مردہ اقدار کا نوحہ

تحریر۔۔۔ رفیع صحرائی
وقت کتنی تیزی سے بدل جاتا ہے اس کا صحیح ادراک 80ء کی دہائی اور اس سے پہلے پیدا ہونے والوں کو ہے۔ 1990ء یا اس سے پہلے فوت ہو جانے والوں کو اگر دنیا میں دوبارہ آنے کا موقع مل جائے تو وہ بے پناہ سائنسی، معاشی، معاشرتی اور تعمیراتی انقلاب دیکھ کر حیرت سے پھر مر جائیں گے۔ 1990ء کے بعد زندگی کے تمام شعبوں میں جس قدر تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں انہوں نے بلاشبہ دنیا کو جہانِ حیرت بنا دیا ہے۔ سادگی کی جگہ مصنوعی رکھ رکھائو اور بناوٹ نے لے لی ہے۔ خلوص کی جگہ خودغرضی کا دور دورہ ہے۔ پیسہ پھینک تماشا دیکھ کے چلن نے مروت اور پیار و محبت کو ماضی کا قصہ بنا دیا ہے۔
کتنی سادہ زندگی ہوتی تھی۔ تصنّع اور بناوٹ کا نام و نشان نہ تھا۔ خاص طور پر دیہات میں فضا صاف ستھری، ہوا تروتازہ، خوراک خالص اور لوگ سچے اور سُچے ہوتے تھے۔ سب کے دکھ سُکھ سانجھے ہوتے۔ اگر گائوں میں کوئی فوت ہو جاتا تو ہر گھر میں سوگ کی کیفیت ہوتی۔ جب تک میّت گھر سے اٹھائی نہ جاتی گاں کے کسی گھر سے دھواں نہ نکلتا، یعنی کسی گھر میں آگ نہ جلائی جاتی۔ سارا گائوں گھر والوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے بھوکا رہتا۔ پورے سات دن تک فوتیدگی والے گھر میں کھانا نہیں پکتا تھا۔ گائوں والے ذمہ داری کے ساتھ گھر والوں اور مہمانوں کے لیے کھانا پہنچا دیا کرتے تھے۔
ہمارے دیہات کی ایک اور خوبصورت روایت جو وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ ختم ہو گئی۔ جب بھی کسی گھر میں شادی ہوتی تھی تو مسجد میں اعلان ہو جاتا تھا یا نائی کے ذریعے گھر گھر اطلاع دے دی جاتی تھی کہ فلاں کے بیٹے یا بیٹی کی شادی ہے۔ منجی اور بسترے ان کے ہاں پہنچا دو۔ نوجوان لڑکے مل کر تقریباً سارے گائوں سے موسم کے مطابق منجیاں بسترے، سرہانے، رضائیاں، گدّے، چادریں، کھیس، اور دیگر لوازمات شادی والے گھر پہنچا دیتے تھے۔ ہر چارپائی اور بسترے کے کونے پر موٹے مارکر سے اس طرح کے نام لکھے ہوتے تھے۔ چاچا فضل دین بوڑھ والا، بابا مہنّا فیروز پوریا، حسن ڈیرے دار، شیدا لمبڑاں دا، بھولا خراس والا، گاما پہلوان۔ جن گھروں میں ذرا عورتوں کا ٹوہر ٹہکا ہوتا ان کے منجی بسترے پر دبنگ بی بی کا نام لکھا جاتا۔ شیماں جٹی، شریفاں بڑبولی، فیجاں حاجن، ماسی کَوڑی، مائی ٹھری وغیرہ۔
یہ منجیاں بسترے اس لیے اکٹھے کیے جاتے تھے کہ مامے ماسیاں، چاچے، پھوپھیاں اور دورو نزدیک کے رشتے دار ’’ میل ‘‘ کی صورت میں دو، دو ہفتے پہلے ہی مع اہل و عیال شادی والے گھر ڈیرے ڈال لیتے تھے۔ خوب کھابے اور حلوے مانڈے چلتے۔ شادی کے موقع پر لڑائیاں جھگڑے اور رنجشیں بھول کر سب کو منا لیا جاتا تھا۔ ذرا اڑی پھڑی کرنے والے کو برادری کے دو چار سیانے بابے جاتے اور روٹھے کو منا لیتے۔
