Column

احتجاج اور انتشار کا عفریت ….. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

پاکستان کی سیاست میں احتجاجوں، دھرنوں، مظاہروں اور لانگ مارچوں کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ۔ لانگ مارچ اور دھرنوں کے ذریعے سیاسی اور مذہبی جماعتیں حکومتوں اور عالمی استعمارکے خلاف سراپا احتجاج رہی ہیں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ کئی گروہ اور محاذ بھی احتجاج کے اس عمل میں حصہ بقدر جثہ ڈالتے رہے ہیں۔ مختلف ادوار میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد بھی معرضِ وجود میں آکر حکومتوں کو گرانے کے لیے کوششیں کرتے رہے اگرچہ بعض کو کامیابی ملی جبکہ بعض اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام بھی رہے۔ ان احتجاجوں، دھرنوں، مظاہروں، لانگ مارچوں اور سیاسی و مذہبی اتحادوں کے ادوار میں سرفہرست سابق صدر ایوب خان کا دور آتا ہے۔ جب مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی چیخیں نکل گئیں ۔ محمد ایوب خان نے 1958 میں سویلین حکومت ہٹا کر پاکستان میں مارشل لا لگایا تھا، عہد ایوب کے زوال کا آغاز ان کی کابینہ کے وزیر تجارت عبدالغفور کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ،جب ملک میں خورو نوش کی چیزوں کا بحران پیدا ہوا اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ بلبلا اٹھے اور اِس کا مکمل فائدہ ذوالفقار بھٹو نے اٹھایا۔ ملک کا معاشی بحران اور معاہدہ تاشقند پھر پاکستان کا دولخت ہو جانا جیسے واقعات کو لے کر ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف ملک گیر تحریک کا آغاز کیا، جس کی ابتدا 21 ستمبر 1968 کو سندھ کے شہر حیدرآباد سے ہوئی۔ انہوں نے ایوب خان پر اقربا پروری، خیانت اور بددیانتی کے بعد بزدلی کے الزامات بھی عائد کیے۔ چینی اور دیگر اشیائے صرف کے بحران کے علاوہ اس تحریک کو دوسری طاقت طلباءکی بے چینی سے ملی۔ 7 نومبر 1968کو راولپنڈی میں عبدالحمید نامی نوجوان طالب علم پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوا تو تحریک کے لیے مزید سازگار ماحول پیدا ہو گیا۔ بھٹو معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مقتول نوجوان کا جنازہ لے کر خود اس کے آبائی گاﺅں پنڈی گھیب پہنچ گئے۔ یہاں تک کہ ایوب خان مستعفی ہو گئے۔پاکستان میں تحریک بحالی جمہوریت یعنی ایم آر ڈی کی تحریک نے بھی 80 کی دہائی میں سیاسی احتجاج کی روایت قائم کی جو اس وقت کے فوجی حکمران جنرل محمد ضیاءالحق کے خلاف تھا۔ ایم آر ڈی کا وجود 1981 ءمیں عمل میں آیااور اس تحریک میں پاکستان پیپلز پارٹی ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ، تحریک استقلال، پاکستان مسلم لیگ (خواجہ خیر الدین) اور ملک قاسم گروپ، پاکستان نیشنل پارٹی ، عوامی تحریک اور نیپ پختونخوا شامل تھیں۔ ایم آر ڈی کا مطالبہ تھا کہ مارشل لاءفوری طور پر ختم کر کے آزادانہ اور شفاف انتخابات منعقد کروائے جائیں۔ تحریک کا آغاز بڑے ہی جوش و خروش سے ہوا اور ملک بھر میں جنرل ضیاءکے خلاف مظاہرے ہونے لگے، لیکن اس موقع پر پی آئی اے کے ایک طیارے کو اغوا کر لیا گیا، جس کی ذمہ داری ’الذوالفقار‘ نامی تنظیم نے قبول کی، جس کے روح رواں ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے میر مرتضیٰ اور شاہ نواز بھٹو تھے۔ طیارے کے اس اغوا نے ایم آر ڈی تحریک کی کمر توڑ دی اور یہ تحریک آہستہ آہستہ معدوم ہو گئی۔ اسی تحریک نے 1983 ءمیں دوبارہ جنم لیا، ضیاءالحق کے خلاف پھر مظاہرے ہوئے مگر یہ تحریک اپنے اس مقصد کو حاصل نہ کر سکی جس کے لیے اس کی تشکیل ہوئی تھی۔

