Column
عمران ہیرو ہیں سیاستدان نہیں … ناصر نقوی

ناصر نقوی
ماضی کی سیاست میں جھانکیں تو ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ارد گرد پائے جانے والے نادا ن دوستوں کے مشورے پر قبل از وقت الیکشن کر اکے مخالفین کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی لیکن نتائج مثبت نہ نکلے۔ اس لیے کہ اپوزیشن جماعتوں نے ایک مخصوص نظریئے کا بہانہ بنا کر ایسا طوفان کھڑا کر دیا کہ نادان دوست بھٹو صاحب کو منجدھار میں چھوڑ کر نکل لیے ۔ سیاسی حالات اس وقت بھی کچھ ایسے ہی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اب معاملات کچھ زیادہ ہی گڑبڑ ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ انٹرنیشنل سازش کے تحت بھٹو کو نشان عبرت بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی اور پھر سفید ہاتھی نے سی آئی اے کی مدد سے ان کا عدالتی قتل کرا یا اور سہولت کار وطن عزیز کا ایک آمر بنا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ چھوٹے ملکوں کے خلاف طاقت ور ممالک ہمیشہ اپنے تسلط کی خواہش میں سازش کرتے ہیں ہمارے سیاسی میدان میں ان دنوں بھی ایک دھمکی آمیز خط کی باز گشت ہے جس نے پوری قومی سیاست اور ریاستی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا لیکن یہ بحث جاری ہے کہ دھمکی آمیز خط اصلی ہے کہ نقلی۔
اپو زیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ نون کا مطالبہ تھا کہ الیکشن ہی مملکت کے تمام مسائل کا حل ہے اس لیے قبل ازوقت الیکشن کرا دیئے جائیں کیوں کہ 2018 کے سلیکٹڈملک و ملت کے لیے خسارے کا سودا بنے ہوئے ہیں، اس موقف کی حمایت جماعت اسلامی نے بھی کی لیکن کسی نے بات نہیں سنی۔ آصف علی زرداری پارلیمانی روایت کے تحت پانچ سالہ مدت کے قائل ہیں ان کا خیال تھا کہ عدم اعتماد سے پارلیمنٹ کے ذریعے حکومت کی چھٹی کرائی جائے جبکہ مولانا فضل الرحمان کا مشورہ تھا کہ احتجاج میں استعفے دے دیئے جائیں کیونکہ حکمران فتح یاب ہو کر نہیں آئے بلکہ مسلط کیے گئے ہیں۔ ان متضاد آراء پر پیپلز پارٹی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ نہیں چل سکی اور پی ڈی ایم سے باہر آگئی لیکن مفاہمتی آصف زرداری نے اپنے رابطے قائم رکھے اور سب نے دیکھا کہ آخر کار متحدہ اپوزیشن زرداری صاحب کی دور اندیشی سے قائل ہو کر تحریک عدم اعتماد پر متفق ہو گئی تاہم
اپوزیشن نے اس فیصلے تک آتے آتے خاصا وقت ضائع کر دیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حواری اسی خوش فہمی میں تھے کہ اپوزیشن بھانت بھانت کی بولی بولے گی اور وہ انہیں مختلف یو ٹرن سے الجھائے رکھیں گے، لیکن بکرے کی ماں خواہ جب تک مرضی خیر منائے، ایک روز قربانی کا دن آہی جاتا ہے سو آگیا۔ آصف زرداری پی ڈی ایم سے باہر رہ کر بھی متحدہ اپوزیشن کو اپنے موقف پر قائل کرنے میں کامیاب ہو ئے قصہ مختصر تحریک عدم اعتماد ایوان کی زینت بن گئی پھر جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اچانک دھمکی آمیز خط کا دھماکہ جلسہ عام میں وزیر اعظم نے کیا اور سب کچھ بھسم ہو گیا۔ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا بھی اس خط میںذ کر ہے، قومی سلامتی کمیٹی میں اسے بہت دیر سے لایا گیا لیکن مقاصد پھر بھی پورے کر لیے گئے۔ متحدہ اپوزیشن غدار ٹھہری اور حکومت مملکت کی سلامتی کے بیانیہ پر کھڑی ہوئی۔ کپتان نے دو تین جلسے اور چار پانچ خصوصی اجلاس کیے یوں امریکی مداخلت کے نام پر قوم تقسیم
