Ahmad NaveedColumn

ورنہ شہباز شریف آجائے گا …. احمد نوید

احمد نوید

شہباز شریف عوامی شخصیت ہیں اسی لیے عوام میں رہنا اور گھلنا ملنا پسند کرتے ہیں ۔ شہباز شریف وزیراعظم بن چکے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ سڑک پر عوام کے درمیان میں جانے سے نہیں کترارہے ۔ دراصل شہباز شریف کی حقیقی طاقت ہی اُن کے کام اور عوام ہیں ۔ مخالفین اُن کی اس عادت کو شوبازی کہتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ شہباز شریف کی عوام میں بھاگ بھاگ کر جانے کی عادت سے جلتے بھی ہوں یا نفرت کرتے ہوں۔

پاکستانی سیاست اور پارلیمانی نظام میں صدر مملکت ، سینیٹ کے چیئرمین اور سینیٹرز کو نکال کر قریباً سبھی عہدے عوامی اور کامی ہیں۔ لہٰذاصوبائی اسمبلیوں کے اراکین ہوں یا قومی اسمبلی کے ، صوبائی وزراء ہوں یا وفاقی وزراء ، گورنرز ہوں یا وزیراعلیٰ سبھی عوام سے منسلک ہیں ۔ وزیراعظم پاکستان کا رتبہ ، مقام اور عہدہ ان سب منصبوں سے اوپر ہے ۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے عہدے پر فائز شخص عوام سے دور رہ کر اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے اور کچھ نہ کرنے پر وزیراعظم ہائوس کے عقبی دروازے سے چپ چاپ واپس لوٹ جائے ۔ وزیراعظم کا یہ منصب اور کرسی کانٹوں کی کرسی ہے ۔ جتنی بڑی کرسی ، اتنی بڑی آزمائش، اتنی بڑی ذمہ داری اور اتنی بڑی جوابدہی ۔

گزشتہ دنوں معروف صحافی طلعت حسین صاحب نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ شہباز شریف صاحب کو اب میئر کی طرح نہیں بلکہ وزیراعظم کی طرح سوچنا ہو گا ۔ میں طلعت حسین صاحب سے ففٹی پرسنٹ متفق ہوں ۔ میرا خیال ہے کہ یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ شہباز شریف وزیراعظم کی طرح سوچیں اور میئر کی طرح کام کریں کیونکہ پاکستانی قوم میں چند فیصد ایسے لوگ بھی ہیں جو ڈر کر کام کرتے ہیں ۔ چند فیصد ایسے درویش بھی ہیں کہ جن کے سروں پر کام پڑتا ہے تو وہ کام کرتے ہیں ۔ چند فیصد ایسے لوگ بھی ہیں جو رشوت لے کر کام کرتے ہیں اور غالباًپچاس فیصد سے زیادہ لوگ ایسے بھی ہیں جو شوقیہ فنکار ہیں اور وہ دفاتر میں فارغ بیٹھ کر اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرکے واپس گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اورمہینے کے اختتام پربھاری تنخواہ جیب میں ڈال لیتے ہیں ۔ لہٰذا اس مکس ہانڈی کو کوئی اناڑی باورچی نہیں پکا سکتا ۔ پاکستان کے اِن محکموں اور اداروں کو چلانے کے لیے یہ ڈر بہر حال موجود رہنا چاہیے کہ کام کرو بھائی ورنہ شہباز شریف آجائے گا ۔

انڈین معروف فلم شعلے میں لوگ گبر سنگھ سے جبکہ پاکستان کے سرکاری محکموں میں ویلے اور مشٹنڈے قسم کے سرکاری آفیسر شہباز شریف سے ڈرتے ہیں ۔ یہ ڈر اور خوف قائم بھی رہنا چاہیے ۔ غفلت اور کوتاہی پر سرکاری آفیسروں کو معطل کرنے کا جو ریکارڈ شہباز شریف نے بنایا ہے وہ ابھی تک کوئی نہیں توڑ سکا۔شہباز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پی کے ایل آئی جیسے ہسپتالوں میں جاکر پوچھتاہےکہ20میںسے14آپریشن تھیٹرز خراب یابند کیوں پڑے ہیں ۔شہباز شریف کو تکلیف یہ ہے کہ وہ جیلوں میں جا کر قیدیوں سے پوچھتا ہے کہ اُنہیں مناسب سہولیات دستیاب ہیں یا نہیں۔ شہباز شریف کو یہ بات بھی اذیت دیتی ہے کہ رمضان بازاروں میں اشیا ء کے نرخ زیادہ کیوں ہیں۔ شہباز شریف کو یہ بات بھی چبھتی ہے کہ نوجوانوں کو فراہم کی جانے والی معیاری تعلیم میں کسی صورت کمی نہ آنے پائے ۔

