Column

کشمیری و بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ … قاضی کاشف نیاز

قاضی کاشف نیاز …

سال میں ایک دن 5فروری کو یہ کہہ کر منا لینا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہیں۔لیکن کس بات پر اظہار یک جہتی کرتے ہیں،کشمیر پر ہمارا بیانیہ ہے کیا،ہماری منزل اور ہدف کیا ہے،یہ کسی پاکستانی کو معلوم نہیں۔ہم پاکستانیوں نے تو اِسے بس ایک تہوار اور چھٹی و تفریح کا ایک اور ذریعہ سمجھ لیا ہے اور بس۔باقی ہماری بلا سے۔دو قومی نظریہ اور مسئلہ کشمیر پر ہمارا بیانیہ مسلسل کمزورہو رہا ہے۔دوسری طرف بھارت کا بیانیہ ہے جو ہر آنے والے دن پہلے سے زیادہ مضبوط بلکہ متشدد ہوا جاتا ہے۔پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کی ہر پارٹی کا مسئلہ کشمیر اور دو قومی نظریہ پر اپنا اپنا بیانیہ ہے۔ہمارا کسی بات پر اتفاق نہیں۔لیکن بھارت کی ہر حکومت اور اپوزیشن کی تمام پارٹیاں پاکستان اور کشمیر پر ایک ہی موقف اور بیانیہ رکھتی ہیں بلکہ اِن کے درمیان یہ مقابلہ ہے کہ کشمیری و بھارتی مسلمانوں کو اور پاکستان کو زیادہ سے زیادہ کون کرش کرنے کا کام کرتا ہے۔ اِن کا اصل ہدف یہی ہے کہ یا تو مسلمان کو مسلمان نہ رہنے دیا جائے یا پھر مختلف الزامات اور فسادات کی آڑ میں مسلمانوں کی روزافزوں بڑھتی ھوئی آبادی کی نسل کشی کر دی جائے۔چنانچہ کشمیر اور بھارت میں بیک وقت سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ایسے ہی قوانین اور اقدامات لائے جا رہے ہیں کہ جس سے یہاں کی مسلم آبادی میں واضح طور پر ڈیمو گرافک تبدیلی آ جائے، لیکن اسلام کا یہ کیسا زبردست اعجاز اور اللہ کی شان ہے کہ ہندو ¿وں کی تمام تر ثقافتی یلغار، اِن کے تمام تر فسطائی اور نازیائی ہتھکنڈوں، دباو ¿ ، پابندیوں،قتل وغارت اور زبردست خوف ودہشت کے ماحول کے باوجود اسلام کی قبولیت کی شرح ہے کہ کسی طرح بھی کم ہونے کی بجائے پوری دنیا کی طرح ہندوستان میں بھی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

اسلام کی اِسی مقبولیت سے گھبرا کر اب ہندو لالوں نے مسلمانوں کے خلاف آتنک وادی، پاکستانی ایجنٹ،دہشت گردی اور لو جہاد کے بھونڈے الزامات میں ناکامی کے بعد مسلمانوں کا نیا اور اصل جرم ایجاد کیا ہے۔اب اِن کا اصل بغض اُن کے مونہوں سے کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ مسلمان اپنی آبادی زیادہ کیوں بڑھا رہے ہیں،یعنی مسلمانوں کا صفایا کرنے کے لیے اُن کے بھونڈے الزامات اور بیانوں کی نوبت اب اِس محاورے تک عملًا پہنچ گئی ہے کہ آٹا گوندھتے ہوئے یہ ہلتی کیوں ہے۔ اب وہ کسی خفیہ منصوبہ کے تحت نہیں بلکہ سرعام اور کسی آڑ کے تکلف کے بغیر اپنے بھیانک اور مذموم عزائم کا اظہار کر رہے ہیں۔ہندوو ¿ں کے رہنما اب عوامی جلسوں میں کھڑے ہو کر کھلم کھلا مسلمانوں کو قتل عام کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔وہ اب کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کو اُن کا اصل جرم بتا کر مختلف مسلم کش اقدامات کے ذریعے اُن کا اصل علاج کرنا چاہتے ہیں۔