ColumnImtiaz Aasi

جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( آٹھواں حصہ )

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
سنیٹرل جیلوں میں سزائے موت کے مختلف سرکل ہوتے ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ جیلوں میں سزائے موت کا ایک سرکل ہوتا ہے۔ مختلف سرکلوں کے قائم کرنے کا مقصد ایسے قیدی جن کی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں ہائی کورٹ میں ہوں انہیں ان قیدیوں سے الگ رکھا جاتا ہے جن کی اپیلیں سپریم کورٹ میںہوں۔ جیل مینوئل کی رو سے سزائے موت کے قیدیوں کو روزانہ اپنے سیل تبدیل کرنا ہوتے ہیں۔ سزائے موت کے قیدیوں کی سیلوں کی تبدیلی کا سلسلہ انگریز دور سے چلا آرہا ہے۔ انگریز سرکار سزائے موت کے قیدیوں کی روزانہ سیلوں کی تبدیلی کا مقصد یہ تھا کہیں کوئی قیدی سرنگ لگا کر فراری نہ کر لے۔ چونکہ انگریز دور میں جیلیں کچی ہوا کرتی تھیں اس لحاظ سے قیدیوں کی فراری کا زیادہ امکان ہوا کرتا تھا۔ پنجاب کی بعض جیلیں اب بھی کچی ہیں جیسا کہ کہیں برس پہلے کا واقعہ ہے ڈسٹرکٹ جیل گجرات سے سزائے موت کے قیدیوں نے سرنگ لگا کر فراری کی کوشش کی تو جیل حکام کو علم ہونے پر انہیں دوسری جیلوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ سیشن ججوں سے سزائے موت کی سزا پانے والے قیدیوں کی سزا ہائی کورٹ سے کنفرمیشن سے مشروط ہوتی ہے گویا اس لحاظ سے وہ حوالاتی تصور ہوتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے ایسے قیدی جن کی اپیلیں ہائی کورٹ میں تھیں انہیں حوالاتی تصور کرتے ہوئے انہیں سیلوں کی تبدیلی سے استثنیٰ دے دیا۔ چنانچہ اب وہ پور ا دن کھلے رہتے ہیں اور شام کو گنتی بند ہونے کے وقت انہیں ان کے سیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس سزائے موت کے وہ قیدی جن کی اپیلیں سپریم کورٹ یا پھر صدر مملکت کے پاس ہوں انہیں صبح اور شام ایک ایک گھنٹے کے لئے سیلوں سے باہر نکلنے کی اجازت ہوتی ہے تاہم وہ اپنے اپنے پہروں کے اندر کی ڈھلائی ( واک) کر سکتے ہیں۔ جب کہ وہ قیدی جن کی اپیلیں ہائی کورٹ میں ہوتی ہیں وہ اپنے پورے سرکل میں گھوم پھر سکتے ہیں۔ سزائے موت کے قیدیوں کے لئے سب سے بڑی اذیت اڑدی ہوتی ہے ( ایک سیل سے کسی دوسرے سیل میں شفٹ ہونے کو اڑدی کہتے ہیں) اڑدی رکوانے کے لئے قیدی سفارشوں کا سہار ہ بھی لیتے ہیں ورنہ جیل کے میڈیکل آفیسر سے مبینہ طور پر کچھ لین دین کرکے اپنی علالت کی چٹ بنوا لیتے ہیں جس کے بعد ایسے قیدیوں کو اگلے روز سپرنٹنڈنٹ جیل کے ملاحظہ میں پیش کیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کیا واقعی قیدی علیل ہے۔ حقیقت یہ ہے جیل کے اندر سزائے موت ایک علیحدہ قسم کی جیل ہوتی ہے جہاں بیرکس سے قیدیوں کی سزائے موت آمدورفت قطعی طور پر بند ہوتی ہے۔ سزائے موت کے سرکلوں کے مین گیٹ پر جیل کا عملہ موجود ہوتا ہے تاکہ بیرکس سے کوئی قیدی سزائے موت کے سرکل میں داخل نہ ہو سکے۔ یہ اور بات ہے جب کوئی قیدی سزائے موت کے کسی قیدی سے ملاقات کا خواہاں ہو تو وہ مین گیٹ پر موجود عملہ سے سب اچھا کرنے کے بعد سرکل کے قریب موجود ہیڈ وارڈر سے دوبارہ سب اچھا کرکے اپنے قیدی دوست سے ملاقات کر سکتا ہے۔ ویسے سزائے موت کے قیدیوں سے ملاقات کے لئے جیلوں میں ہر ماہ میں ایک روز مختص کیا ہوتا ہے جس میں بیرکس سے قیدی اپنے دوست اور رشتہ در قیدیوں سے بغیر سب اچھا کئے پندرہ منٹ ملاقات کر سکتے ہیں۔ کئی عشرے پہلے تک سزائے موت کے قیدیوں کو واک کرانے سے قبل ہتھکڑی لگائی جاتی تھی لیکن اب یہ رواج ختم ہو گیا ہے۔ ہتھکڑی لگانے کا مقصد کہیں قیدی آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کر سکیں۔ قیدیوں میں ممکنہ لڑائی جھگڑے کے پیش نظر جیل مینوئیل کی رو سے اپنے پہروں سے باہر نہیں نکل سکتے لیکن وہ قیدی جن کی مالی حالت اچھی ہو پورا پورا دن سزائے موت کے سیل سے باہر دھوپ میں رہتے ہیں۔ جیل مینوئل کی رو سے سزائے موت کے قیدیوں کی ڈھلائی کے موقع پر سزائے موت سرکل کے انچارج افسر کا موقع پر موجود ہونا ضرور ی ہے اب یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے سزائے موت کے قیدیوں کو پہروں میں کھلا چھوڑ کر ہیڈ وارڈر انچارج باہر جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جس روز سزائے موت کے قیدیوں کی ملاقات کا دن ہو وہ عجیب منظر ہوتا ہے جونہی قیدیوں کے ملاقاتی سزائے موت کے سرکلوں سے باہر نکلتے ہیں اور ان کو بھیجا ہوا سامان قیدیوں کو پہنچتاہے سرکلوں کے باہر بیٹھے ملازموں کی فرمائشوں کانہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ قیدیوں کے ملاقاتی کھانے کے ساتھ بیکری کا سامان، مٹھایاں اور پھل وغیرہ لے آتے ہیں جو سب سے پہلے جیل ملازمین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ ایک اور بات جس کا ذکر ضروری ہے جیل مینوئل کے مطابق کوئی قیدی اپنے پاس نقد پیسے نہیں رکھ سکتا ملاقاتی حضرات اپنے پیاروں کو نقد رقم دینے کی خاطر جو ہیڈ وارڈر ملاقاتیوں کو باہر سے اندر لے کر آتا ہے وہ پیسے اس کے حوالے کر دیتے ہیں جس میں سے وہ اپنے حصے کے پیسے وصول کر کے باقی رقم سزائے موت کے قیدی کو دے دیتا ہے۔ قیدیوں کے لئے سرکاری طور پر فراہم کئے جانے والے کپڑوں کے پہننے کی پابندی ہوتی ہے۔ ڈسٹرکٹ جیلوں میں اس سلسلے میں بہت سختی ہے البتہ وہ جیلیں جہاں کے قیدی مالی اعتبار سے اچھے ہوں وہاں قیدی کپڑوں کی بجائے قیدی عام لباس پہنے رکھتے ہیں۔ جب کبھی باہر سے کوئی دورہ آئے یا سپرنٹنڈنٹ جیل کا دورہ ہو وہ قیدی کپڑے پہن لیتے ہیں۔ ہم قدیم دور کی اور موجودہ دور کی جیلوں کا موازنہ کریں تواب تو قیدیوں کو جو سہولیتں میسر ہیں کئی عشرے پہلے تک ایسی سہولتوں کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جیلوں میں پینے کے صاف پانی کا بہت بڑا مسئلہ تھا جو جیل حکام نے سرکاری طور پر یا پھر این جی اوز کے تعاون سے حل کر دیا ہے۔ جیلوں میں پانی کے بور بنائے گئے ہیں جن سے قیدیوں کو ٹھنڈا اور صاف پینے کا پانی ہمہ وقت میسر ہوتا ہے۔ قیدیوں کے ساتھ جیل ملازمین کے مسائل کی طرف توجہ دلانا اتنا ہی ضروری ہے۔ سرکاری محکوں میں سالانہ خفیہ رپورٹس لکھنا افسران بالا کی ذمہ داری ہوتی ہے محکمہ جیل خانہ جات میں ملازمین کو اپنی سالانہ خفیہ رپورٹس افسران سے بالمشافہ طور پر جا کر تحریر کرانا پڑتی ہیں حالانکہ یہ ذمہ داری جیلوں کے دفاتر میں تعینات عملہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ( جاری)

جواب دیں

Back to top button