اسلام آباد: رینجرز اہلکاروں کی شہادت کا افسوس ناک واقعہ
احتجاج اور دھرنوں کی سیاست سے ملک و قوم کو ناقابل نقصانات پہنچتے ہیں، لیکن افسوس پچھلے چند سال سے ان سلسلوں کو تیزی سے رواج دیا جارہا ہے، جس کے منفی اثرات سے بچنا کسی طور ممکن نہیں۔ ہر سیاسی حلقے کو اپنے مطالبات کے لیے پُرامن احتجاج کا حق حاصل ہے اور کوئی اس حق کو سلب نہیں کر سکتا۔ احتجاج کے لیے ایسی راہ اختیار کی جانی چاہیے کہ جس سے ملک کا نظام چلتا رہے، معیشت کا پہیہ گھومتا رہے، عوام کی زندگیاں متاثر نہ ہوں، سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچے، لیکن افسوس ایسے احتجاج یہاں ڈھونڈے سے بھی دِکھائی نہیں دیتے۔ ماضی میں سیاست میں اخلاقیات، ادب، برداشت، دانش، بردباری ایسی خصوصیات دِکھائی دیتی تھیں، لیکن پچھلے 10سال کے اندر ان خصوصیات کو لپیٹ کر طاق نسیاں میں رکھتے ہوئے بعض سیاسی حلقوں نے وہ دھماچوکڑی مچائی ہے کہ الامان والحفیظ۔ دوسروں کی پگڑیاں اُچھالنا اُن کا وتیرہ ہے۔ بداخلاقی، بدتہذیبی اور بدزبانی کی روش اختیار کرلی گئی ہے۔ مخالف خواتین تک سے متعلق انتہائی نازیبا گفتگو کی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا پر پوری کرلی جاتی ہے، جہاں تہذیب و اخلاقیات کے جنازے اُٹھتے نظر آتے ہیں۔ سیاست میں برداشت کا عنصر تو بالکل ہی ناپید ہوکر رہ گیا ہے۔ اگر کوئی کسی کیس میں گرفتار ہے تو اس کا فیصلہ کرنے کے لیے ہماری عدالتیں موجود ہیں، لیکن بعض حلقے سڑکوں اور چوراہوں پر فیصلے کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں۔ ہر ایک اپنے فعل کا ذمے دار ہے اور اس کو اس کا جواب دہ ہر صورت ہونا پڑے گا۔ گزشتہ روز احتجاج کے دوران اسلام آباد میں جو کچھ ہوا، وہ ملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب بن کر رہ گیا ہے۔ محافظوں کو بے دردی کی ساتھ گاڑیوں تلے کچل کر شہید کیا گیا۔ اس واقعے پر پوری قوم اُداس اور اشک بار ہے۔ اسلام آباد میں سری نگر ہائی وے پر شرپسندوں نے رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھادی، جس کے نتیجے میں 3اہلکار شہید ہوگئے، جس کے بعد وفاقی دارالحکومت میں پاک فوج کو طلب کرلیا گیا اور شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیے گئے تھے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق شرپسندوں کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں اہلکار شہید ہوئے، ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں سری نگر ہائی وے پر شرپسندوں نے
ڈیوٹی پر موجود رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دی۔ حادثے کے نتیجے میں 3رینجرز اور ایک پولیس اہلکار زخمی بھی ہوا، جنہیں اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ گزشتہ روز ہی شہید اہلکاروں کی نماز جنازہ چکلالہ گیریژن میں ادا کی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق نماز جنازہ میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔ شہدا کی میتیں ان کے آبائی علاقوں کو بھجوادی گئی ہیں، پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے گا۔ شہدا میں نائیک محمد رمضان، سپاہی گلفام خان اور سپاہی شاہ نواز شامل ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ تشدد کی یہ کارروائیاں قانون نافذ کرنے والوں کے برداشت کی حدود چھو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سیاسی مذموم مقاصد کے حصول کیلئے کسی افراتفری اور خونریزی کا متحمل نہیں ہوسکتا، تشدد کی یہ کارروائیاں ناقابل قبول اور انتہائی قابل مذمت ہیں اور قوم اس ہنگامہ آرائی کے دوران شہید اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ وزیراعظم ہائوس سے جاری بیان میں شہباز شریف نے کہا ہے کہ نام نہاد پُرامن احتجاج کی آڑ میں پولیس و رینجرز کے اہلکاروں پر حملے قابل مذمت ہیں۔ انہوں نے واقعے میں ملوث افراد کی فوری نشاندہی کرکے انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ حملے میں زخمی ہونے والے رینجرز و پولیس اہلکاروں کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی اور شہید اہلکاروں کی بلندی درجات اور اہل خانہ کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔ انہوں نے کہا کہ انتشاری ٹولہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دانستہ طور پر نشانہ بنا رہا ہے، انتشاری ٹولے کے ہاتھوں سیکیورٹی اہلکاروں کے خاندانوں کی زندگیاں تباہ کر دی گئیں،یہ پُرامن احتجاج نہیں، شدت پسندی ہے۔ احتجاج کے دوران رینجرز اہلکاروں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کرنا انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس واقعے میں ملوث ہر ایک مذموم فرد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ان کو کسی طور بخشا نہ جائے۔ وزیراعظم کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ ایسی کارروائیاں کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہو سکتیں۔ یہ ہر لحاظ سے قابل مذمت قرار پاتی ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد میں ہونے والی افراتفری، ہنگاموں، شرپسندیوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قابو پالیا ہے۔ امن و امان کی صورت حال کنٹرول میں آگئی ہے۔ آج ( جمعرات) سے تعلیمی ادارے کھل جائیں گے۔ لیکن اس دوران ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ سیاست خدمت کا نام ہے۔ کسی بھی سیاسی حلقے کو اس کی ہرگز اجازت نہیں کہ وہ امن و امان کے درپے ہوجائے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ اس طرح کے اقدامات ملک و قوم دشمنی کے زمرے میں آتے ہیں۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ایسی کوششوں سے گریز کیا جائے، جس سے شر پھوٹتا ہو، امن و امان متاثر ہوتا ہو۔
دُنیا میں ہر 10منٹ میں ایک خاتون کا اپنوں کے ہاتھوں قتل کا انکشاف
چند روز قبل پاکستان سمیت دُنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ دُنیا بھر کے معاشروں میں خواتین کو مصائب و مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اُن کے استحصال کے سلسلے دراز نظر آتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کی بات کی جائے تو شہری علاقوں میں پھر بھی حالات بہتر نظر آتے ہیں، لیکن دیہی سماج میں خواتین کے بدترین استحصال کے سلسلے ہیں، خواتین کو پیروں کی جوتی سمجھا جاتا ہے، اُن کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی جاتی، اُن پر تعلیم کے دروازے مسدود کردیے جاتے ہیں، اُن کو جائیداد میں سے حصّہ نہیں دیا جاتا۔ ہمارے معاشرے میں غیرت اور دیگر وجوہ کی بناء پر خواتین کے قتل کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ہر سال سیکڑوں خواتین ان واقعات کی بھینٹ چڑھتی ہیں، لیکن خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ دُنیا بھر میں ہر دس منٹ میں ایک خاتون کو اپنے ہی موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دُنیا بھر میں ہر 10منٹ میں ایک عورت شریکِ حیات، بوائے فرینڈ یا پھر اپنے کسی رشتے دار کے ہاتھوں قتل کردی جاتی ہے۔ 107ممالک کے دستیاب اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ خواتین پر تشدد کے خلاف 25 ویں عالمی دن پر یو این ویمن اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کی جانب سے مشترکہ طور پر جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دُنیا بھر میں خواتین کے قتل کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، 2023ء کے دوران ہر دس منٹ میں ایک عورت کو اپنے کسی ساتھی، شریکِ حیات یا پھر کسی نہ کسی رشتے دار کے ہاتھوں جان سے جانا پڑا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال تقریباً 85ہزار خواتین کو قتل کیا گیا، اس اعداد و شمار میں تقریباً 60فیصد یا 51ہزار سے زائد عورتیں اپنے ساتھی یا پھر کسی نہ کسی رشتے دار کے ہاتھوں قتل کی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق دُنیا بھر میں عورتوں کے قتل کی شرح روزانہ اوسطاً 140 ہے، جہاں گھر میں لڑکیوں اور خواتین کو قتل کیے جانے کا خطرہ سب سے زیادہ موجود ہے۔ یہ حقائق تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکر بھی ہیں۔ کسی سے حقِ زیست چھین لینا کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس قسم کے واقعات کے تدارک کے لیے دُنیا بھر کی حکومتوں اور باشعور لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہر ایک کو جینے کا حق ہے۔ تمام ممالک کو ان واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قوانین وضع کرنے چاہئیں۔ خواتین کو اُن کے حقوق کی فراہمی کے لیے سب اپنا کردار ادا کریں۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کاوشیں عمل میں لائی جائیں۔