تازہ ترینحالات حاضرہخبریںدنیاروس یوکرین تنازع

پیوٹن نے یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں کو تسلیم کرلیا، مغربی ممالک برہم

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین میں ماسکو کے حمایت یافتہ دو علیحدگی پسند علاقوں کو آزاد تسلیم کر لیا، اس اقدام سے کیف کی مغربی حمایت یافتہ حکومت کے ساتھ ممکنہ طور پر تباہ کن جنگ شروع ہو سکتی ہے۔

 سرکاری ٹیلی ویژن پر 65 منٹ کے خطاب میں ولادیمیر پیوٹن نے سابق سویت پڑوسی کو ناکام ریاست اور مغرب کی ’کٹھ پتلی‘ قرار دیا اور بار بار یہ تجویز دی کہ یہ بنیادی طور پر روس کا حصہ ہے۔

انہوں نے کیف حکام پر روسی زبان بولنے والوں کو ستانے اور یوکرین کے مشرق میں ڈونیٹسک اور لوگانسک کے دو علیحدگی پسند علاقوں میں ’فوجی حملے‘ کی تیاری کا الزام لگایا۔

ولادیمیر پیوٹن کا کہنا تھا کہ ’وہ لوگ جنہوں نے کیف پر قبضہ کیا ہوا ہے ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد اپنے فوجی آپریشن بند کریں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بصورت دیگر ممکنہ خونریزی کی تمام تر ذمہ دارہاں یوکرین میں برسرِ اقتدار حکومت کے ضمیر پر ہوں گی‘۔

پیوٹن نے کہا کہ ‘یہ ضروری ہے کہ طویل عرصے سے مؤخر فیصلہ لیتے ہوئے جلد دونوں علاقوں کو تسلیم کیا جائے‘۔

خطاب کے فوری بعد سرکاری ٹیلی ویژن پر ولا دیمیر پیوٹن کو کریملن میں باغیوں کی مشترکہ امداد کے لیے باغیوں کے رہنماؤں کے ساتھ معاہدہ پر دستخط کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

ماسکو کی جانب سے باغیوں کے زیر اقتدار علاقے تسلیم کرنے سے علیحدگی پسند تصادم میں امن قائم کرنے کا منصوبہ ختم ہوگیا ہے، امن منصوبہ ماسکو کے یوکرین سے کریمیا کے الحاق کے بعد 2014 سے شروع ہوا تھا جس میں 14 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

پابندیوں پر یورپی یونین کا ردِ عمل

روس اب علیحدگی پسند حکام کی درخواست پر فوجیوں کو منتقل کر سکتا ہے، یا وہ ہزاروں باشندے جنہیں روسی پاسپورٹ فراہم کیے گیے ہیں ان کے دفاع کے لیے مداخلت کر جواز پیش کر سکتا ہے۔

روسی مداخلت کے بعد یوکرین کوعلاقے کے ایک بڑے حصے کے نقصان کو قبول کرنا پڑے گا، یا اپنے بہت زیادہ طاقتور پڑوسی کے خلاف مسلح تصادم کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس اقدام پر مغرب کی جانب سے فوری مذمت کی گئی ہے، وزیر اعظم بورس جانسن نے اسے ’یوکرین کی خودمختاری اور سالمیت کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔

یورپی یونین کے سربراہ ارسلا وان ڈیر لیین اور چارلس مشیل نے عہد کیا کہ بلاک ’اس غیر قانونی عمل میں ملوث افراد کے خلاف پابندیوں کے ساتھ رد عمل ظاہر کرے گا‘۔

نیٹو کے سربراہ جینز اسٹولٹن برگ نے بھی پیوٹن کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ماسکو کی طرف سے کیے گئے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button