Column

جماعت اسلامی کا فرض کفایہ

تحریر : فرید رزاقی
ظلم و ستم کے دور میں، دنیا بھر سے حمایت اور یکجہتی کی آوازیں مظلوموں کے لیے طاقت کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان، جو کہ ایک معروف مذہبی و سیاسی جماعت ہے، نے ہمیشہ فلسطین خصوصاً غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ اپنی بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسلامی نظریات اور اخلاقی ذمہ داری کی بنیاد پر، جماعت اسلامی نے اپنے جذبات کو موثر عمل میں بدلتے ہوئے مظاہروں، سیمینارز، آگاہی مہمات اور انسانی خدمات کے ذریعے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
اپنے قیام سے لے کر آج تک، جماعت اسلامی فلسطینی کاز کو امت مسلمہ کا اجتماعی فریضہ سمجھتی ہے۔ بانی جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر میں گوندھی جماعت اسلامی اس معاملے پر بالکل ایک واضح مؤقف رکھتی ہے ۔ چونکہ مولانا مودودی اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست مانتے تھے، اس کے جارحانہ اور مجرمانہ عزائم سے خوب واقف تھے، اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کو ختم ہونا چاہیے۔ یہ مولانا مودودی کا اسرائیلی ریاست سے متعلق دوٹوک موقف تھا۔ مولانا مودودی کا ماننا تھا کہ اسرائیلی ریاست کے باقی رہتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے حل کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اور مسجد اقصیٰ کا مسئلہ اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے جبکہ ناجائز یہودی ریاست کا خاتمہ ہو اور فلسطین کو آزاد کرا لیا جائے،اس کے علاوہ اس مسئلہ کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے جماعت اسلامی کی قیادت سید مودودی سے لیکر میاں طفیل محمد ، قاضی حسین احمد، سید منور حسن ، سراج الحق کے پاس ہو یا موجودہ امیر حافظ نعیم الرحمٰن کے پاس ہو آپ ان میں سے کسی کے بھی موقف میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے رتی برابر بھی فرق محسوس نہیں کریں گے۔ بلکہ اتنے سال گزرنے کے باوجود جماعت اسلامی ہمیشہ ظلم کے خلاف کھڑی رہی ہے۔ دہائیوں سے، جماعت اسلامی نے مختلف قومی و بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر فلسطینی ریاست کے حق میں آواز بلند کی ہے اور اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کی ہے۔
جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں سب سے نمایاں پہلو اس کے ملک گیر احتجاجی مظاہرے ہیں۔ جب بھی فلسطین اور بالخصوص غزہ پر کوئی نیا ظلم ڈھایا جاتا ہے، جماعت اسلامی پورے ملک میں عوام کو متحرک کرتی ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور دیگر بڑے شہروں میں عظیم الشان ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں، جن میں عوام کی کثیر تعداد میں شرکت جماعت اسلامی کے اس موقف کی تائید اور اس معاملے میں عوام کا ان پر اعتماد کا کھلم کھلا اظہار ہوتا ہے۔
حالیہ 7اکتوبر کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد سے جہاں پوری دنیا اہلِ غزہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہی ہے وہیں پر پاکستان میں جماعت اسلامی کو سب سے نمایاں مقام حاصل ہے۔ دیگر مذہبی جماعتیں تو کسی نہ کسی انداز میں اہل غزہ کے حق میں احتجاج کرتی نظر آتی ہیں مگر خالصتاََ سیاسی جماعتیں وہ خواہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں وہ بیان بازی تک ہی محدود ہیں۔
