حکومت سنجیدہ ہے
تجمل حسین ہاشمی
وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ چین کے دوران پہلے مرحلے میں ٹیکنالوجی کے گھر چینی شہر شینزن میں بدھ کو چین پاکستان بزنس کانفرنس کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں 32مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے تھے۔ مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخطوں کے بعد وزیر اعظم ہائوس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے نجی شعبے نے توانائی کے شعبے میں چار، آٹو موبائل کے شعبے میں دو، ثقافتی تعاون میں ایک، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز ( آئی سی ٹی) کے شعبے میں چار مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ پاکستان اور چین کے نجی شعبوں نے دوا سازی اور صحت کے شعبے میں چھ، لاجسٹکس میں چار جبکہ زراعت اور فوڈ پروسیسنگ کے شعبے میں 10مفاہمت کی یادداشتوں پر بھی دستخط کئے۔ سن 2013میں سی پیک منصوبے کو حتمی شکل دے کر اس پر کام آغاز کیا گیا تھا اور گزشتہ سال 2023میں اس منصوبے کے 10سال مکمل ہونے پر چین کے نائب وزیراعظم اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی کے سیاسی دفتر کے رکن ہی لیفنگ نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔ چین نے پاکستان میں لگ بھگ 60ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں پر کام کرنا ہے، جن میں سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ زراعت، بجلی اور پانی کے منصوبے سر فہرست ہیں، اہم مقصد چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے دوسرے مرحلے کے منصوبوں کو حتمی شکل دے کر ان پر کام کو آگے بڑھانا ہے۔ چین روانگی سے قبل ایک بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ چین کے تعاون سے گوادر بندرگاہ کو لاجسٹکس کا حب بنایا جائے گا۔ وزیر اعظم پاکستان نے بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپل میں چینی ہم منصب لی چیانگ سے ملاقات کی، جس کے دوران سی پیک منصوبے کو اپ گریڈ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ تقریب کے دوران دونوں ممالک کے درمیان ٹیلی ویژن، فلم، ٹرانسپورٹ، انفرا سٹرکچر، صنعت، توانائی، زراعت، صحت، سماجی، اقتصادی ترقی اور باہمی دلچسپی کے دیگر شعبوں میں تعاون کو مزید مضبوط بنانے کا اعادہ کیا گیا، خیال رہے کہ پاکستان کا جغرافیہ اور بحیرہ عرب کے ساتھ اس کی بندرگاہیں چین کے لیے خلیج عدن اور نہر سوئز تک زمینی راستہ فراہم کرتا ہے جو چینی بحری جہازوں کو آبنائے ملاکا میں ایک ممکنہ چوک پوائنٹ سے بچنے کا موقع دیتا ہے، ن لیگ سی پیک منصوبوں کو اپنے دورِ حکومت کی سب سے بڑی کامیابی سمجھتی ہے اور عمران خان کی حکومت پر یہ الزام عائد کرتی ہے کہ 2018ء سے شروع ہونے والے پاکستان تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں یہ منصوبوں سست روی کا شکار رہے جبکہ عمران خان ان الزامات کو رد کرتے رہے ہیں۔ خان حکومت کے دور میں پوری دنیا کرونا کی لپیٹ میں تھی۔ دنیا بھر کے معاشی حالات خراب تھے۔ پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ کرونا صورت حال میں معاشی مشکلات تھی لیکن عمران خان کے دورِ حکومت میں سی پیک منصوبوں کی سست روی کے بارے میں میڈیا رپورٹ ہیں کہ جن منصوبوں میں پاور پلانٹ اور ہائیڈرو پاور پلانٹ شامل ہیں ان پر خاصا قرضہ لگتا ہے جو پاکستان اپنی معاشی صورتحال کے پیش نظر برداشت نہیں کر سکتا اسی لیے کم قرضے والے منصوبوں کو پہلے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدے آخری مراحل میں ہیں۔ غیر ملکی مالیاتی ادارے IMFکی طرف سخت شرائط کا سامنا ہے۔ مالیاتی ادارے کی طرف سے جاری ہونے والے فنڈز پر کری نظر ہے اور لوگ اس وقت مشکلات کا شکار ہیں۔ لوگوں کو مالی حالات بہتر نہیں ہیں۔ چین پاکستان کا دوست ملک ہے۔ چین نے ہر مشکل وقت میں مالی سپورٹ کی ہے لیکن چین کی طرف سے جاری قرضوں کی ادائیگی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ملکی معیشت میں بہتری کے لیے سیاسی قیادت اور اعلیٰ ادارے بھرپور کوشش میں ہیں۔ سیاسی درجہ حرارت کو بھی کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک سب کے لیے مقدم ہے۔ ملک سے وفا کا تقاضہ ہے کہ اس وقت تمام سٹیک ہولڈرز اپنا کردار ادا کریں۔