ColumnImtiaz Aasi

آخر کیوں نہیں؟

تحریر : امتیاز عاصی
یہ مسلمہ حقیقت ہے سانحہ نو مئی ملکی تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ تھا جس میں حساس تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا ۔ ہم ماضی میں جائیں تو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ملک میں کوئی اس طرح کا سانحہ پیش آیا تو اس کا از خود نوٹس لے لیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری آئے روز پیش آنے والے سانحات پر از خود نوٹس لیا کرتے تھے۔ پی ڈی ایم کے دور میں قانونی ترمیم کے بعد از خود نوٹس لینے کا اختیار جج صاحبان کی کمیٹی کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ۔ قانون کو دیکھیں تو وفاقی حکومت کو کمیشن آف انکوائریز ایکٹ 2017کے تحت اس طرح کے واقعات پر انکوائری کمیشن بنا نے اور اس سلسلے میں Term of Referenceبنانے کا کلی اختیار حاصل ہے لیکن اتنا بڑا سانحہ رونما ہونے کے باوجود عدالت عظمیٰ اور وفاقی حکومت نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے لینا دینا نہیں ایک غیر جانبدار کالم نگار کی حیثیت سے عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے ۔ ہمارے مذہب میں سچ بولنے پر بہت ضرور دیا گیا ہے اور جھوٹ بولنے والوں کی ملامت کی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام نبی کریمؐ نے حیات مبارکہ میں سچائی کے دامن کو تھامے رکھا جس کے سبب مشرکین مکہ بھی نبی کریمؐ کو صاد ق اور امین مانتے تھے۔ اس برعکس مسلمان ہوتے ہوئے ہم نے سچائی کا دامن چھوڑ دیا ہے جس کے باعث امت مسلمہ ذلیل و خوار ہو رہی ہے ۔اگرچہ سانحہ نو مئی کا الزام ایک سیاسی جماعت اور اس کے ورکرز پر ہے اور اس ضمن میں پی ٹی آئی کے بے شمار ورکرز جیلوں میں ہیں۔یہ علیحدہ بات ہے عدالتوں نے گرفتار ورکرز میں سے بہت سوں کو ضمانت پر رہائی دے دی ہے لیکن مقدمات تو ان کے خلاف بدستور موجود ہیں جن کا آخر ایک دن فیصلہ ہونا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے آئین اور قانون میں ملزمان کو صفائی کا پورا حق دیاگیاہے تو سانحہ نو مئی کے اصل ملزمان تک پہنچنے کے لئے ایک آزادانہ عدالتی کمیشن بنانے میں کون سا امر مانع ہے؟۔ایک عام واقعہ ہوجائے اور ملزم پارٹی کی طرف سے حصول انصاف کی درخواست پر انکوائری بدل دی جاتی ہے ملک میں اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا قومی اخبارات میں
آئے روز سانحہ نو مئی بارے آزادانہ کمیشن بنانے کے مطالبات کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے حالانکہ کسی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجود ہیں ۔ ان تمام باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے ایک روز ہم سب کو ایک ایسی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں چھوٹے بڑے کا لحاظ رکھے بغیر بے لاگ فیصلے ہوں گے لہذا ہمیں اس دن کے لئے تیار رہنا چاہے ۔یہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہماری عاقبت سنوار سکتی ہے ۔حال ہی میں سنٹرل جیل راولپنڈی سے پی ٹی آئی کے گرفتار تمام ورکرز کو ضمانت پر رہائی ملی ہے اگر نو ماہ کے اندر ان کے مقدمات کی سماعت ہو جاتی تو گناہ گار اور بے گناہوں کا پتہ چل سکتا تھا۔ آزادانہ جوڈیشل کمیشن بن جاتا تو کون سی قیامت آجاتی ملزمان کے ساتھ ان کے سہولت کارو ں کا بھی علم ہوجاتا ۔بدقسمتی سے ہمارا ملک پھر سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے آئے روز غیر ملکیوں پر دہشت گردوں کے حملے اس امر کا غماز ہیں ہماری ترقی
اغیار کو کسی طور برداشت نہیں جب کہ اس کے برعکس ہم اپنے اندرونی حالات کو ٹھیک کرنے کو تیار نہیں۔ جب تک ہم اپنے اندرونی حالات کو درست نہیں کریں گے دشمن ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتا رہے گا لہذا سیاسی رہنمائوں کو اپنے اختلافات بھلا کر ملک اور عوام کی ترقی کے لئے کوئی لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ طاقتور حلقوں کو چاہیے جو سیاست دان کرپشن میں ملوث ہیں ان کے احتساب کے سلسلے میں کسی قسم کی رو رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک آنکھ سے دیکھا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ملک میں ایک عجیب تماشا لگا ہوا ہے ایک حکومت کسی سیاست دان کے خلاف کرپشن کا مقدمہ بناتی ہے تو اس حکومت کے دور میں ایسے مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے۔ جب حکومت ختم ہو جاتی ہے تو نئی حکومت جس کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات ہوتے ہیں وہ یا قوانین میں من پسند ترامیم کر لیتے ہیں یا عدالتوں سے مقدمات ختم کرا لیتے ہیں۔ سوال ہے کسی کے خلاف بے بنیاد مقدمہ بنایا گیا ہو تو اس ادارے کے سربراہ کے خلاف کاررواءی کیوں نہیں ہوتی؟ سیاست دانوں نے عوام کو بیوقوف بنا رکھا ہے کرپشن کرنے والے عدالتوں میں جاتے ہوئے وکٹری کا نشان بناتے ہیں جیسے انہوں نے کوئی معرکہ سر کر لیا ہو حالانکہ ان کی نظریں شرم کے مارے جھکی ہونی چاہئیں۔ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان اور بہت سے دیگر سیاسی رہنمائوں کے خلاف بے شمار مقدمات قائم کئے گئے ہیں جو عدالتوں سے آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔ ہم کیسے ملک میں رہ رہے ہیں بیرونی دنیا ہمارا مذاق اڑاتی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے سیاسی جماعتیں طاقت ور حلقوں کی دم چھلا نہ بنیں تو ملک میں شفاف انتخابات کے ساتھ جمہوری ماحول بن سکتا ہے۔ یہاں تو بعض سیاست دان اقتدار کی خاطر اپنے ضمیر بیچ دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی بے شمار خواتین جیلوں میں ہیں حالانکہ عام طور پر اعلیٰ عدالتیں خواتین بارے نرم گوشہ رکھتی ہیں اور انہیں چند ماہ بعد ضمانت دے دیتی ہیں لیکن پی ٹی آئی کی خواتین کے سلسلے میں عدلیہ نے نرم گوشہ رکھنے کی بجائے سخت رویہ اختیار کر رکھا ہے جو آزاد عدلیہ کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ ملک میں جمہوریت تبھی پروان چڑھ سکتی ہے جب تمام سیاسی جماعتوں سے یکساں سلوک کیا جائے ورنہ موجودہ ماحول برقرار رہا تو نہ جمہوریت اور نہ عدلیہ آزادانہ فیصلے کر سکے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button