’’ چل اٹھ اوئے بھلیا! آج ہمیں خالی نہ موڑنا، ہم تمہیں لے کر ہی جائیں گے۔ دیکھو ہمارا مان نہ توڑنا‘‘۔
اور پھر مان رکھ لیے جاتے تھے۔ اب تو سگے بہن بھائی بھی مان نہیں رکھتے۔
گائوں کے سب امیر غریب اپنی بھینسوں اور گائے کا ایک وقت کا دودھ بالٹی یا ولٹوئی بھر کے اور کافی سارا دہی، گھی اور مکھن شادی والے گھر پہنچا دیتے تھے۔ ساتھ یہ بھی کہا جاتا کہ ’’ کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو ضرور بتانا‘‘۔
بات تھی احساس کی اور قدردانی کی۔ خلوص اور گہری محبت کی کہ دولہا یا دولہن کا باپ اپنے آپ کو اکیلا اور بے بس محسوس نہ کرے۔ لیکن اب گندا شریکا اور دل جلے رشتے دار دور کھڑے تالیاں بجا کر تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے کہ خود پر یہ وقت نہیں آنا۔
بڑا خوش حال وقت تھا۔ سب ایک دوسرے کو برداشت کرتے تھے۔ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ گاں، دیہات میں بگاڑ تب پیدا ہوا جب چکڑ چودھریوں نے خود کو پھنّے خاں اور دوسروں کو سر عام ’’ کمی کمین‘‘ اور نیچ و حقیر سمجھنا اور کہنا شروع کر دیا۔ پھر کمّیوں اور ماڑے لوگوں نے بھی ان چودھریوں کے مقابلے میں اپنے جھولی چُک چودھری بنا لیے تو گاں بھی اجڑ گئے اور ہماری ریتیں روایتیں بھی فنا ہو گئیں۔ اب شادی سے ہفتہ دو ہفتے پہلے شادی والے گھر میں جانے کا رواج رہا ہے نہ کسی کے پاس اتنا وقت ہے۔ دوسری طرف مہمان نوازی بھی بوجھ بن گئی ہے۔ شادی کے موقع پر ہر چیز ریڈی میڈ تیار مل جاتی ہے۔ مہندی کی رسم شادی ہال میں۔ بارات بھی سیدھی شادی ہال میں اور رخصتی بھی وہیں سے۔ ہمسایوں کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ پڑوس کے گھر میں شادی ہے۔ ولیمہ بھی شادی ہال میں ہوتا ہے۔ پکوائی کے جھنجھٹ سے نجات مل گئی ہے۔ مینیو کا انتخاب کیجئے۔ فی کس کھانے کا معاوضہ طے کیجئے اور مہمانوں کے ساتھ ہی مہمانوں کی طرح آ جائیے۔ سہولت ہی سہولت مل گئی ہے مگر پیار، محبت اور خلوص ہم کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔
ہماری دیہاتی تاریخ میں پورا گائوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شامل ہوتا تھا۔ پورے گائوں کا ایک چودھری ہوتا تھا اور وہ سب کا خیال بھی رکھتا تھا۔ تمام چھوٹے بڑے فیصلے گائوں کی پرھیا پنجایت میں ہی انصاف کے ساتھ نمٹا لیے جاتے تھے۔ اب ایک پنڈ یا گلی میں 20، 20 ودھری اور آکڑ خان ہیں بلکہ ہر اینٹ کے اوپر دس، دس چودھری بیٹھے ہیں۔ یہی سب بگاڑ کی جڑ ہے۔ سربراہ گھر کا ہو، گائوں کا یا ملک کا، ایک اور نیک ہی اچھا لگتا ہے۔
کاش وہ بیتے دن واپس آ جائیں۔ کاش وہ روٹھنے اور منانے کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ اس تیز رفتار ترقی نے ہم سے ہماری تہذیب، کلچر، رسم و رواج حتیٰ کہ شناخت تک چھین لی ہے۔