ColumnRoshan Lal

اسلاموفوبیا اور عمران خان …. روشن لعل

روشن لعل

پاکستان میں اسلامو فو بیا کا ذکر عمران خان سے زیادہ شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ عمران خان جو بھی کہتے ہیں اس کا ان کے چاہنے والوں اور ناقدوں پر بالعکس اثر ہوتا ہے۔ اسلامو فوبیا کے متعلق کہی ہوئی عمران خان کی باتوں کو اگر ان کے چاہنے والے قابل ستائش تصور کرتے ہیں تو ناقدوں کی طرف سے ان پر تحفظات کا اظہار دیکھنے میں آتا ہے۔ اسلامو فوبیا کے حوالے سے سامنے آنے والے عمران خان کے ارشادات کے متعلق ان کے ناقدوں کا کہنا ہے کہ دیگر معاملات کی طرح اسلامو فوبیا کے معاملے میں بھی ان کے قول و فعل میں تضاد نظر آتا ہے۔ اسلامو فوبیا کے حوالے سے کہی گئی عمران خان کی باتوں پر ان کے ناقدکیوں تحفظات کا اظہار کرتے ہیں اس کا ذکر یہاں ضرور ہو گا مگر اس سے پہلے یہ بیان کیا جائے گا کہ اسلامو فوبیا کیاہے اور کیوں ہے۔

