Column

تنوع میں اتحاد اور ہم

تحریر : محمد قاسم آصف جامی
تنوع میں اتحاد سے مراد یہ ہے کہ ہم مختلف رنگ، زبان، نسل، مذہب، قوم، عقیدے، تصور اور وجود رکھتے ہوئے بھی خوش اسلوبی اور اتفاق سے پُر امن طریقے سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ یعنی مختلف چیزوں کے مظاہر و عوامل کے مختلف ہونے کے باوجود بھی مسلمات اور اتفاقات کی روشنی میں ہم ایک مثالی اور عمدہ اتفاقِ رائے اور باہمی احترام سے دوسروں کے عقائد و نظریات اور آراء و تصورات کو قدر کی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں، پھر وہ معاملات چاہے مذہبی و مسلکی ہوں، سیاسی یا لسانی ہوں یا پھر قومی و بین الاقوامی۔
یہی تنوع معاشرے کا حُسن بھی ہے اور فطرت کا ایک حسین ترین مظہر بھی۔ اسی مختلف ہونے کی حقیقت کو تسلیم کرنا دراصل امن، رواداری کے فروغ اور باہمی قبولیت کو تسلیم کرنا زندہ معاشرے کے لئے ہوا اور پانی کی طرح ہی ضروری ہے۔تنوع یعنی مختلف ہونا اس وقت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ رونما ہوتا ہے جب سارے رنگوں کے پھول مل کر ایک گلدستے میں نظر آئیں اور یہ تنوع نہ صرف فطرت اور قدرت کے مظاہر کے حقائق میں سے ہے بلکہ دینِ اسلام بھی اس حوالے سے مستند اور واضح تعلیم دیتا نظر آتا ہے۔
مثلاً لاریب کتابِ باری تعالیٰ میں ارشاد ہے کہ: ’’ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق بھی ہے اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ( انہی نشانیوں میں سے) ہے، بے شک اس میں اہلِ علم کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔ ( الروم:22) لیکن اس اختلاف کے باوجود قرآن یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ ’’ فرقوں میں کہ بٹو اور باہم متحد رہو‘‘ ( آل عمران::103) یونہی ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ ’’ اور اگر تمہارا رب چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بناتا‘‘ ( سورہ ھود: 118)۔ یونہی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسوہ سے بھی اس تنوع اور اتحاد کی بے نظیر و باکمال مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
اگر ہم مظاہرِ قدرت کا جائزہ لیں تو بخوبی اس امر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قدرت کی خوبصورتی اور رنگا رنگی کی بنیاد بھی تنوع پر ہی ہے۔ زمین پر بکھرے پتھر ہوں یا جنگلی حیات، مختلف شکل و شباہت والی دیگر مخلوقات ہوں یا پھر رنگ و زبان کے اعتبار مختلف انسانوں کے قبائل، یہ سب مختلف وجود، شناخت اور اہمیت رکھتے ہیں۔ اور یہ تنوع صرف ان اشیاء میں ہی نہیں بلکہ ہمارے ہی آباء و اجداد بھی ہم سے مختلف ہوتے ہیں۔ بچے اپنے والدین سے مختلف نظر آتے ہیں اور ایک ہی بطن سے پیدا ہونے والے چار بہن بھائی بھی اپنی شکل، آواز، رنگ، وجود، ہئیت، پسند اور نظریات میں دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں اس لیے کہ یہ تنوع اور مختلف ہونا ایک لازمی اور یقینی حقیقت ہے۔ حتیٰ کہ میں اِس وقت جس درخت کے سائے تلے بیٹھ کر یہ تحریر سپردِ قلم کر رہا ہوں اس کے پتوں کی بناوٹ اور سائز بھی ایک سا نہیں۔ یہ تنوع انسانیت کے لئے مسئلہ نہیں بلکہ قدرت کا تحفہ ہے جسے ہم اخوت، قبولیت اور تکثیریت کی بناء پر ایک خوبصورت اور ماڈل معاشرے کی صورت میں ڈھال سکتے ہیں۔
اسی تنوع کی اہمیت کو معاشرے میں پیوست کرنے، اتحاد کے فلسفے کو طلبہ کے لئے آسان بنانے اور آگہی و شعور دلانے کے لیے ہمارے نہایت محترم و مکرم استاذ پروفیسر ڈاکٹر محمد شہباز منج صاحب نے Unity in Diversityکے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ کانفرنس اپنے موضوع اور قومی و بین الاقوامی سپیکرز کی بناء پر جاذبیت اور مقناطیسی صلاحیت رکھتی تھی جس وجہ سے دوسرے شہروں سے بھی صاحبان و تشنگانِ علم گزشتہ روز پنجاب یونیورسٹی کے الرازی ہال پہنچ آئے۔