پاکستان میں پہلا دھرنا 5 جولائی 1980 ءکو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے صدر ضیاءالحق کے عشر و زکوٰة آرڈیننس کے خلاف دیا۔ حکومت نے دھرنے والوں کا مطالبہ تسلیم کیا۔ 90 کی دہائی میں دھرنے کی جگہ لانگ مارچ نے لے لی۔ 1992 ءمیں بےنظیر بھٹو نے ٹرین مارچ کیا جس کے بعد عوامی احتجاج پر صدر غلام اسحق نے نواز شریف حکومت کو برطرف کر دیا۔ بینظیر نے نواز حکومت پر جو دباﺅ ڈالا تھا اس کا جواب انہیں 1996 ءمیں ملا جب قاضی حسین احمد کی قیادت میں جماعت اسلامی نے ملین مارچ کیا۔ شرکاءنے 3 دن تک آب پارہ پر دھرنا دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اسلام آباد میں لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ دھرنے کے 9 روز بعد 5 نومبر کو پیپلز پارٹی کے ہی صدر فاروق لغاری نے بینظیر حکومت کو فارغ کر دیا۔ اس کے بعد 90 ءکی دہائی کے اختتام پر جنرل مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو قریباً 8 برس تک کوئی دھرنا یا لانگ مارچ نہیں ہوا۔ 1986 میں کراچی اور حیدرآباد کی سطح پر ایک اور لسانی سیاسی جماعت جس کا ابتدائی نام مہاجر قومی موومنٹ بعد ازاں متحدہ قومی موومنٹ ہوا ، کا قیام عمل میں آیا یہ جماعت طلباءموومنٹ یعنی آل پاکستان مہاجر قومی موومنٹ سے وجود میں آئی، ان کا منشور تو متوسط طبقے کو اس کا حق دلوانا تھا مگر ان کی احتجاجی سیاست نے شہر کا سکون برباد کیا، ان کا احتجاج محض نعرے بازی نہیں بلکہ خونی احتجاج پر مبنی ہوا کرتا تھا۔ آج بھی کراچی والے اس وقت کو یاد کر کے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں، اس سیاسی جماعت نے لاش روڈ پر رکھ کر احتجاج کا سلسلہ متعارف کروایا، 2010 میں اپنے ایم پی اے رضا حیدر کی ٹارگٹ کلنگ پر احتجاج ان کی لاش سڑک پر رکھ کر کیا گیا جس میں 50 سے زائد معصوم شہریوں کی زندگی کے چراغ بجھے، اس قسم کے خونی احتجاجوں سے کراچی کا ماضی بھرا ہوا ہے۔ قریباً 35 سال تک شہر قائد قتل و غارتگری سے لرزتا رہا۔ بالآخر 2016 کی 22 اگست کو ان کے مراکز پر ایسا قفل پڑا کہ کراچی کی رونقیں بحال ہو گئیں۔

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا ”وردی اتارو“ دھرنا ہر جمعة المبارک کو منعقد ہوا کرتا تھا، اسی دور میں کراچی میں سانحہ بارہ مئی بھی ہوا۔ دراصل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کی معطلی اسی سانحے کا سبب بنی اس معطلی پر جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلا کا احتجاج زور پکڑتا گیا، جس نے تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ جس میں وکلا کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی شامل ہو گئیں۔ 12 مئی کو افتخار چودھری نے کراچی میں وکلا برادری سے خطاب کرنا تھا جو نہ ہوسکا اس روز شہر کی فضا میں ایک مرتبہ پھر بارود اور خون کی بو شامل ہو گئی تھی۔ 3نومبر 2007 ءکی ایمرجنسی کے نتیجے میں ملک بھر کے وکلا اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے ساتھ نواز شریف، قاضی حسین احمد اور عمران خان مل گئے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا لانگ مارچ تھا جو عدلیہ کی بحالی کے لیے تھا۔ 2009 ءمیں پی پی حکومت کے خلاف پھر سیاسی جماعتوں نے لانگ مارچ کیا۔ ان میں نون لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پیش پیش تھیں۔ یہ لانگ مارچ لاہور سے شروع ہوا اور ابھی گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ مارچ والوں کے مطالبات مان لئے گئے اور ججوں کی بحالی کا اعلان کر دیا گیا۔