اسلامو فوبیا ایسی سوچ ہے جس کے تحت ایک خاص حلقہ، اسلام اور مسلمانوں کو مغربی تہذیب، ثقافت ، معاشرت اور حتی کہ انسانیت کے لیے بھی خطرہ تصور کرتا ہے۔بیسویں صدی کے اوائل سے انتہائی محدود پیمانے پر موجود اس سوچ کو اکیسویں صدی کے آغاز پر امریکہ اور یورپ میں مذہب اسلام کے نام پر کی گئی دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد بہت زیادہ وسعت ملی۔یہاں کیونکہ اسلاموفوبیا کے حوالے سے تفصیل بیان کرنے کی گنجائش موجود نہیں اسی لیے صرف ان رویوں کا ذکر کیا جائے گا جن کا اظہار اسلاموفوبیا کے حامل لوگ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان رویوں کے ذکر سے یہ سمجھنا آسان ہو گا کہ انہیں کیوں منفی تصور کیا جاتا ہے۔ اسلاموفوبیا پر مبنی رویوں کا زیادہ تر اظہار ابھی تک یورپ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، کینیڈا اور امریکہ میں دیکھنے میں آیا ہے۔ اسلامو فوبیا کے عملی مظاہر یہ ہیں کہ مذکورہ ملکوں میں مسلمانوں پر نہ صرف زبانی بلکہ جسمانی حملے بھی کیے جاتے ہیں۔ ان حملوں کی زد میں مذہبی عبادت گاہیں ہی نہیں بلکہ ذاتی رہائش گاہیں بھی آجاتی ہیں۔ حجاب اور ٹوپی پہننے والے مردو زن اور مذہبی شناخت کے حامل دیگر ملبوسات پہنے والے مسلمانوںکو جسمانی تشدد کے ساتھ تضحیک آمیز جملوں کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔گو کہ اسلامو فوبیا کی سوچ رکھنے والے لوگوں کے مذکورہ رویے یورپ اور امریکہ وغیرہ میں عمومی مظاہر نہیں ہیں مگر انتہائی محدود تعداد میں ہی سہی یہ رویے وہاں نہ صرف ظاہر ہوتے ہیں بلکہ ان میں بتدریج اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس طرح کے رویوں کا اظہار اسلاموفوبک سوچ رکھنے والے لوگ نہ صرف ذاتی
طور پر کرتے ہیں بلکہ کچھ تنظیمیں بھی اس طرح کے لوگوں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ تہذیب یافتہ سمجھے جانے والے جن ملکوں میں یہ رویے زیادہ ظاہر ہو رہے ہیں وہاں واضح طور پر ان کے پیچھے ریاستی ہاتھ تو نظر نہیں آرہا مگر کچھ ملکوں میں ایسی ریاستی پالیسیاں ضرور کارفرما دکھائی دے رہی ہیں جن کی وجہ سے اسلامو فوبیا کے حامل لوگوں کو منفی عمل کرنے کا حوصلہ اور جواز ملتا ہے۔ اس حوالے سے فرانس، بیلجیم، آسٹریا اور ہالینڈ کی حکومتوں کے کچھ اقدامات کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
جس یورپ کے کچھ ملکوں کے حکومتی اقدامات کو اسلامو فوبیا کی حوصلہ افزائی کی مثال بنا کر پیش کیا جاتاہے اسی یورپ میں80 کی دہائی کے دوران مسلمانوں اور اسلام کے لیے ایسے نرم گوشے پیدا کیے گئے جو موجودہ دور کے رویوں اور حکومتی اقدامات کےبالکل برعکس تھے۔اسلام اور مسلمانوں کے لیے یہ نرم گوشے کیوںپیدا کیے گئے اسے سمجھنے کے لیے یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ 80 کی دہائی میں افغانستان کے اندر جو جنگ لڑی گئی تھی اسے یورپ اور امریکہ نے افغانستان کو سوویت قبضے سے آزاد کرنے کے لیے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ اور بقا کی جنگ سمجھ کرشروع کیاتھا اور اس جنگ میں انہوں نے مسلمانوں اور اسلام کو چونکہ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا اس لیے اس ہتھیار کو کارگر بنائے رکھنے کے لیے انہوں نے
یورپ اور امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ اقدامات کیے جنہیں وہ آج واپس لینا چاہتے ہیں۔
مثال کے طور پر اس دور میں مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں کو ان کا انسانی حق تسلیم کرتے ہوئے انہیں نہ صرف من چاہے مقامات پرعبادت گاہیں تعمیر کرنے دی گئیں بلکہ ان عبادت گاہوں میں اپنی مرضی کے مذہبی پیشوا درآمد کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ اسی طرح مسلمان بچوں کو سکولوں میں حلال گوشت فراہم کرنے کے دبے لفظوں میں کیے جانے والے مطالبے کو کھلے عام منظور کر لیا گیاتھا۔ مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ انہیں کام کے اوقات کے دوران عبادت کرنے کی خصوصی رعایت دی جائے ، افغان جنگ کے پس منظر یہ مطالبہ بے چوں و چرا مان لیا گیا۔ آج کے دور میں چونکہ مسلمانوں کو لاڈلے بچے بنائے رکھنے سے یورپ اور امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں اس لیے وہاں اسلامو فوبیا کے احساس اور سوچ کو عوام کا جمہوری حق مان کر پنپنے دیا جارہا ہے۔
پہلے بھی بتایا جاچکا ہے کہ دہشت گردوں کی طرف سے دہشت گردی کی وارداتوں کو اپنا مذہبی فریضہ قرار دیئے جانے کی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں اسلامو فوبیا کی دبی ہوئی چنگاریوں کو بھڑکنے کا موقع ملا ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اسلاموفوبیا کی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں بسنے والے کئی ملین مسلمانوں اور وہاں کے آبائی باشندوں کے درمیان جو خلیج پیدا ہوئی اسے طالبان کے حامی ہونے کی شہرت رکھنے والے نام نہاد مسلمان لیڈروں نے کم کرنے کی بجائے زیادہ وسیع کیا ۔
اس خلیج کے وسیع ہونے کی وجہ سے وہاں مسلمانوں کے لیے مزید مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اسلاموفوبیا کے خلاف جو عملی مظاہرہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کیا وہ مسلمان ملکوںکا کوئی سربراہ حکومت نہ کر سکا۔ کسی مسلمان نے اگر اسلامو فوبیا کے خلاف کوئی حقیقی کام کیا ہے تو وہ لندن کا میئر صادق خان ہے ۔ جی ہاں یہ وہی صادق خان ہے جس نے لندن کے میئر کے الیکشن میں برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن کے اسی عہدے کے لیے حاصل کردہ ووٹوں کا ریکارڈ توڑا تھا۔ لندن کے میئر کے الیکشن میں لیبر پارٹی کے صادق خان کو صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے اس کے حریف امیدوار زیک گولڈسمتھ نے دہشت گرد قراردیتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں پر شدید حملے کیے تھے۔ یہ وہی زیک گولڈ سمتھ ہے جس کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے عمران خان خاص طور پر پاکستان سے لندن گئے تھے۔زیک گولڈ سمتھ کی اس حرکت پر اسے صرف صادق خان نے ہی نہیں بلکہ برطانوی عوام کی کثیر تعداد نے بھی اسلاموفوبیا کا اسیر قرار دیا تھا۔ بعد ازاں اسی صادق خان کی کوششوں سے برطانیہ کی سیاسی جماعتیں نسل پرستی اور اسلامو فوبیا کو باہم مترادف رویہ قرار دینے پر متفق ہوئیں۔ عمران خان ویسے تو اکثر اسلامو فوبیاپر تنقید کرتے رہتے ہیں مگر انہوں نے صادق خان کے مقابلے میں اسلاموفوبک زیک گولڈ سمتھ کی حمایت کرنے پر آج تک معذرت نہیں کی۔ عمران خان کی ایسی حرکتوں کی وجہ سے ہی ان پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button