جماعت اسلامی نے اس معاملے میں محض احتجاجی مظاہرے اور ملین مارچ ہی نہیں کیے بلکہ اپنی فلاحی تنظیم الخدمت کے ذریعے اہل غزہ کے لیے امدادی سرگرمیوں کا پاکستان کا سب سے بڑا ریلیف پروگرام بھی چلارہی ہے۔ جس کے تحت اربوں مالیت کی امداد غزہ روانہ کی جاچکی ہے اور مزید بھی اس سلسلے میں پیش رفت جاری ہے۔ الخدمت فائونڈیشن نے نہایت پیشہ ورانہ انداز اپناتے ہوئے جہاں جہاں سے ممکن ہو مظلوم مسلمانوں کی مدد کی ہے وہ خواہ بذریعہ ترکیہ ہو ، مصر ہو یا کسی بھی مغربی تنظیم کے ساتھ باہمی اشتراک سے ایک بوند پانی کا بھی اندر بھیجا جاسکتا ہو تو اس کے لیے الخدمت کے ذمہ داران نے اپنا کردار ادا کیا ہے اس موقع پر نائب صدر عبدالشکور اور صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمان کی کاوشوں کا بالخصوص ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ کس طرح انہوں نے اس کے لیے در در کی خاک چھانی ہے۔ اللہ رب العزت انہیں اور ان کی پوری ٹیم کو اس پر اجر عظیم سے نوازے۔
جماعت اسلامی نے مسئلہ فلسطین کے چار جہت پہلوئوں پر کام کیا ہے اس کے لیے آگاہی مہم بھی چلائی ہے کہ آخر کو مسئلہ فلسطین اور اہل غزہ کی مزاحمت ہے کیا اس معاملے میں تاکہ کوئی ابہام پیدا کرکے لوگوں کو کنفیوز کرتے ہوئے اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو پائے، جہاں جماعت اسلامی سڑکوں پر احتجاج کرتی نظر آتی ہے وہیں پر یہ جماعت اسلامی کو ہی اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان میں رہتے ہوئے پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ اہلِ غزہ کسی صورت بھی تنہا نہیں ہیں اس کے لیے جماعت اسلامی نے تسلسل کے ساتھ سوشل میڈیا پر کمپین کا آغاز کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈنگ میں ہے اس کی سوشل میڈیا ٹیم نے قوم کو اس اہم اور نازک مسئلے پر متحد کر رکھا ہے ۔ چند گھٹیا ذہنیت کے حامل افراد اس میں آئے روز رخنہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں مگر انہیں منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ کا معاملہ ہو یا سفارتی سطح پر مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے کا معاملہ جماعت اسلامی اس میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔
حافظ نعیم الرحمٰن امیر جماعت اسلامی وفد کی صورت میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے پاس پہنچتے ہیں انہیں اس پر قائل کرتے ہیں کہ وہ دیگر اسلامی ممالک کی قیادت کو ساتھ ملاکر اس ظلم و ستم کو رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ حالانکہ وہ ان کے خلاف احتجاجی تحریک بھی چلا رہے ہیں مگر اس سب کے باوجود وہ مظلوم مسلمانوں کے ترجمان بن کر شہباز شریف کے پاس تشریف لے گئے حالانکہ ان کیخلاف ایک مخصوص ٹولے نے اس موقع پراپیگنڈا بھی کیا۔
جماعت اسلامی نہ صرف پاکستان میں اس معاملے پر مصروف عمل ہے بلکہ دنیا بھر میں موجود اپنی بردار تنظیمات اور حامیان کے ذریعے بھی اس تحریک کو آگے بڑھا رہی ہے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی صرف سیاسی موقف نہیں بلکہ ایک دینی، اخلاقی، اور انسانی فریضہ ہے۔ جب عالمی طاقتیں خاموش رہتی ہیں، جماعت اسلامی مظلوموں کی آواز بن کر سامنے آتی ہے۔ اپنے مظاہروں، آگاہی مہم ، میڈیا، سوشل میڈیا، اور امدادی کاموں کے ذریعے جماعت اسلامی دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہمارا ایمان ہے، اور ہم مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ اس کو اگر اس انداز سے بیان کیا جائے کہ جماعت اسلامی اہل غزہ کے لیے اپنا کردار فرض کفایہ کی صورت پاکستان سے ادا کر رہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button