Column

رسول اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ اور ہمارے رویے … امتیاز احمد شاد

 امتیاز احمد شاد

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آفاقی اور عالمی شخصیت ہیں، اس دنیا میں کون ہے جو آپ ﷺ کے نام مبارک اور پیغام سے واقف نہیں۔ آپ ﷺکی سیرت، سنت اور آپ ﷺ کا نظام ہر خطے اور ہر دور کے لوگوں کے لیے قابل اتباع ہی نہیں بلکہ ذریعہ اصلاح وفلاح بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ رب العزت نے رحمت اللعالمین بنایا۔ تمام شعبہ ہائے زندگی سے منسلک لوگ آپ ﷺکی سیرت مبارکہ سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔آپ ﷺ کی آمد سے پہلے دنیا گمراہی اوراندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، مذہب تو تھا مگر تہذیب نام کی کوئی چیز نہ تھی ، انسان تو تھے مگر انسانیت سے عاری، رشتے ناطے تو تھے مگر رشتہ داری سے نا بلد، قانون تو تھا مگر انصاف سے محروم، دولت تو تھی مگر صرف امراءکے پاس، غرضیکہ پورا معاشرہ تباہی کے دہانے پر تھا۔ آپ ﷺ کفرو شرک کے اندھیروں میں ڈوبتی دنیا میں روشن چراغ کی مانند تشریف لائے ، انسانی معاشرے کی تشکیل نو فرمائی، مشعل ہدایت تھام کر مسلسل تئیس سال تک تمام رکاوٹوں کے باوجود اللہ کے دین کی اشاعت میں گزرے ، یہاں تک کہ سارا معاشرہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ بن گیا جو رہتی دنیا کے لیے ایک مکمل اور معیاری نمونہ ہے۔

یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ نے عرب معاشرے کی وضع اور لوگوں کی سوچ اور عمل کو یکسر بدل دیا۔ رسول اللہ ﷺ کے ظہور سے پہلے ظلم کا دور دورہ تھا غریبوں، یتیموں، مسکینوں، محتاجوں اور بیوا ¶ں کو کسی قسم کے حقوق حاصل نہ تھے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف ہر ایک کے حقوق مقرر کیے بلکہ ان کی کفالت کو باعث اجرو ثواب بھی قرار دیا۔ خاندان کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے، اسی کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل پاتا ہے لہٰذا آپ ﷺنے اس کی ضرورت و اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اصلاح فرمائی ۔والدین، زوجین، اولاد اور تمام رشتہ داروں کے حقوق و فرائض متعین فرمائے تاکہ انتشار سے بچا جا سکے۔ بلاشبہ ایک اچھے رہنما کی یہ خوبی بھی ہوتی ہے کہ وہ باکردار ہو اور اس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو آپ ﷺ کے کردار کی تو ابو جہل بھی گواہی دیتا تھا۔ ایک اچھا رہنما وہ ہوتا ہے جو عوام کے دلوں میں رہتا ہے اور ہر شخص کے لیے اس تک رسائی آسان ہوتی ہے۔عوام کے اندر گھل مل جاتا ہے ، ان کے مسائل کو نہ صرف سُنتااور سمجھتا ہے بلکہ ان کو حل کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں بھی رہتا ہے۔آپ ﷺ میں یہ تمام اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے۔آپﷺ اپنے اصحاب کی ہمہ وقت اصلاح کرتے رہتے تھے اور آپ کا لب و لہجہ اتنا دلنشیں، میٹھا اورنرم ہوتاکہ انہیں پتہ بھی نہ چلتا اور اصلاح بھی ہو جاتی۔ کسی بھی لیڈر کی یہ ایک بہترین خوبی ہے۔ایک بہترین رہنما بحث مباحثے اور لڑائی جھگڑے سے بچتا ہے آپ ﷺفضول اور لغو باتوں سے خود بھی بچتے اور دوسروں کو بھی اجتناب کی تلقین فرماتے ۔