دوسری جانب شہباز شریف کے مخالفین کو یہی بات ناپسند ہے کہ شہباز شریف کو کونسی چیز چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ۔ شہباز شریف وزیراعظم ہائوس سے باہر ہی کیوں نکلتا ہے ۔ وہ غریبوں کے مفت علاج میں غفلت پر برہم کیوں ہوتا ہے ۔ وہ ہسپتالوں کے آلات خراب ہونے پر وضاحت کیوں طلب کرتا ہے ۔ شہباز شریف نے پاکستان کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلائی تھی۔ حالیہ لوڈ شیڈنگ پر بھی وہ شدید نالاں ہیں اور وہ کہہ چکے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے تک چین سے بیٹھوں گا نہ بیٹھنے دوں گا۔ بس یہی مسئلہ ہے شہباز شریف کا !محکموں کی غفلت اُسے منظور نہیں، اداروں کی کوتاہی اُسے قبول نہیں اور شعبوں کی لاپرواہی پر بریفنگ مانگتاہے،کوئی آئیں بائیں شائیں کرے تو مطمئن نہیں ہوتا۔ پاکستان کے شہریوں کی خدمات میں فرائض کی کوتاہی اور غفلت پر شہباز شریف کو اطمینان دلانا یا جھوٹی تسلیاں دینا ممکن نہیں ۔ کام ہوگا تو فوراً ہنگامی بنیادوں پر آج اور ابھی ۔ کل کا لفظ شہباز شریف کی ڈکشنری میں نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کو اُس کی کارکردگی پر ہرانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔

1988میں سیاست میں قدم رکھنے والا شہباز شریف پاکستان میں ایک محنتی ، ثابت قدم ، جفاکش ، پرجوش ، حوصلہ مند اور پھرتیلے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر مشہور ہے ۔ اُن کے کام کا انداز سب سے منفرد اور غالباً دلچسپ بھی ہے ۔ شہباز شریف صاحب کو اگر غریب پرور شخصیت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ شہباز شریف 1988سے 2013تک تین بار وزیراعلیٰ پنجاب اور اب پاکستان کے 23ویں وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ 2013کے الیکشن میں بھی پاکستان مسلم لیگ نون کی کامیابی کے بعد شہباز شریف کی خواہش تھی کہ وہ وزیراعظم بن کر پاکستان کے عوام کی خدمت کریں، لیکن تب بھی پنجاب میں ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے انہیں پنجاب ہی میں رکھا گیا۔

2018کے الیکشن کے نتیجے میںپاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو پنجاب جیسا بڑا صوبہ جہاں شہباز شریف نے گڈ گورننس کی اعلیٰ مثال قائم کی تھی۔ سردار عثمان بزدار کو تھالی میں رکھ کر دے دیا گیا۔ آج شہباز شریف وزیراعظم پاکستان بن کر ایک بار پھر اقتدار میں آئے ہیں ۔ یہ اقتدار مختصر سی مدت پر مشتمل ہے ۔ لیکن اس مختصر مدت کے اقتدار میں بھی شہباز شریف وزیراعظم ہائوس میں کم اور عوام کے درمیان زیادہ دکھائی دیں گے۔ شہباز شریف کو چاہیے کہ دورہ لاہور کے بعد پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اپنے طوفانی دوروں کا سلسلہ جاری رکھیں اور یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ شہباز شریف مختلف محکموں ، شعبوں ، اداروں ، ہسپتالوں ، جیلوں ، بازاروں کا دورہ بغیر اطلاع کے کریں تا کہ سب محکموں کی کارکردگی کی درست تصویر کا اندازہ ہو سکے۔ جب کسی ایک شعبے یا محکمے کے نااہل افسران پکڑے جائیں گے تو دوسرے شعبوں اور محکموں کے افسران خود سبق لیں گے اور یقینا ً یہ کہتے ہوئے بھی دکھائی دیں گے۔

کام کرو بھائی ورنہ شہباز شریف آجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button