کارکنوں کو ٹکٹ دیں گے جن کی ضمانتیں ضبط ہوجائیں گی کیوں کہ وہ نووارد اور مالی طور پرکمزورہوں گے، یوں تحریک انصاف کو وہ کامیابی نہ مل سکے گی جس کا وہ آج خواب دیکھ رہے ہیں، ان کے جلسوں میں ایسے نوجوانوں کی بہتات ہے جو ان کے کئی برس قبل دیئے گئے دھرنے کے وقت بچے تھے لیکن انہوں نے دھرنوںکی داستانیں سن رکھی تھیں،

اب وہ اپنی آنکھوں سے دھرنوں کا حسن دیکھنے آتے ہیں، ایک بڑی تعداد اُن کی ہے جن کا ووٹ بینک بھی نہیں، الیکشن میں برادری ازم اہم فیکٹر ہوگا، خان کی کوئی برادری نہیں جو تھوڑی بہت تھی وہ اِسے زمانہ اقتدار میں ناراض کرچکا ہے،حتیٰ کہ اس کے بھائی بھی اس کے ساتھ نہیں۔ تاریخ شاہد ہے انبیا کرام کے مشن میں ان کے بھائی، عزیز و اقارب و رشتہ دار ان کے ساتھ چلے تو کامیابی نصیب ہوئی، وہ بھی جان و مال کی بے دریغ قربانیوں کے بعد، خان تو اپنی جیب میں پرس نہیںرکھتا پھر اس مرتبہ ریسکیو ٹیم دلدل سے نکالنے کے لیے نہیں آئے گی، وہ الیکشن ہار جائے گا، نتائج تسلیم نہیں کرے گا، یوں سیاسی خلفشاربڑھے گا اِس لیے الیکشن مسائل کا حل نہیں ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button