جنگی حکمت عملی کے تناظر میں آپ ﷺ کودیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح حالات و واقعات کے مطابق آپ ﷺ اپنی حکمت عملی تبدیل فرماتے ، اس سلسلے میں صلاح حدیبیہ کی مثال قابل ذکر ہے۔ آپ ﷺ ہمیشہ اہم امور پر صحابہ سے مشاورت فرماتے ۔جیسا کہ حضرت سلمان فارسی ؓ نے غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کھودنے کی تجویز پیش کی، تو اس پر عمل کیا۔ آج کل کسی بھی ملک کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کو خارجہ پالیسی کا سب سے اہم اور لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔آپ ﷺنے آج سے چودہ سو سال پہلے مختلف ممالک کے بادشاہوں کو خطوط بھیجے اور وہاں سفیر بھی مقرر کیے۔ آپ ﷺ نے پُر امن معاشرے کے قیام کے لیے مدینہ میں تشریف لاتے ہی یہودیوں کے ساتھ معاہدے کیے۔آپ ﷺنے مدینہ میں ایک فلاحی ریاست کا تصور دیا اور اسکا قیام عمل میں لاتے ہوئے مالداروں سے زکوة و عشر وصول کرکے مستحقین تک پہنچانے کا منصفانہ نظام قائم فرمایا ۔ آج کے حکمران جو عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیںانہیں معلوم ہو نا چاہیے کہ نبی کریم ﷺکے گھر میں کئی کئی روز تک چولہا نہیں جلتا تھا کئی مرتبہ بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے۔ آپﷺ چاہتے تو قیمتی لباس پہن سکتے اور انوع و اقسام کے کھانے کھا سکتے تھے۔ لیکن آپ خود کو ملنے والے تحائف بھی ضرورت مندوں میں بانٹ دیتے۔ آپ ﷺنے عیش و عشرت کی بجائے نہایت سادہ زندگی گزار کر حکمرانوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر تمام جہانوں کا بادشاہ اتنی عاجزی اختیار کر سکتا ہے تو وہ کیوں نہیں؟۔ آپ ﷺ نے جرائم کے لیے سزائیں مخصوص فرمادیں تاکہ ان کا سد باب کیا جا سکے۔

آپ ﷺمعمولی غلطیوں اور کوتاہیوں کو درگزر فرماتے اور جب ذاتی انتقام کی بات آتی تو یکسرمعاف فرما دیتے، جیسا فتح مکہ کے موقع پر ہوا وہ تمام لوگ جنھوں نے آپ ﷺکے ساتھ ظلم کیے ، آپ ﷺکے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے لیکن باوجود طاقت کے انتقام لینے کے بجائے آپ ﷺ نے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا۔حتی کہ ابو سفیان کی بیوی ہندہ جس نے غزوہ احد کے موقع پر آپ ﷺکے پیارے چچا حضرت حمزہ ؓ کا کلیجہ چبا لیا تھا، اسے بھی معاف فرما دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی عدالت میں یہودی بھی انصاف لینے آتے تھے۔ غرضیکہ آپ نے ایک پُرامن اور ترقی پسند سماج کا تصور دیا اور پھر انہی اصولوں پر معاشرہ قائم کیا اور پھر اسے پورے عرب میں وسعت دے کر بتایا کہ یہی نظام پوری دنیا کو یکسر تبدیل کر سکتا ہے۔بدقسمتی سے آج کا مسلم معاشرہ ان تمام اصولوںسے منحرف ہو چکا،جس کے نتیجہ میں تمام تر وسائل کے باجود امت مسلمہ اقوام عالم کے سامنے بے بس اور عاجز دکھائی دیتی ہے۔پتوکی میں پاپڑ بیچنے والے کو جس بے رحمی سے شادی ہال میں داخل ہونے پر نہ صرف قتل کیا گیا بلکہ اس کی لاش فرش پر پڑی رہی اور لوگ کھانا کھاتے رہے ،یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا سماج کس حد تک درندگی اختیار کر چکا ہے۔غور کریں کہ اتنے جم غفیر میں کوئی ایک بھی نہ تھا جو اس وحشت کو روکتا۔من حیث القوم یہی ہمارا مجموعی کردار ہے۔افسوس کہ ہم درندوں سے بھی بدتر ہو چکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button