Column

ہم صرف معاشی دیوالیہ ہی نہیں ہورہے !

یاور عباس
پاکستانی قوم کواس وقت غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری کاسامنا ہے ، پے در پے حکمرانوں کی کرپشن ، اداروں کی مایوس کن کارکردگی ، ناقص حکومتی پالیسیوں اور آئی ایم ایف سے قرض پہ قرض لینے کی وجہ سے ملک معاشی دلدل میں دھنس چکا ہے ، حکومتیں منظم پالیسی کی بجائے ملک سے نہ تو کرپشن ختم کرتی ہیں نہ اشرافیہ کو دی گئی مراعات ختم کرتی ہیں بلکہ انہیں سسٹم کو مزید مضبوط کرنے کے چکر میں مزید مراعات ، تنخواہوں میں اضافے ، نئے قیمتی گاڑیاں دینے کے ساتھ بے شمار سہولتیں فراہم کر رہی ہے جس سے عوام پرمعاشی بوجھ مزید بڑھتا جاتا ہے ، سرمایہ دارطبقہ ، تعلیم یافتہ نوجوان ، ہنرمند افراد اپنا اور اپنی نسلوں کے روشن مستقبل کی خاطر تیزی سے ملک چھوڑ رہے ہیں ، جس کی وجہ سے حکومتی اخراجات کا بوجھ بھی غریب طبقہ پر برق رفتاری سے بڑھتا جارہا ہے ۔ حالات یہ ہیں کہ ایک عام مزدور جس کی سرکاری کاغذوں میں تنخواہ 32ہزار روپے گزشتہ برس مقرر تھی جو کہ اب37ہزار کی جارہی ہے مگر دیہاڑی دارمزدور اور چھوٹے کارخانوں میں کام کرنے والوں ، سیلز مین کو کبھی بھی 20سے 25ہزار سے زائد ماہانہ تنخواہ نہیں ملتی ، پرائیویٹ سکولز اور پرائیویٹ ہسپتالز کے عملہ کی صورتحال بھی یہی ہے ، ایسے افراد کوبجلی و گیس کے ماہانہ بل 10سے 15ہزار روپے آجائے تو دنیا کا کوئی قابل ترین ماہر معاشیات بھی نہیں سمجھا سکتا کہ باقی 10سے 15ہزار روپے میں ایک شخص مہینہ کیسے گزار سکتا ہے ، پاکستان کی 70فیصد غریب آبادی میں سے شاید 50فیصد لوگ کرایوں پر رہتے ہیں اور انہوںنے مکان کا کرایہ بھی اسی باقی ماندہ رقم میں سے ادا کرنا ہوتا ہے ۔ یوں ملک کے معاشی مسائل تو اپنی جگہ مگر پاکستان کا 70فیصد غریب طبقہ معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے، اس ملک میں دو ہی طبقے باقی رہ گئے ہیں ایک وہ جو ملک کو لوٹ رہے ہیں اور دوسرے وہ جو باہر جانے کی سکت نہیں رکھتے اور مجبوراً اس ملک میں مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں ۔
بجٹ 2024ء میں حکومت نے نان فائلر پر بے تحاشا پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تو فائلر اور نان فائلر کے ایشوز پر سوشل میڈیا پر بے شمار تبصرے دیکھنے کو ملے لیکن حکومت کو ایک سنجیدہ مشورہ ہے کہ بجلی و گیس کے بل میں ہر غریب سے غریب شخص لگ بھگ 15سے 20قسم کے ٹیکس دے رہا ہے ایسے ایسے ٹیکسوں کے نام رکھ دئیے ہیں جن کی وضاحت شاید خود حکومت بھی نہ کرسکتی ہو جیسے کہ مزید ٹیکس ۔ 10ہزار روپے کا بل دینے والا شخص بھی حکومت کو کم از کم 3ہزار سے زائد روپے ماہانہ ٹیکس دے رہا ہے یوں اسے فائلر تصور کیا جانا چاہیے اور اس پر کسی قسم کی پابندی کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو اپنے وقت نکال کر اپنے انتخابی جلسوں کی ویڈیوز ہی دیکھنی چاہیے جس میں انہوںنے 300یونٹ تک بجلی کے بل معاف کرنے اور بے شمار ریلیف دینے کے علاوہ لوگوں کو لاکھوں گھر بنا کر دینے کے وعدے کیے تھے اس وقت دونوں پارٹیاں حکومت میں ہیں مگر عوام کو ریلیف دینا تو دور کی بات ہے ان پر آئے روز بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے مہنگائی کے بم گرائے جارہے ہیں ۔ حکومت شاید صرف مخالفین کو دبانے میں ہی اپنی کامیابی سمجھ رہی ہے حالانکہ اصل ہدف مہنگائی ختم کرنا ، غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ کرنا اور ملک کے عام آدمی کو خوشحال بنانا ہونا چاہیے ۔ معاشرہ میں ترقی و خوشحالی سیاسی استحکام کی بناء پر ہوسکتی ہے اور سیاسی ، معاشی استحکام انصاف اور آئین کی بالادستی سے ہی ممکن ہوسکتا ہے آئی ایم ایف سے قرض لے کر ملک کی ہر چیز گروی رکھتے جانا اور پھر اداروں کی نجکاری کو ہی اپنی کامیابی سمجھ لینا کامیابی نہیں بلکہ اس سے ملکی مسائل حل نہیں ہوںگے آنے والے دنوں میں مزید بڑھیں گے ۔