ہوگئی، امریکہ بہادر نے بہت وضاحتیں کیں لیکن حب الوطنی کے جذبے میں وضاحتیں خاک میں مل گئیں، ایسے میں روس نے بھی جلتی پر تیل چھڑکنے کے لیے دھمکی آمیز خط کو امریکی مداخلت قرار دیتے ہوئے اپنا کھیل کھیلا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قوم مہنگائی، بے روز گاری اور معاشی بدحالی کو بھول گئی اور قومی سلامتی کابیانیہ زور پکڑ لیا۔ ایوان کی منظور شدہ تحریک عدم اعتماد پر بحث اور ووٹنگ کی بجائے ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل 5کی تلوار چلا کر قتل کر دیا کیونکہ وزیر باتدبیر فواد چودھری نے پوائنٹ آف آرڈر پر اس کی نشاندہی کی تھی۔ عدم اعتماد کے قتل پر اپوزیشن ابھی نوحہ کناں بھی نہ ہو پائی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان نے اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کی نوید سنا دی، اس غیر متوقع فیصلے پر اپوزیشن کی حالت غیر ہو گئی لیکن عمران خان کے حکم پر یو تھیے ،اپنی ہی حکومت کے خاتمے پر جشن منانے لگے ۔
اپو زیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ نون کا مطالبہ تھا کہ الیکشن ہی مملکت کے تمام مسائل کا حل ہے اس لیے قبل ازوقت الیکشن کرا دیئے جائیں کیوں کہ 2018 کے سلیکٹڈملک و ملت کے لیے خسارے کا سودا بنے ہوئے ہیں، اس موقف کی حمایت جماعت اسلامی نے بھی کی لیکن کسی نے بات نہیں سنی۔ آصف علی زرداری پارلیمانی روایت کے تحت پانچ سالہ مدت کے قائل ہیں ان کا خیال تھا کہ عدم اعتماد سے پارلیمنٹ کے ذریعے حکومت کی چھٹی کرائی جائے جبکہ مولانا فضل الرحمان کا مشورہ تھا کہ احتجاج میں استعفے دے دیئے جائیں کیونکہ حکمران فتح یاب ہو کر نہیں آئے بلکہ مسلط کیے گئے ہیں۔ ان متضاد آراء پر پیپلز پارٹی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ نہیں چل سکی اور پی ڈی ایم سے باہر آگئی لیکن مفاہمتی آصف زرداری نے اپنے رابطے قائم رکھے اور سب نے دیکھا کہ آخر کار متحدہ اپوزیشن زرداری صاحب کی دور اندیشی سے قائل ہو کر تحریک عدم اعتماد پر متفق ہو گئی تاہم
اپوزیشن نے اس فیصلے تک آتے آتے خاصا وقت ضائع کر دیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حواری اسی خوش فہمی میں تھے کہ اپوزیشن بھانت بھانت کی بولی بولے گی اور وہ انہیں مختلف یو ٹرن سے الجھائے رکھیں گے، لیکن بکرے کی ماں خواہ جب تک مرضی خیر منائے، ایک روز قربانی کا دن آہی جاتا ہے سو آگیا۔ آصف زرداری پی ڈی ایم سے باہر رہ کر بھی متحدہ اپوزیشن کو اپنے موقف پر قائل کرنے میں کامیاب ہو ئے قصہ مختصر تحریک عدم اعتماد ایوان کی زینت بن گئی پھر جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اچانک دھمکی آمیز خط کا دھماکہ جلسہ عام میں وزیر اعظم نے کیا اور سب کچھ بھسم ہو گیا۔ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا بھی اس خط میںذ کر ہے، قومی سلامتی کمیٹی میں اسے بہت دیر سے لایا گیا لیکن مقاصد پھر بھی پورے کر لیے گئے۔ متحدہ اپوزیشن غدار ٹھہری اور حکومت مملکت کی سلامتی کے بیانیہ پر کھڑی ہوئی۔ کپتان نے دو تین جلسے اور چار پانچ خصوصی اجلاس کیے یوں امریکی مداخلت کے نام پر قوم تقسیم