جی ہاں یہ کوئی سیکرٹ خبر نہیں۔اِس خبر کو پڑھتے ہی دل و دماغ بری طرح خفگان اور خلجان میں مبتلا ہیں۔کیا بھارتی و کشمیری مسلمانوں کا بھی وہی انجام کیا جانے لگا ہے جس انجام اور حشر سے برما کے مسلمانوں کو دوچار کیا گیا؟ کہنے کو بہت سے بھارتی اور پاکستانی مسلمان رہنما کہتے ہیں کہ بیس کروڑ بھارتی مسلمانوں کو بھارت سے ختم کرنا اتنا آسان کام نہیں۔کیا اتنی بات سوچ کر اور کہہ کر ہم سکون اور اطمینان کی نیند سو سکتے ہیں؟ کیا اِن حالات میں ہم چین کی بانسری بجا سکتے ہیں؟ حاشا وکلا۔ہر گز نہیں۔حیرانی ہے کہ ایک دشمن ہمیں مارنے کا کوئی خفیہ منصوبہ نہیں بنا رہا بلکہ سرِعام کھل کر بتا رہا ہے کہ اب ہم تمہارا اِس طرح قتل عام کریں گے لیکن ہم اِسے کوئی افسانوی بات سمجھ کر جھٹک رہے اور نظر انداز کر رہے ہیں جیسے اِس میں کچھ حقیقت ہی نہ ہو۔شایدہم بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے سمجھتے ہیں کہ اِس طرح خطرہ ٹل جائے گا یا یہ محض ایک خواب اور ہمارا وہم ہو گا اور اِس سے زیادہ نہیں۔ بہت سے بھارتی اور پاکستانی مسلم راہنما اب بھی ہندو ¿وں پر پورا اعتماد بلکہ اِن کی زبان میں پورا وشواس رکھتے ہیں کہ اب تک جو بھی ہوا ،وہ شاید ایک اتفاق تھا ورنہ یہ فسادات مسلمانوں کے خلاف کوئی سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہر گز نہ تھی تو لیجیے جناب اب ایسے حد سے زیادہ سادہ لوح اور خود فریبی کے شکار مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے یہی ہندو کھلم کھلا اپنے مسلم کش منصوبوں کا سرعام اعلان کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ سرکاری سطح پر بھی کھل کر بغض کا اظہار کیا جا رہا ہے۔مسلمانوں کے ساتھ کسی سابقہ منافقانہ روادارانہ انداز کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جا رہی۔
ہندو لیڈر یوگی آدتیا ناتھ کا چہیتا اپنا اصل بغض بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر ہندو خاندان کو کم از کم آٹھ بچے پیدا کرنے چاہئیں۔صرف اِسی طرح ہی ہم(مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مقابلے میں) ہندو توا اور اپنے معاشرے میں برتری قائم رکھ سکتے ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی جیسے متوقع پیش آمدہ خطرناک حالات پر دنیا کے کئی عالمی ادارے ایک عرصے سے خطرے کی گھنٹیاں بجا چکے ہیں۔لیکن ہمیں گھنٹیاں تو کیا،شاید بڑے بڑے گھنٹے اور دھماکے بھی خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں۔جینو سائیڈ واچ نامی عالمی ادارے کے سربراہ گریگوری سٹینٹن 2002ءسے (جب گجرات میں فسادات ہوئے) یہ انتباہ دے چکے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہو سکتی ہے۔ابھی حال ہی میں انہوں نے امریکی کانگریس سے خطاب میں بھی کہا کہ مودی حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں کے نتیجے میں بھارت میں بہت جلد مسلمانوں کی نسل کشی کی صورت میں میانمار اور رونڈا جیسے حالات رونما ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر گریگوری نے 25سال قبل رونڈا میں نسل کشی کی پانچ سال پہلے ہی پیشگوئی کر دی تھی۔