چار قومی و بین الاقوامی آرگنائزیشنز کے اشتراک سے یہ بزم سجی اور تنوع کی عمدہ مثال پیش کرتے خوبصورت اسٹیج پہ مختلف رنگ و مذہب اور عقائد کے حامل افراد نشستوں پہ براجمان تھے۔ تلاوت سے آغاز ہوا اور فوکل پرسن اور میزبان جناب منج صاحب نے خطبہ استقبالیہ دیا، تعارف و شکریہ کے بعد سیرتِ طیبہ سے میثاقِ مدینہ اور صلح حدیبیہ کے حوالے دیتے ہوئے موضوع کے متعلق دلائل فراہم کیے اور پھر یکے بعد دیگرے دوسرے ممالک اور شہروں سے آئے سپیکرز نے اپنی تجزیات و تجربات سے سامعین کو آگاہ کیا۔
اس دوران مقررین کو ڈاکٹر شہباز منج صاحب کے علمی نکتوں کے لقمے حاضرین کے لئے بڑی دلچسپی کا سامان بھی ہوتے رہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر شہباز منج کی علمی خدمات اور اپروچ کو علمی و تحقیقی حلقوں میں قدر اور تحسین کی نگاہ سے تو دیکھا جاتا ہی ہے لیکن اس کے باوصف آپ ایک مشفق اور مہربان استاذ اور رہنما بھی ہیں۔ آپ کی تصنیفات آپ کی علمی شخصیت کی آئینہ دار ہیں انہی میں ایک کتاب ’’ فکرِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کا اثر و نفوذ‘‘ ( جوکہ ہمارے ایم فل نصاب میں بھی شامل ہے) میرے ماسٹرز کے مقالہ کے موضوع اسلام وفوبیا کے متعلق مماثل اور رہنما ہونے کی وجہ سے میں نے چند دن میں ہی پوری کتاب کا مطالعہ کرلیا۔
کانفرنس میں معزز مہمانانِ گرامی کو شیلڈز اور حاضرین کو سرٹیفکیٹس سے نوازا گیا اور شرکاء کی پُر تکلف ظہرانے اور ’’ اسلامی و پاکستانی‘‘ کولڈ ڈرنک سے خاطر تواضع بھی کی گئی۔
بلاشبہ اس بامقصد و عظیم اور وقت کی ضرورت کانفرنس کے انعقاد پر ڈاکٹر صاحب اور آپ کی پوری ٹیم بہت زیادہ مبارک باد اور تحسین کے لائق ہے۔ اللہ کریم انہیں تادیر سلامت رکھے تاکہ ہم جیسے تلامذہ ان سے یوں ہی اکتسابِ فیض و علم کرتے رہیں۔
میں ظہرانے کی اجتماعی مجلس اور تصاویر سے تو محروم رہ گیا لیکن وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود صاحب کے علمی و ادبی تبرک سے مستفید ضرور ہوا۔ رابطہ کرنے پر فرمایا کہ میں کچھ دیر میں آفس پہنچ رہا ہوں آپ بھی آجائیں، تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے جب پہنچا تو کھڑے ہوکر عزت افزائی اور شفقت سے نوازا اور گلے لگایا۔ آپ کے وائس چانسلر تعینات ہونے سے پہلے ہی رابطہ بحال تھا تاہم بالمشافہ ملاقات پہلی بار تھی لیکن یہ احساس بالکل نہ ہوا کہ پہلے کبھی نہ ملے ہوں۔ یہ انکی شخصیت اور ملنساری کا سحر ہے کہ ہر ملنے والا اسی عزت اور وقار سے بیان کرنے کو سعادت جانتا ہے۔ مختلف موضوعات پر بات چیت رہی، وائس چانسلر صاحب چونکہ شرقپور سے تعلق رکھتے ہیں اور میں بھی اسی دھرتی کا باسی ہوں تو علاقے کی مختلف شخصیات بھی زیرِ بحث رہیں۔ آپ کی محنت اور لگن سے بھرپور علمی سفر اور کامیابی کی روداد سنی اور کام کی نوعیت اور مصروفیات کے متعلق میرے ایک سوال پر فرمایا کہ کام کرکے ہی سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ بیوروکریسی اور دیگر اداروں کے پریشر اور بوجھ کو بھی بڑی حکمت اور مصلحت سے حل کرنا بھی آپ کا خاصہ ہے۔ چھٹی کے روز بھی فائلوں کے بوجھ کو برداشت کرنا اور اسے سعادت جاننا کام سے مخلصی کی دلیل ہی ہوسکتا ہے۔ میں نے اپنی طالبعلمانہ مصروفیات و معروضات سے آگاہ کیا اور ڈاکٹر صاحب نے حالاتِ حاضرہ اور بین الاقوامی دوروں کے تجربات و مشاہدات کے متعلق تفصیلات فراہم کیں۔ چائے نوشی کے بعد اجازت چاہی لیکن اس دوران آپ نے یہ فرمایا کہ آپ جیسے محنتی اور باصلاحیت نوجوانوں کی ضرورت ہے تو میں نے برجستہ عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب ’’ میں کسی کی ضرورت نہیں خواہش بننا چاہتا ہوں‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button