ہوگئی، امریکہ بہادر نے بہت وضاحتیں کیں لیکن حب الوطنی کے جذبے میں وضاحتیں خاک میں مل گئیں، ایسے میں روس نے بھی جلتی پر تیل چھڑکنے کے لیے دھمکی آمیز خط کو امریکی مداخلت قرار دیتے ہوئے اپنا کھیل کھیلا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قوم مہنگائی، بے روز گاری اور معاشی بدحالی کو بھول گئی اور قومی سلامتی کابیانیہ زور پکڑ لیا۔ ایوان کی منظور شدہ تحریک عدم اعتماد پر بحث اور ووٹنگ کی بجائے ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل 5کی تلوار چلا کر قتل کر دیا کیونکہ وزیر باتدبیر فواد چودھری نے پوائنٹ آف آرڈر پر اس کی نشاندہی کی تھی۔ عدم اعتماد کے قتل پر اپوزیشن ابھی نوحہ کناں بھی نہ ہو پائی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان نے اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کی نوید سنا دی، اس غیر متوقع فیصلے پر اپوزیشن کی حالت غیر ہو گئی لیکن عمران خان کے حکم پر یو تھیے ،اپنی ہی حکومت کے خاتمے پر جشن منانے لگے ۔
اس بیانیے نے زور پکڑا کہ ٓازاد ریاست پاکستان میں انکل سام نے مداخلت کی جرأت کیسے کی ؟ یہ کھلم کھلا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے پھر بھی آئینی اور سیاسی بحران نے وفاق کے بعد پنجاب کا رخ کیا اور سیاسی شہادت گورنر پنجاب محمد سرور کا نصیب بنی۔ ممبران پنجاب اسمبلی سے دور رکھنے کی منصوبہ بندی ہو ئی پھر بھی اپوزیشن نے دربار گیٹ کا مورچہ سنبھال کر سپیکر پنجاب اسمبلی اور حکومتی نامزد وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔ پولیس کی بھاری نفری اور دفعہ 144 کا نفاذ بھی کار آمد نہ ہو سکا ۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے مکمل اتفاق سے فیصلہ دے کر حالات سدھانے کی کوشش کی انہوں نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر قومی اسمبلی اور عمران خان کی کابینہ بحال کر دی تاہم پابند کر دیا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے اور فیصلے کی روشنی میں مستقبل کی راہیں متعین کی جائیں لیکن تحریک انصاف کے کھلاڑی وزراء نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلامی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش قرار دے دیا بلکہ فیصل ووڈا کی جانب سے دھمکی بھی آگئی کہ اب انتظار کریں ، دیکھیں کپتان کیا کرتا ہے؟
تحریک انصاف کی حکومت آزمودہ نہیں تھی ، نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر تبدیلی سے وطن عزیز کو ریاست مدینہ کا نمونہ بنانے کی دعویدار تھی۔ چار سال میں بہت کچھ ہوا لیکن نہ نیا پاکستان بن سکا اور نہ ہی ریاست مدینہ۔ حکومت سب کچھ لٹا کے بھی مطمئن ہے ، خان اعظم کی باڈی لینگوئج بھی پر اعتماد اور آخری گنبد تک کھیلنے کے دعویدار بھی ہیں پھر بھی تقسیم در تقسیم ہو تے رہے اپنے پرائے ہو گئے۔ دوست دشمنوں سے جاملے لیکن عمران خان کا بیانیہ نہیں بدلا اور نہ ہی گھبرائے ۔ دراصل وہ پاکستان کے ہیرو ہیں سیاست دان نہیں۔ وقت اور حالات کے مطابق یو ٹرن لینے کی صلاحیتیں بھی رکھتے ہیں لیکن سیاست دان نہیں۔ اس لیے سیاسی قلابازیاں نہیں کھا سکے۔ مجھے ایک سنیئر تجزیہ کار اور خان اعظم کی حمایتی رباب زہرا نے سمجھایا کہ آپ اگر وزیر اعظم کی شخصیت کا غیر جانبدار انہ جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ وہ قومی ہیرو ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ، یو رپی تعلیم و تربیت اور غیر ملکی دوستوں کے جھرمٹ میں بھی وہ لباس ، چال ڈھال اور زبان و کلام میں منفرد ہیں۔ آپ اتفاق کریں یا اختلاف ، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انھوں نے جو لباس پہنا وہ ان سے پہلے کسی نے نہیں زیب تن کیا ، انہوں نے آج تک سیاست میں آنے کے بعد انگریزوں کا پینٹ کوٹ اتار پھینکا۔ بڑی سے بڑی ملکی اور بین الاقوامی تقریبات میں قومی لباس میں ہی رہے اور اسکا پراپیگنڈہ بھی کبھی نہیں کیا، اگر وہ سیاستدان ہو تے تو اسکا ڈھنڈورا پیٹتے، انہوں نے منتخب ارکان کی موجودگی میں مثبت نتائج کے لیے غیر ممالک سے دوست و احباب کا تعاون حاصل کیا، قرضے لیے ٹیکس میں اضافہ کیا ، قرضوں کی واپسی کے راستے بھی تلاش کیے اور بلاجھجک ہر کام کیا کیونکہ ان کے مدنظر صرف اور صرف پاکستان اور نوجوانوں کا مستقبل اور ترقی و خوشحالی ٹارگٹ تھا لیکن مہنگائی،بےروزگاری کا سونامی آگیا پھر بھی پروا نہیں کی۔ ہم برسوں سے امریکہ بہادر کے ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کچھ نیا کرنے کے جذ بے سے روس سے رابطہ کیا ،چین کی مدد سے افغانستان کی صورت حال کی بہتری کی کوشش کی لیکن دنیا سے الگ ہو کر افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم نہیںکیا البتہ وہاں کے مسائل کے لیے دنیا سے تعاون کی اپیل کی۔اگر عمران خان سیاستدان ہوتا تو وہ بھی ماضی کے سیاستدانوں کی طرح مصلحت پسندی کا مظاہرہ کرتا لیکن اسے اور اس کے سرپرستوں کو پتا ہے کہ وہ ہیرو ہے اور سیاست میں جو کچھ کرنا چاہتا ہے وہ نہ بھی کر سکے پھر بھی پاکستانی تاریخ میں ہیر و ہی رہے گا۔ سیاست دان ہو تا تو منحرف ارکان کو لولی پاپ دیکر ساتھ جوڑ ے رکھتا ، اس نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ مشکل ترین حالات کا مقابلہ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نہ گھبراتا ہے اور نہ ہی گھبرانے کا مشورہ دیتا ہے۔ کچھ کر گزرنے کے لیے ایسی ہی شخصیت درکار ہو تی ہے لیکن ہم تو روایتی سیاست میں ایسے الجھے ہو ئے ہیں ہمارا دماغ کچھ نیا سوچنے کو تیار نہیں ، اندازہ کریں کہ امریکہ سے نہیں ڈرا ، بلیک میل نہیں ہوا پھر بھی آپ اس کی بہادری اور دلیری کو نہیں مانتے؟
میں نے مسکرا کر جواب دیا، لیکن پرویز الٰہی سے بلیک میل ہو گیا؟
بولیں،نہیں۔سیاست، جمہوریت اور ملک بچانے کے لیے ایک یو ٹرن لیا ۔ آپ لوگ سیاست کو ایمان سمجھتے ہیں لیکن وہ صادق اور امین ہے اس کی مارکیٹنگ بہترین ہے اس نے اپوزیشن کو نان ایشوز میں الجھائے رکھا حالانکہ وہ سیاستدان نہیں ہیرو ہے قومی ہیرو۔
بولیں،نہیں۔سیاست، جمہوریت اور ملک بچانے کے لیے ایک یو ٹرن لیا ۔ آپ لوگ سیاست کو ایمان سمجھتے ہیں لیکن وہ صادق اور امین ہے اس کی مارکیٹنگ بہترین ہے اس نے اپوزیشن کو نان ایشوز میں الجھائے رکھا حالانکہ وہ سیاستدان نہیں ہیرو ہے قومی ہیرو۔