Column

کتاب دوستی

شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
کبھی کہا سنا کرتے تھے
ہم نشینی اگر کتاب سے ہو
اس سے بہتر کوئی رفیق نہیں
یا بات شاید آج سے بیس سال قبل درست ہوتی ہو گی مگر اب ، جبکہ ’’ شیطانی چرخہ ‘‘ ہر انسان کے ہاتھ میں تو اس بات پر خوامخواہ ہنسی آتی ہے۔ اس چرخے نے انسانی اقدار کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا کوئی اور چیز نہیں پہنچا سکی۔ کتاب کی اس کے ہاتھوں موت واقع ہو گئی ہے۔
آج کل یہی انسان کا دوست ہے، یہی بیوی، یہی بنک ، یہی واحد تفریح اور ناجانے کیا کچھ بلکہ سب کچھ ۔
ایک دن بھی اس کے بنا گزارا ناممکن لگتا ہے۔ کسی دن بجلی نہ ہو اور چارجنگ ختم ہو جائے یا نیٹ ورک دستیاب نہ ہو ، سیکیورٹی یا کسی اور وجہ سے سگنل بند ہوں یا پیکیج ختم ہو اور پیسے پلے نہ ہوں انسان بے قرار و بے تاب ہو کر رہ جاتا ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ لینڈ لائن مرحوم و مغفور اچھے اچھوں کے گھر نہیں ہوا کرتا تھا۔ جس گھر میں ہوتا تھا وہ فخریہ کہتے تھے کہ ان کے گھر فون ہے اور وہ اس سے تنگ بھی بہت ہوا کرتے تھے۔ دوست رشتہِ دار ہمسائے ، اپنے دور پرے کے عزیز و اقارب کو نمبر دے دیا کرتے تھے اور ’’ صاحب فون ‘‘ کو خوب تنگ کرتے تھے۔ کچھ لوگ اس لیے بھی وہ فون گھر میں نہیں لگواتے تھے کہ مہینے کا فکس بک ( دو ڈھائی سو روپے ) کون بھرے۔ مگر آج یہ صورت حال ہے کہ جتنے گھر کے افراد سب کے ہاتھوں میں سمارٹ فون ہے اور ہر ایک کا خرچہ ہزار دو ہزار سے کیا کم ہو گا ۔ دیکھ لیں کیسی تبدیلی آئی ہے۔ پھر بھی ہم نعرہ لگاتے ہیں کہ ہماری آمدنی کم ہے اور مہنگائی بہت ہے
بات چلی تھی کتاب دوستی سے اور جا کہاں پہنچی ۔
ایک دوست میرے دوست سید مہدی بخاری ایک کتاب لیے گھوم رہے تھے ۔ شاید وہ محسن نقوی کی شاعری کی کوئی کتاب تھی ( شاید رخت شب ) میں نے ان کے ہاتھ سے کتاب لی اور بے ساختہ کہا ’’ کتاب سب سے بہترین تحفہ ہے ‘‘، انہوں نے کتاب میرے ہاتھ سے جھپٹی اور بے ساختہ بولے ’’ ہاں مگر یہ پرائی ہے ‘‘۔
ہم میں اکثر اعزازی کتاب کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اپنے ادیب دوستوں سے فرمائشیں کر کر کے اعزازی کتاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی انکار کر دے تو باقاعدہ ناراض شراض ہو جاتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کی کون سی ایسی چیز ہے جو اعزازی ملتی ہو۔
کیا کتاب مفت چھپتی ہے ؟
کیا محکمہ ڈاک اسے مفت پہنچاتا ہے
کیا صاحب کتاب کو اشاعتی ادارے بلا معاوضہ خدمت فراہم کرتے ہیں۔
اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو صاحب کتاب سے اعزازی کتاب مانگنا چہ معنی دارد۔
کسی بھی ادیب کی پہلی کتاب پہولٹی اولاد کے جیسے ہوتی ہے۔ ادیب عموما اپنی پہلی کتاب ہر کس و ناکس کو دے دیا کرتے ہیں ( کسی نئے دکان دار کی طرح جو سودا بکنے کی خوشی میں ہر کسی کو ادھار دے دیا کرتا ہے )ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ سن دو ہزار بیس میں ہماری پہلی کتاب ’’ شہر خواب ‘‘ ( کالمز کا مجموعہ ) شائع ہوئی تو ہم نے ہر ایک کو اعزازی بھیجی تھی۔ اور پھر تقریباً سبھی سے فون کر کے پوچھا تھا کہ کتاب ملی یا نہیں۔ کسی نے اس پر تبصرہ کیا نہ کوئی پذیرائی کی۔ پہلے تجربے کے بعد ہم نے اپنا پہلے افسانوی مجموعے ’’ مٹھی میں کائنات ‘‘ کسی کو بھی اعزازی طور پر نہیں بھیجا سوائے ان چند افراد کو جنہوں نے اس پر رائے لکھی تھی ۔ وہ کتاب فیس بک کی معرفت ہاتھوں ہاتھ بکی اور ہمارے لیے وجہ شہرت بنی۔ جس کسی نے اسے پڑھا ( اور اکثر ادبی دوستوں نے ) خوب پسند کیا ۔ اس پر تبصرے بھی لکھے ۔ ملنے کہ تصدیق بھی کی۔ بس کراچی کے ایک ڈائجسٹ کے مدیر کو وہ اچھی نہیں لگی ( اس نے کتاب کو پڑھے بنا نا پسند کیا ) ۔ کتاب ہاتھوں ہاتھ بکی اور جب اس پر ایم فل کا تھیسس ہونے لگا تو میرے پاس ایک بھی کتاب نہیں بچی تھی۔ ذاتی کاپی تک نہ تھی۔ چند دوستوں سے ادھار مانگ کر ایم اے ایم فل اور بی ایس کے مقالے لکھے گئے۔ آج بھی ہمارے پاس اس کا پی ڈی ایف ہے، ہارڈ کاپی موجود نہیں۔
کتاب کے حوالے سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ کتابوں سے عشق کی آخری صدی ہے۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو میرے خیال میں اس کی ایک بڑی وجہ اعزازی کتاب کی علت و بدعت ہو گی۔ افسوس ادیب ادیب کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ وہ پبلشر تو کب کے فوت ہوئے جو کتاب چھاپنے پر پیسے دیا کرتے تھے۔ اب تو مفت چھاپ کر دینے والے کہیں نہیں ملتے۔
ایسا نہیں ہے کہ کتاب چھپ نہیں رہی۔ چھپ تو رہی ہے، خریدی نہیں جا رہی اور نہ پڑھی جا رہی ہے۔ لائبریریوں کا وجود ختم ہو چکا۔ گلی محلے میں موجود انہ لائبریری اب ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ اسکول میں اس کس وجود مفقود ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لائبریریاں ہیں بھی تو ان سے استفادے کی روش معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ چھوٹے شہروں میں کتابوں کی دکانیں کم یاب ہیں۔ ہمارے شہر اوچ شریف میں ایک بھی دکان نہیں جس پر کتابیں دستیاب ہوں۔ درسی کتابوں کی دکانوں نہ ہوں تو لوگ کتاب دیکھنے ترسیں ۔
جو کتاب کبھی پانچ سو یا ایک ہزار کی تعداد میں چھپا کرتی تھی۔
اعزازی کتاب لینے کی بری عادت جب ختم ہو گی ؟ کیا تب جب کتاب ای بک میں بدل جائے اور ہارڈ کاپی کا رواج ختم ہو جائے گا۔
آخر ہم پیسوں سے کتاب خرید کر اسے پڑھنے کا اعزاز کیوں نہیں حاصل نہیں کرتے۔ کس قدر دکھ کا مقام ہے کہ جوتے شو کیس میں سجے ہوتے ہیں اور کتابیں فٹ پاتھ پر پڑی رل رہی ہوتی ہیں
کیا یہی کتاب دوستی ہے
کیا یہی ادب دوستی ہے ۔۔۔
آخر میں میرا ایک افسانچہ بعنوان ’’ الماری ‘‘۔۔۔
الماری ۔۔
۔۔۔ اسے کتابوں سے محبت تھی۔ اور کتابیں جمع کرنے کا عشق تھا۔ اس کے پاس بہت سی کتابیں تھیں جو اس نے مصنفین کے ان باکس جا کر منگوائی تھیں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ ان کو رکھنے کی مناسب جگہ نہ تھی۔ اس کا دل کتابوں کو بکھرا دیکھ کر بڑا کڑھتا تھا۔ اس کے مالی حالت بھی کچھ ایسی نہ تھی کہ وہ کوئی اچھی سی الماری خرید سکتا۔ پھر ایک دوست کے مشورے سے اس نے کمیٹی ڈال لی۔ کچھ مہینے بعد جب اس کی کمیٹی نکلی تو اس نے ایک خوب صورت سی الماری خریدی اور اپنی تمام کتابیں اس میں سجا دیں۔ پہلے جگہ کم پڑتی تھی اور اب کتابیں۔
اس نے اس کا بھی حل ڈھونڈ نکالا۔ اس نے فیس بک پر پوسٹ لگائی اور اپنی الماری کی تصویر بھی ساتھ ہی شئیر کر دی ’’ آپ کی کتاب اس الماری کا حصہ بن سکتی ہے‘‘۔
ادباء و شعراء نے اس کتاب دوست کی خوب خوب پزیرائی کی اور بہت سی کتابیں بھیج دیں۔
اب الماری کتابوں سے لبریز ہو گئی تھی
اور وہ انھیں دیکھ دیکھ جیتا تھا

جواب دیں

Back to top button