پاکستانیوں کی محسن ڈاکٹر رتھ فائو

ایم فاروق قمر
شیکسپیئر نے کہا تھا، ’’ کچھ لوگ اپنے کاموں سے خود کو عظیم بنا لیتے ہیں‘‘۔
ایسی ہی ایک عظیم انسان ڈاکٹر رتھ فائو ہیں ۔
ان کا پورا نام ڈاکٹر رتھ کیتھرینا مارتھا فائو المعروف رتھ فائو ایک جرمن ڈاکٹر، سرجن اور سوسائٹی آف ڈاکٹرز آف دی ہارٹ آئو میری نامی تنظیم کی رکن تھیں۔ انہوں نے 1962ء سے اپنی زندگی پاکستان میں کوڑھیوں کے علاج کے لیے وقف کی ہوئی تھی۔ 1996ء میں عالمی ادارے صحت نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کو قابو میں قرار دے دیا۔ پاکستان اس ضمن میں ایشیا کے اولین ملکوں میں سے تھا۔
ڈاکٹر رتھ فائو9ستمبر1929ء کو جرمنی کے شہر لیپازگ میں پیدا ہوئی تھیں۔
پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انھوں نے پاکستان کے علاوہ جرمنی سے بھی بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی کئی ہسپتالوں میں لیپرسی ٹریٹمنٹ سینٹر قائم کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیشنل لیپرسی کنٹرول پروگرام ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ پاکستانی مدر ٹریسا کہلانے والی ڈاکٹر روتھ فأ نے زندگی کے 57سال پاکستان کی خدمت میں گزارے، رہبانیت کی پیروکار ڈاکٹر روتھ فائو 1960ء میں پاکستان آئیں ، کراچی کے مضافات میں گداگر بستیوں سے انہوں نے کوڑھ کے مریضوںکا علاج شروع کیا۔ جھونپڑی میں قائم کردہ مطب کو بعد ازاں میری ایڈلیڈ لپروسی سینٹر میں تبدیل کر دیا گیا۔ ڈاکٹر روتھ فائو اپنے آخری وقت تک لپروسی سینٹر کی بالائی منزل پر واقع دو کمروں کی رہائش گاہ میں مقیم رہیں۔
وہ علالت کے باوجود بھی اپنا بیشتر وقت مریضوں کے ساتھ گزارتی تھیں۔ جذام کے خاتمے کے بعد لپروسی سینٹر میں ٹی بی اور آنکھوں کے امراض کا علاج شروع کر دیا گیا۔
کوڑھ کے مریضوں کے غم نے اسے پاکستان سے جانے نہ دیا۔
ایسے مریض جنہیں ان کے اپنے چھوڑ چکے تھے، انکے جسم کے کیڑے کون چنتا اس لئے وہ یہاں رہ گئی۔ ڈاکٹر روتھ فائو نے پاکستان کی شمالی علاقوں سمیت جذام سے متاثرہ تمام جگہوں کے دورے کئے ان کی بے مثال کوششوں کے باعث پاکستان نے WHOکے مقرر کردہ ہدف (2000)سے چار سال پہلے 1996ء میں جذام پر قابو پالیا۔
ڈاکٹر روتھ فائو کے ساتھی یاد کرتے ہیں کہ ایک بار کسی نے ان سے کہا کہ آپ نے جذام کے خاتمے کے لیے اتنا کام کیا لیکن آپ کو بہت زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ تو روتھ فائو نے جواب دیا کہ میں وہاں کام کرتی ہوں جہاں کوئی نہیں جاتا اسی لیے مجھے زیادہ لوگ نہیں جانتے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان سے جذام کے خاتمے کا سہرا ڈاکٹر روتھ فائو کے ہی سر ہے۔ انہوں نے زندگی کی پانچ دہائیاں پاکستان میں جذام کے خاتمے کی جنگ لڑتے ہوئے گزار دیں۔ ڈاکٹر فائو کہا کرتی تھیں کہ اُن کی پیدائش کا ملک بے شک جرمنی ہے لیکن دل کا ملک پاکستان ہے اور اُن کا دل صرف پاکستان کے لیے ہی دھڑکتا ہے۔
ڈاکٹر رتھ نے پاکستان میں جذام کے 157مراکز قائم کئے۔
ڈاکٹر رتھ فائو نے 1960ء میں پاکستان میں جذام کے خاتمے کے لیے کوششوں کا آغاز کیا.ڈاکٹر رتھ فأ کی کوششوں سے پاکستان سے جذام کا خاتمہ ہوا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو جذام پر قابو پانے والا ملک قرار دیا جب کہ پاکستان ایشیا کا پہلا ملک تھا جس میں جذام پر قابو پایا گیا۔ حکومت پاکستان نے1979ء میں ڈاکٹر رتھ فأ کو جذام کے خاتمے کے لیے وفاقی مشیر بنایا اور1988ء میں ڈاکٹر روتھ فائو کو پاکستان کی شہریت دے دی گئی۔ ڈاکٹر رتھ فائو کی گراں قدر خدمات پر انہیں ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلالِ امتیاز، جناح ایوارڈ اور نشان قائداعظم سے نوازا گیا، آغا خان یونیورسٹی نے ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ سے نوازا ۔
انہیں جرمنی کے سب سے اعلیٰ اعزاز آرڈر آف دی کراس کے علاوہ میگا سسے اور دیگر بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر رتھ فائو کو جرمن حکومت نے بیم بی ایوارڈ سے بھی نوازا۔
ڈاکٹر روتھ فائو نے دس کتابیں لکھیں، وہ آخری وقت تک انسانیت کی خدمت میں مصروف رہیں۔ انہوں نے کہا:
’’ اندھیرے کو برا بھلا کہنے سے بہتر ہے ایک شمع جلائی جائے اور اسے روشن رکھیں‘‘۔ ڈاکٹر روتھ فائو نے زندگی اسی مقولے کے تحت گزاری۔
پاکستانی مدرٹریسا ڈاکٹر رتھ فائو ایک طویل عرصے سے سانس کی تکلیف اور عارضہ قلب میں مبتلا تھیں اور کراچی کے نجی اسپتال میں شدید علالت کے باعث 88سال کی عمر میں 10اگست 2017ء کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں انتقال کر گئیں اور انہیں 19اگست 2017ء کو سپرد خاک کیا گا۔ ایسے لوگ عظیم ہوتے ہیں اور ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
قوم ان کی خدمات، حب الوطنی اور وفاداری کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