شام ابھی تک اسرائیل کے نشانہ پر ہے
کالم تماش گاہ
تحریر ۔ علی حسن
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی بعث پارٹی نے غیر معینہ مدت کے لیے کام معطل کر دیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پارٹی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مرکزی قیادت نے غیر معینہ مدت تک تمام سرگرمیاں معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعث پارٹی کے فنڈز اور جائیداد وزارتِ داخلہ کے حوالے کیے جائیں گے۔ دوسری جانب اسرائیلی اخبار کا کہنا ہے کہ دمشق کی جانب باغیوں کی پیش قدمی پر روس نے بشار الاسد کو شام فوری چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا، انہیں بتایا گیا کہ وہ جنگ ہار چکے ہیں۔ اسرائیلی اخبار نے کہا کہ بشار الاسد نے ہنگامی روانگی سے قبل اپنے قریبی رفقاء کو اطلاع نہیں دی، ان کے محفوظ سفر کا اہتمام روسی انٹیلی جنس نے کیا تھا۔ اسرائیلی اخبار کا کہنا ہے کہ بشار الاسد دمشق سے اپنے نجی جیٹ میں شام میں روسی ایئر بیس پہنچے، ان کے سفر کے دوران طیارے کا ٹرانسپونڈر بند کر دیا گیا، خمیمیم ایئر بیس سے بشار الاسد روسی فوجی طیارے میں روس روانہ ہوئے، روس کے سفر کے دوران ترک فضائی حدود سے اجتناب کیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ شام میں دراندازی کے بعد اسرائیل ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کیلئے تیار ہیں۔ اسرائیلی فوج مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ حزب اللّٰہ کو کمزور کرنے اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں حزب اللّٰہ کا کمزور ہو جانا اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا ایک موقع ہے۔اسرائیل کے شام پر 500فضائی حملے کئی ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ آور ہونے کے لیے اپنی بھرپور تیاریاں کر رہی ہے۔ اسرائیلی فوج کا یہ بھی ماننا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور لبنان میں حزب اللّٰہ کے کمزور ہونے کے بعد ایران خطے میں تنہا ہو گیا ہے اور ایسی صورتِ حال میں وہ اپنے دفاع کے لیے جوہری پروگرام کو مزید آگے بڑھا کر ایٹم بم تیار کر سکتا ہے۔ دوسری جانب ایران نے ہمیشہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کا خلائی پروگرام اور جوہری سرگرمیاں دونوں ہی خالصتاً شہری ضرورت کے لیے ہیں۔ اس حوالے سے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران کا 2003ء تک ایک منظم فوجی جوہری پروگرام تھا لیکن اس کے بعد اس نے اپنے جوہری پروگرام میں شہری ضرورت سے ہٹ کر ترقی جاری رکھی ہے۔ علاوہ ازیں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایران نے کبھی بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو صحیح معنوں میں بند نہیں کیا اور ایران کے بہت سے جوہری مقامات بھاری قلعہ بند پہاڑوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
شام پر اسرائیل کی بلا جواز جارحیت کا سلسلہ جاری ہے، جہاں اس نے گزشتہ 2روز میں 5سو سے زائد فضائی حملے کیے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی جنگی طیاروں نے شام میں فضائی کارروائی تیز کرتے ہوئے گزشتہ 48 گھنٹوں میں اسٹریٹیجک فوجی اہداف پر 500سے زائد فضائی حملے کیے ہیں، جن کے نتیجے میں شام کا فوجی اور انتظامی اسٹرکچر تباہ و برباد ہو گیا۔اسرائیلی فوج نے شام میں لطاکیہ اور طرطوس کے فوجی مقامات، بندرگاہوں اور میزائل گوداموں کو نشانہ بنایا ہے، جبکہ اسرائیلی زمینی دستے گولان کی پہاڑیوں پر اپنے قبضے کو بڑھا رہی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے شام کے مفرور صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کو ایک نیا اور ڈرامائی باب قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کی تیاریاں جاری ہیں، عبوری حکومت کے ارکان کا اعلان آئندہ چند دنوں میں کیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق شام کے نئے وزیرِ اعظم محمد البشیر نے آئندہ ہفتے سے تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ان کی اولین ترجیح بیرونِ ملک موجود لاکھوں شامی پناہ گزینوں کی واپسی اور ریاستی اداروں کی بحالی ہے۔ شامی باغیوں کی تحریک حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے معزول صدر بشار الاسد کی حکومت کے سیکیورٹی اداروں کو تحلیل، بدنام زمانہ جیلوں کو بند اور ممکنہ کیمیائی ہتھیاروں کی جگہوں کو محفوظ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ شام کے شہر منبج پر کنٹرول کے بعد سیریئن نیشنل آرمی ( ایس این اے) کی فرات کے مغربی علاقوں پر قبضے کے لیے پیش قدمی جاری ہے، جبکہ سیریئن ڈیموکریٹک فورس ( ایس ڈی ایف) کے کمانڈر نے خبردار کیا ہے کہ داعش ایک بار پھر ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لطاکیہ کے علاقے قرداحہ میں سابق صدر حافظ الاسد کے مزار کو نذر آتش کر دیا گیا ہے۔
شام میں بشار الاسد حکومت کے مظالم کی بھیانک داستانیں سامنے آگئی ہیں، جیلوں سے بڑی تعداد میں لاشیں اور انسانی باقیات برآمد کی گئی ہیں، لاپتہ افراد کے خاندان اپنے پیاروں کو تلاش کرتے نظر آرہے ہیں۔ دمشق کے المشتہد اسپتال میں محمد شعیب نامی ایک شخص نے اسپتال کے مردہ خانے میں قدم رکھا تو وہاں انہیں اپنے بھائی سامی شعیب کی تشدد زدہ لاش ملی، جس کا جسم جلا ہوا، خالی آنکھوں کی جگہ گڑھے اور چہرے پر سسکتی موت کی گواہی نے ان کی آنکھوں کو نم کر دیا تھا۔ محمد شعیب نے اپنے بھائی کی لاش کو دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ یہ میرے بھائی نہیں لگتے، ان کے پاس تو آنکھیں بھی نہیں ہیں۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور ان کے ملک سے فرار ہونے کے بعد ہزاروں قیدیوں کی رہائی کے باوجود بہت سے افراد اپنے لاپتہ پیاروں کی تلاش میں اب بھی سرگرداں ہیں۔ ایسے ہی بہت سے لاپتہ افراد میں دمشق سے تعلق رکھنے والی ایک دندان ساز، ڈاکٹر رانیہ العباسی اور ان کے 6بچے بھی شامل ہیں، جنہیں 2013 میں شامی ایجنسیوں نے گرفتار کرلیا تھا جبکہ اس سے ایک دن پہلے ان کے شوہر عبدالرحمان یاسین کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا، جو تا حال لاپتہ ہیں۔ برطانوی ادارے کے مطابق ڈاکٹر رانیہ کی بہن نائلہ العباسی کا کہنا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ رانیہ اور ان کے بچے زندہ ہوں، ہم انہیں دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر رانیہ العباسی کے اہلخانہ کو 2013ء میں ایک خاتون قیدی سے یہ معلوم ہوا کہ ان کے بچے دمشق کے فلسطینی برانچ جیل میں تھے۔ اب قیدیوں کی رہائی کے بعد ان کے خاندان کے افراد جیلوں کے باہر منتظر ہیں، لیکن ابھی تک انہیں کوئی خوشخبری نہیں ملی۔
عرب میڈیا کے مطابق اسپتال کے مردہ خانے سے برآمد ہونے والا سامی 5ماہ پہلے بشار الاسد حکومت کے دوران غائب ہوگیا تھا اور اب اس کی لاش ان ہزاروں لاشوں میں شامل ہے جو شام کی جیلوں اور حراستی مراکز سے بر آمد ہوئی ہیں۔ مردہ خانے کے عملے کے مطابق اس دن 40لاشیں اسپتال لائی گئیں، جن میں سے صرف 8کی شناخت کی جا سکی۔ فارنزک اسسٹنٹ یاسر قصر نے کہا کہ ’’ درجنوں خاندان یہاں پہنچ رہے ہیں، لیکن لاشوں اور خاندانوں کی تعداد میل نہیں کھاتی‘‘۔ اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے میڈیا کو بتایا کہ لاشیں شدید سردی کے نمکین کمروں سے برآمد کی گئی ہیں۔ ان پر گولیوں کے زخم اور تشدد کے نشان واضح تھے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق 2011ء سے لے کر اب تک، شام میں تقریباً 1لاکھ 50ہزار افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا یا غائب کر دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق بشار الاسد حکومت کے دوران ہزاروں قیدی اجتماعی پھانسیاں دے کر قتل کیے گئے۔ قیدیوں پر مستقل تشدد، شدید مار پیٹ، اور جنسی زیادتی ہوتی تھی۔ بیماری، بھوک، یا زخموں کی شدت سے کئی قیدی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