اس کے بعد پیپلز پارٹی ہی کی حکومت میں طاہر القادری نے لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ 2013 ءمیں دینے جانے والے دھرنے کو مذاکرات کے نتیجے میں ختم کر دیا گیا۔ پھر عمران خان نے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف لاہور سے مارچ کیا اور اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ یہ دھرنا شاید اور زیادہ دن تک چلتا کہ ملک میں دہشت گردی کی بڑی واردات ہو گئی۔ سانحہ اے پی ایس کے نتیجے میں عمران خان کو دھرنا ختم کرنا پڑا۔ پھر 2017 ءمیں تحریک لبیک پاکستان نے فیض آباد میں دھرنا دے دیا جس کے نتیجے میں راولپنڈی اسلام آباد کا پورے ملک سے رابطہ کٹ گیا۔اس کے بعد الیکشن 2018 میں تحریک انصاف جیت گئی۔ عمران خان کی حکومت آئی تو کچھ دھاندلی کے الزامات لگے اور مولانا فضل الرحمان، پی پی اور نون لیگ نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کر دیا لیکن ان کا ساتھ نہ پیپلز پارٹی نے دیا اور نہ ہی مسلم لیگ نون ان کا ساتھ دے سکی، فضل الرحمن دو ہفتوں تک اپنی جماعت کو لے کر اسلام آباد کی سڑکوں پر بیٹھے رہے مگر عمران خان سے استعفیٰ نہ لے سکے۔
نومبر 2020 میں فرانس میں پیغمبر اسلام ﷺ سے منسوب گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں احتجاج کی کال دی، جسے روکنے کے لیے پولیس نے اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں پر کنٹینر کھڑے کر دیے، اس دوران جھڑپوں میں پولیس اہل کار اور ٹی ایل پی کے کارکن زخمی بھی ہوئے۔ ٹی ایل پی کا مطالبہ تھا کہ حکومت فوری طور پر فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرے اور فرانس کے ساتھ تجارتی اور سفارتی روابط بھی ختم کیے جائیں۔ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی اور فرانس سے تعلقات منقطع نہ کرنے پر تحریک لبیک نے ایک بار پھر 20 اپریل 2021 کو فیض آباد میں دھرنے کی کال دی۔ فسادات اور پولیس کے جوانوں کی شہادت کے باعث حکومت نے ٹی ایل پی کو کالعدم جماعت قرار دے دیا، اس دوران تحریک لبیک کے امیر سعد رضوی کی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔ سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد ملک میں پھر پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کے دوران کم از کم چار پولیس اہلکار شہید جبکہ سینکڑوں اہلکار اور کارکن زخمی ہوئے تھے۔ 31 اکتوبر 2021 کو وفاقی حکومت اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے درمیان معاملات طے پا گئے۔ گیارہ نومبر 2021 کو تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی کا نام فورتھ شیڈول کی فہرست سے نکال کر انہیں رہا کر دیا گیا۔ سال 2021 میں مولانا فضل الرحمان کی سرپرستی میں پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کا اجرا ہوا، اس اتحاد کا مقصد وزیراعظم عمران خان کو گھر بھیجنا تھا مگر حزب اختلاف کا یہ گیارہ جماعتی اتحاد اس وقت توڑ پھوڑ کی نذر ہو گیا۔ جب آصف علی زرداری نے مریم نواز کو کہا کہ وہ اپنے برطانیہ مقیم والد کو پاکستان بلوائیں۔ ملکی تاریخ کے ان احتجاج اور توڑ پھوڑ سے آلودہ واقعات کے ذکر کا مقصد یہ بتانا ہے کہ وطن عزیز کی ترقی کے لیے کام کرنے کی بجائے تشدد اور نفرت کے ذریعے قوم کی منزل دور سے دورتر کی جارہی ہے۔ اسی طرح آج کل پھر سیاسی انارکی کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ اپوزیشن کی جانب سے ایک سال کی خاموشی کے بعد گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی ہے۔ اس بار ہو یہ رہا ہے کہ اپوزیشن کی بجائے حکومت احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک مرتبہ پھر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے لاکھوں افراد کے اجتماع بلائے جانے کی ایک ہی تاریخ کا اعلان کر کے حکومت اور اپوزیشن نے عوام کے حقوق اور امن کی صورتحال کو دائو پر لگا رکھا ہے۔ دونوں اطراف سے انتقام اور عداوت کی آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں حالانکہ عدم اعتماد جیسی آئینی اور پارلیمانی تحریک کو محض پارلیمانی روایات اور آئینی تقاضوں کو پورا کر کے نمٹا کر فیصلہ حاصل کیا جاسکتا ہے، نہ کہ احتجاج اور انتشار جیسی بلائوں کو دعوت دے کر۔ اللہ تعالیٰ ملک وقوم کا حامی و ناصر ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button