بھارت میں مسلم نسل کشی کی دلیل اِن کی یہ بھی ہے کہ مودی نے جس سال کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کی،اِسی سال شہریت ترمیمی قانون پاس کیا گیا جس کے تحت دہائیوں سے(1971ءسے) بنگلہ دیش(سابقہ مشرقی پاکستان) سے مبینہ طور پر آئے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت پر سوالیہ نشان لگایا گیا جس کی وجہ سے اِن کی ایک بڑی تعداد اب کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر دی گئی ہے۔اِن کا کہنا تھا کہ برما میں بھی پہلے اِسی طرح کیا گیا کہ وہاں کے مسلمانوں کی پہلے شہریت ختم کی گئی اور پھر اِن کی نسل کشی کر دی گئی۔
اب آپ خود دیکھ لیں کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی پر پوری سنجیدگی سے سرکاری سرپرستی میں منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ برما جیسے قانون یہاں لائے جا رہے ہیں۔پہلے جھٹکے میں آسام کے بیس لاکھ مسلمانوں پر چھری رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے اور پھر خود متعصب ترین بھارتی وزیر داخلہ امیت شا کے مطابق ایسا قانون پورے بھارت میں لایا جائے گا۔ سوچیے!کشمیر کی خود مختار حیثیت کا خاتمہ کرنا۔کشمیر میں اسرائیلی طرز پر وہاں صرف کشمیریوں کی بجائے پورے بھارت کے ہندو ¿وں کو بسنے اور جائیداد خریدنے کی اجازت دے کریوں کشمیریوں کی اکثریت کو آہستہ آہستہ اقلیت میں بدلنا۔ آسام میں شہریت کا ایسا قانون لانا جس سے لاکھوں مسلمان ہی اپنے ملک میں اجنبی اور نفرت کا نشانہ بن جائیں اور اِن لاکھوں بھارتی مسلمانوں کو جب ایک وزیر داخلہ خود آتنک واد قرار دے تو پھر اِن کا قتل عام نہیں ہوگا توکیاہو گا اور اب بی جے پی کی سرپرستی میں ہندو کانفرنسوں میں کھلے عام ہندو ¿وں کو مسلمانوں کے اجتماعی قتل پر اُکسانا اور ایسے مقررین کے خلاف مودی حکومت کا کوئی قابل ذکر اقدامات نہ کرناآخر کیا ثابت کر رہا ہے؟
یہ سب حالات چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف یہ سب قوانین ، اقدامات اور مذموم سرگرمیاں محض اتفاقات نہیں بلکہ یہ سوچا سمجھا مسلم کشی کا منصوبہ ہے جس پر مودی حکومت کشمیر اور بھارت میں بیک وقت بغیر کسی خوف کے علی الاعلان عمل پیرا ہے۔صرف اِس لیے کہ امریکہ اور سارا عالم کفر اِس کے ساتھ ہے جبکہ دوسری طرف عالم اسلام اپنے مفاد اور غفلت کی گہری نیند میں سویا ہوا ہے۔لگتا ہے سب کی آنکھ تب کھلے گی جب برما اور فلسطین کے مسلمانوں کی طرح اِن کے قتل عام سے بھی دشمن فارغ ہو جائے گا تو پھر اِس قتل عام کے خلاف ہمارے عالمی مسلم سربراہان کچھ دیر مذمت کے آنسو بہانے کے بعد قرارداد مذمت بھی پاس کر لیں گے۔ورنہ عالم اسلام میں جو قبرستان کی سی خاموشی ہے تو شاید یہ چند مذمتی آنسو بھی ان مظلوموں کے نصیب میں نہ آ سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button