ترقی کےدشمن ہمیشہ ناکام رہیں گے

پاکستان پچھلے 6سال کے دوران انتہائی نامساعد حالات سے گزرا ہے۔ غریب عوام کو بے پناہ مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوش رُبا گرانی نے اُن کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا۔ ترقی کا سفر تھم سا گیا۔ صنعتوں کو بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑے بڑے اداروں نے اپنے آپریشنز کو محدود کیا۔ پاکستان میں بے روزگاری کا بدترین طوفان آیا۔ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے، لیکن اُس نے مختصر وقت میں عظیم کارنامے سرانجام دئیے ہیں۔ بہت سے ممالک کو پاکستان میں بڑی سرمایہ کاریوں پر رضامند کیا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کے کردار کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ وہ اب بھی ملک و قوم کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ترقی اور خوش حالی تب ہی مقدر بن سکتی ہے جب اس کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں، لیکن افسوس ملک میں ترقی اور خوش حالی کے سفر کو بریک لگانے کے لیے کچھ عناصر اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ ملک میں اگلے ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہونے جارہا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اس اہم موقع پر ملک میں انتشار کی فضا کو جنم دینے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ ملک میں امن دشمنی کے لیے تمام منفی حربے آزمائے جارہے ہیں۔ قوم ایسے عناصر کو بخوبی پہچانتی اور ان کا بھرپور ردّ کرتی ہے۔ اسی حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت مثبت سمت میں گامزن ہے، قوم سے وعدہ ہے کہ کسی کو 2014ء کی تاریخ دہرا کر ملکی معیشت کو نقصان نہیں پہنچانے دیں گے، چین کے وزیراعظم دو طرفہ دورے پر پاکستان آرہے ہیں، سعودی عرب سے وفد آرہا ہے، جہاں 2ارب ڈالر کے معاہدے متوقع ہیں، ان خیالات کا اظہار وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ روز کراچی میں دہشت گردوں کے حملوں میں 2چینی انجینئر ہلاک جبکہ ایک زخمی ہوا۔ بشام کے بعد یہ دوسرا افسوس ناک واقعہ تھا۔ بشام واقعہ کے بعد چین کی جانب سے ان کے شہریوں کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کرنے کی استدعا کی گئی۔ دورۂ چین کے دوران انہیں اس حوالے سے ٹھوس یقین دہانی کرائی، تاہم بدقسمتی سے گزشتہ روز یہ واقعہ پیش آیا۔ پاکستانی عوام اور حکومت اس واقعے پر چینی عوام اور قیادت سے افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ تمام تر کاوشوں کے باوجود یہ واقعہ رونما ہوا، جس پر افسوس ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم معاملات کو یہیں پر چھوڑ دیں، ہمارا عزم پہلے سے بلند ہے۔ سیکیورٹی کو مزید فعال بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس ہونے جارہا ہے، اس کے لیے ہر ممکنہ حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے سیکیورٹی پر جامع میٹنگ ہوئی، اس ساری صورت حال سے بھی چینی سفیر کو آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ماضی کی طرح ایک بار پھر آئی ایم ایف پروگرام میں ہماری بھرپور معاونت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک جانب ملک میں دھرنے جاری ہیں او ر دوسری جانب ابھی ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے پاکستان کا کامیاب دورہ کیا۔ ان سے مثبت بات چیت ہوئی، حلال گوشت اور چاول کی برآمد کے حوالے سے بات ہوئی۔ دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بات چیت ہوئی۔ چین کے وزیراعظم کے متوقع دورے اور طویل عرصہ بعد پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر چینی باشندوں کو ہدف بنانا جس کی ذمے داری بی ایل اے نے قبول کی ہے ، افسوسناک ہے۔ وفاق کے اوپر چڑھائی کی دھمکیاں اور دشنام طرازی جیسی افسوس ناک گفتگو کی جارہی ہے۔ اس طرح کے واقعات ہمیں دوبارہ 2014ء کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ اُس وقت چینی صدر کا پاکستان کا دورہ تھا، اس کے باوجود تحریک انصاف اور اس کی قیادت نے اس کا ادراک نہیں کیا کہ اس دورے کے ملتوی ہونے سے کتنا نقصان ہو گا۔ اس سے پاکستان کی معیشت اور ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ حکومت پاکستان کی پوری کوشش کے باوجود یہ دھرنا موخر نہیں کیا گیا۔ قوم کو اس سازش کا علم ہونا چاہیے کہ کس طرح ملک کی جڑیں کھوکھلی کی گئیں۔ آج ایک بار پھر اسی تاریخ کو دہرایا جارہا ہے۔ اسلام آباد پر چڑھائی کی جارہی ہے، یہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے ناپاک عزائم ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ خزانہ ٹیم کی شاندار کاوشوں اور ٹیم ورک سے آئی ایم ایف کا پروگرام منظور ہوچکا ہے۔ مہنگائی کی شرح ایک سال میں 32فیصد سے کم ہو کر 6.9فیصد پر آچکی ہے۔ برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے۔ آئی ٹی برآمدات بڑھی ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ایک جتھے کو پاکستان کی ترقی اور غریب کی سنورتی حالت منظور نہیں۔ انہیں علم ہے کہ اگر معیشت سنبھل گئی اور ملک اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا تو پھر ہمیں کون پوچھے گا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ احتجاج میں ایک پولیس کانسٹیبل شہید ہوا۔ جہاں افراتفری کا ماحول ہوگا، دھرنے دئیے جائیں تو وہاں کون سرمایہ کاری کرے گا۔ سرمایہ کاری وہیں ہوتی ہے جہاں حالات پرسکون ہوں اور امن ہو۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں وفاق پر چڑھائی کی کارروائیاں کی جارہی ہیں ، ان کے ہمراہ افغان شہری اور پولیس کے اہلکار اور سرکاری ملازمین موجود تھے جہاں سے فائرنگ کی گئی۔ ملک کی معیشت کی بہتری کے راستے میں ایک منظم سازش سے رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ اس سے بڑی ملک دشمنی اور زیادتی کوئی نہیں ہوسکتی۔ وزیراعظم کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ ترقی کے دشمن چاہے ایڑی چوٹی کا زور لگالیں، وہ اب کسی طور کامیاب نہیں ہوسکتے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ان شاء اللہ کامیابی سے وطن عزیز میں منعقد ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ملک و قوم ترقی اور خوش حالی کے سفر پر تیزی کے ساتھ گامزن ہوں گے۔ ترقی دشمن عناصر کے ہاتھ ناکامی اور نامُرادی ہی آئے گی۔
پولیو کو ہر صورت شکست دی جائے
دُنیا بھر سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے، لیکن افسوس پاکستان دُنیا کے اُن چند ممالک میں سے ایک ہے، جہاں پولیو وائرس آج بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔ یہ وائرس سالہا سال سے ہمارے اطفال کو عمر بھر کی معذوری سے دوچار کرتا چلا آرہا ہے۔ کتنے ہی بچے اس وائرس کی زد میں آکر اپاہج ہوچکے ہیں، کوئی شمار نہیں۔ اس کے تدارک کے لیے ہر عرصے بعد انسداد پولیو مہم شروع کی جاتی ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ پولیو کے خاتمے کے لیے یہ مشقیں پچھلے کافی سال سے جاری ہیں۔ گو ان کے نتیجے میں پولیو وائرس کے کیسز میں خاطرخواہ کمی ضرور آئی ہے، لیکن اس کو مکمل شکست نہیں دی جا سکی ہے۔ پولیو وائرس کے باعث وطن عزیز کو دُنیا بھر میں جگ ہنسائی کا سامنا رہتا ہے۔ بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کو اس حوالے سے پابندیوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔ امسال ہر کچھ عرصے بعد ملک کے کسی نہ کسی گوشے سے کسی بچے کے پولیو میں مبتلا ہونے کی اطلاعات تسلسل سے سامنے آرہی ہیں۔ گزشتہ روز مزید 4پولیو کیسز سامنے آئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں پولیو وائرس کے مزید 4کیس سامنے آگئے، جن میں سے 3نئے کیس سندھ کے ضلع جیکب آباد، کراچی کے ضلع ملیر اور ایک کیس ڈیرہ اسماعیل خان میں سامنے آیا ہے، جیکب آباد کی تحصیل ٹھل میں 32مہینے کی بچی اور 18مہینے کا بچہ پولیو وائرس سے متاثر ہوا۔ ملیر کی تحصیل بن قاسم میں 72مہینے کا بچہ پولیو سے متاثر ہوا ہے جب کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں 22 مہینے کا بچہ پولیو وائرس کا شکار ہوگیا، جس کے بعد ملک میں رواں سال پولیو سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد 32 ہوگئی۔ پاکستانی حکام اور بین الاقوامی ماہرین نے اکتوبر میں مزید کئی بچوں کے پولیو سے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں سال کے آخر تک پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 55سے 65تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یہ امر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکر ہے۔ مسلسل پولیو مہمات چل رہی ہیں۔ پولیو ورکرز اس وائرس کے خلاف برسرپیکار اور فرائض کی انجام دہی کررہے ہیں۔ بعض والدین کی جانب سے بھی اپنے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے نہ پلانے کی اطلاعات ہیں۔ ماضی میں پولیو وائرس سے بچائو کی ویکسین سے متعلق جھوٹے پروپیگنڈے گھڑے جاتے تھے۔ اسے اطفال کے لیے نقصان دہ ٹھہرایا جاتا تھا۔ ڈیڑھ دو عشرے قبل پولیو ٹیموں اور ان کی سیکیورٹی پر مامور عملے پر بھی حملے ہوتے تھے۔ ان واقعات میں متعدد لوگ شہید ہوئے، لیکن پاکستان نے پولیو کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھی، جس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے۔ اب ضروری ہے کہ پولیو کو مکمل شکست دینے کے لیے قدم اُٹھائے جائیں۔ پولیو وائرس کے خلاف جنگ میں ہر صورت کامیابی کے لیے میڈیا اور تمام مکاتب فکر کے افراد اپنا کردار ادا کریں۔ اس حوالے سے آگہی کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ تمام والدین اپنے پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے لازمی پلوائیں۔ پولیو مہمات کو ہر صورت کامیابی سے ہمکنار کیا جائے تو ان شاء اللہ جلد وطن عزیز بھی پولیو کو شکست دینے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