مثل مشہور ہے کہ کسی نے بھوکے شخص سے پوچھا کہ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں تو اس نے فوراً جواب دیاکہ چار روٹیاں ، اور یہ بھی سنتے ہیں کہ بعض دفعہ غربت انسان کو دین اور خدا سے بھی دور کردیتی ہے ایسے معاشرہ میں لوگ یا تو خودکشیاں کرتے ہیں یا پھر پیٹ پالنے کے لیے ہر طرح کے غیر شرعی اور غیر اخلاقی کاموں سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ گزشتہ ایک دہائی سے خودکشیوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ کی رپورٹ ہی دیکھنے کو ملتی ہے مگر اب لوگ اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی شکار ہورہے ہیں، بے راہ روی بڑھ رہی ہے ، گزشتہ روز فیصل آباد میں ایک کوکا کولا کی گاڑی حادثہ کا شکار ہوئی اور اس کا ڈرائیور گاڑی چھوڑ کر فرار ہوگیا تو لوگوں نے دن دیہاڑے سرعام کیمرے کی آنکھوں کے سامنے لوٹ مار کردی ، لوگ اسے چوری یا جرم سمجھے بغیر ایسے کر رہے تھے کہ جیسے جی بھر کر بوتلیں اُٹھانا اُن کا حق ہے ، یہ ویڈیو نہ صر ف ملک بھر میں بیرون ملک بھی جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ، اتنی وائرل ہوئی کہ قوم کے اخلاقی دیوالیہ ہونے کا اعلان چیخ چیخ کر رہی تھی کچھ برس قبل جب کراچی سے آتے ہوئے ایک آئل ٹینکر کے ساتھ حادثہ پیش آیا تھا تو لوگ سڑک پر گرے ہوئے تیل سے بوتلیں بھر کر لے جارہے تھے کہ اچانک آگ لگنے سے کئی قیمتیں جانیں ضائع ہوگئیں مگر ہم نے کچھ سبق سیکھا ؟ یہ واقعہ ہمیں کیا درس دیتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں ؟ ہمارے ہاں جان و مال محفوظ ہیں ؟ بچپن سے دیکھتے ہیں کہ جب کماد سے بھری ٹرالیاں سڑکوں پر سے گزرتی تھی تو بچے اور نوجوان چلتی ٹرالیوں سے گنے کھینچا کرتے تھے اور ڈرائیور مجبور اور بے بس ہوتے سب کچھ آنکھوں سے دیکھ کر بھی خراما خراما ٹریکٹر ٹرالی چلاتے رہتے وقت گزرنے کے ساتھ حادثات بڑھتے رہے اور لوگ چلتے ہوئے ٹریکٹر ٹرالی سے گنے کھینچنا چھوڑ گئے مگر جب کبھی خراب ہوتا وہاں بھی یہی تماشا دیکھنے کو ملتا ۔
ریاست کے ذمہ داران سے سوال ہے کہ اس قوم کی اخلاقی زوال پذیری کا سبب کون ہے ؟ جس معاشرہ میں ہر سرکاری اہلکار رشوت لیے بغیر کام نہ کرے ، عدالتوں سے انصاف کا حصول مہنگا اور مشکل ہوجائے ، دکاندار عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف عمل ہوں ، اشیائے خوردونوش غیر معیاری فروخت ہونا شروع ہوجائیں ، انتظامیہ کا مقصد صرف چالان، جرمانے کرکے سرکاری خزانہ میں پیسہ بھرنا بن جائے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی بجائے اس کی جیبیں صاف کرنا شروع کردی جائیں اور پھر ایسی قوم کا مقدر کس طرح کے حاکم ہونگے یہ بات بھی ہر کوئی جانتا ہے ۔ خدارا اس ملک کو بچانے ، ترقی یافتہ بنانے کے لیے ہر شخص کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ، اس قوم کی اخلاقی تربیت کریں ریاستی ادارے بالادستی کی جنگ سے باہر نکل کر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے ، عدلیہ انصاف کے تقاضے پورے کرے تو معاشی اور سیاسی استحکام بھی پیدا ہوجائے گا۔

جواب دیں

Back to top button