Column

عرب میں بطور چیلنج ’’ خانہ کعبہ‘‘ پر لٹکائے گئے شاہکار قصیدے ( سبعہ معلقات) پہلا حصہ

تحریر: قاضی سمیع اللہ
عربی زبان و ادب کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں عہد جاہلیت کی شاعری خصوصاً سبعہ معلقات کو انتہائی منفرد اور اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ سبعہ معلقات ان سات قصائد کو کہا جاتا ہے جنہیں اظہار مقبولیت، شہرت کی غرض سے اور چیلنج کے طور پر خانہ کعبہ پر لٹکایا گیا تھا۔ معلقات کا مطلب بھی لٹکایا جانا ہے۔ سبعہ معلقات پر مزید تحریر کرنے سے پہلے عربی زبان و ادب کی تاریخ پر مختصراً نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ عربی زبان و ادب سے عدم واقفیت اور کم واقفیت رکھنے والے قارئین کو سبعہ معلقات کی قدر و منزلت سمجھنے میں آسانی ہو۔
عربی زبان و ادب کی تاریخ کے حوالے سے اب تک جتنی بھی کتابیں لکھی جا چکی ہیں ان میں مورخین نے عربی زبان و ادب کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ اور اس تقسیم کے مطابق پہلے دور کو عہد جاہلیت کہا جاتا ہے جو ظہور اسلام سے قبل کا دور ہے اور اس دور کو بھی مورخین مزید دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں پہلا حصہ پانچویں صدی عیسوی سے قبل کے دور پر محیط ہے جبکہ دوسرا حصہ پانچویں عیسوی کے بعد 622۔ 23عیسوی تک یعنی اسلام کے ظہور سے ڈیڑھ سو سال پہلے شروع ہوتا ہے اور ہجرت نبوی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اس کے بعد عربی زبان و ادب کا اسلامی دور شروع ہوجاتا ہے۔ صدر اسلام، عہد بنی امیہ، عباسی عہد، عثمانی عہد، عبوری زمانہ اور موجودہ ( جدید) عہد جو 1920سے شروع ہوتا ہے اور اب تک جاری ہے یعنی عربی ادب کی تقسیم مختلف چھ زمانوں پر مشتمل ہے جبکہ تاریخ الادب العربی کے مصنف احمد حسن الزیات نے عربی ادب کی تقسیم پانچ ادوار میں کی ہے لیکن اس بات پر تمام مورخین اور راویان متفق ہیں کہ عربی ادب میں عہد جاہلیت کی شاعری خصوصاً معلقات کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی دوسرے عہد یا شعراء کی شاعری کو حاصل نہیں ہے یعنی عربی شاعری عہد جاہلیت میں اپنے بام عروج پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عہد جاہلیت کی شاعری اور شعراء کرام کے لیے مورخین ’’ دیوان العرب‘‘ یا ’’ الشعر دیوان العرب‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔ یعنی عہد جاہلیت کی شاعری اپنے دور کی تہذیبی و ثقافتی دستاویزات ہیں، ایک طرح سے اس دور کی شاعری عربوں کی سیاسی و سماجی تاریخ بھی ہے۔
سبعہ معلقات کی جسے ’’ مذہبات‘‘ یا ’’ سموط‘‘ بھی کہا جاتا ہے جنہیں سونے کے پانی سے تحریر کروا کر خانہ کعبہ پر آویزاں کیا گیا تھا جن میں سے بعض قصائد تو فتح مکہ کے دن تک وہاں لٹکے ہوئے تھے جبکہ کچھ ظہور اسلام سے قبل خانہ کعبہ میں لگنے والی آگ سے جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔ معلقات کو مذہبیات اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ سونے کے پانی سے لکھوائے گئے تھے ان قصیدوں کو القباطی یعنی کتان کے کپڑے پر لکھوایا گیا تھا۔ سبعہ معلقات کے شعراء میں امرئو القیس، زہیر بن ابی سلمٰی عمرو بن کلثوم التغلبی، طرفہ ابن عبد البکری، عنترہ بن شداّد العبسی، لبید بن ربیعہ العامری اور حارث بن حلزہ الیشکری شامل ہیں۔
یہاں یہ واضح رہے کہ معلقات یعنی وہ قصائد جنہیں اظہار مقبولیت اور دائمی شہرت کے لیے خانہ کعبہ پر لٹکایا گیا تھا ان کی تعداد پر مورخین اور راویان میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض تاریخ دان اور راویان معلقات کی تعداد سات، کچھ نو اور بعض دس بھی ذکر کرتے ہیں لیکن زیادہ تر کا اتفاق سات قصائد پر ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معلقات کو سبعہ معلقات کہا جاتا ہے عربی میں سبعہ سات کو کہتے ہیں۔ سبعہ معلقات کے جن سات شعراء کا اوپری سطور میں ذکر کیا گیا ہے اس کے علاوہ بعض مورخین نابغہ زیبانی اور اعشیٰ قیس کو بھی معلقات کے شعراء میں شامل کرتے ہیں اور ایسے مورخین حارث بنی حلزہ الیشکری اور لبید بن ربیعہ العامری کو معلقات کی فہرست میں شامل نہیں کرتے۔ معلقات کی ادبی اور لسانی حیثیت کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تقریباً تمام معروف زبانوں میں اس کے ترجمے کئے جا چکے ہیں۔ عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کے بارے میں جو کچھ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا عملی نمونہ معلقات کے اشعار ہیں۔
معلقات کے پہلے شاعر امرئو القیس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا قصیدہ سب سے پہلے خانہ کعبہ پر آویزاں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد زہیر بن ابی سلمیٰ، پھر لبید سمیت دیگر کے قصائد لٹکائے گئے۔ معلقات میں شامل تمام قصائد ’’ عکاظ‘‘ کے میلے میں پڑھے گئے تھے۔
عہد جاہلیت میں عربوں کی زندگی میں میلوں اور بازاروں کو انتہائی اہمیت حاصل تھی اور عرب اس دور میں پورا سال مختلف مقامات پر میلوں اور بازاروں کا انعقاد کرتے تھے۔ ان میلوں اور بازاروں میں جہاں مجنہ اور ذوالمجاز کو اہمیت حاصل تھی، وہاں عکاظ کو انتہائی منفرد مقام حاصل تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ عکاظ کے میلوں میں عربوں کی سماجی و سیاسی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ساتھ عربوں کی تہذیبی و ادبی معاملات کو بھی اجاگر کیا جاتا تھا۔
مجنہ مکّہ سے کچھ میل کے فاصلے پر ایک نشیبی علاقہ تھا اور ذوالمجاز عرفات کے عقب میں منٰی کا ایک مقام ہے جبکہ عکاظ، نخلہ اور طائف کے درمیان مکہ سے تین منزل کی مسافت پر ایک بستی تھی۔ مورخین کے مطابق عکاظ کے میلوں کی ابتداء 540عیسوی میں ہوئی اور ظہور اسلام کے بعد بھی عکاظ کے میلوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن 129ہجری میں خوارج کی بڑھتی ہوئی لوٹ مار کے سبب عکاظ کے میلوں کا تاریخ ساز علمی و ادبی سلسلہ ختم ہو گیا۔
زمانہ جاہلیت کی شاعری خصوصاً سبعہ معلقات کی شاعری میں عربوں کے رہن سہن کے علاوہ دیگر پہلوئوں خصوصاً ان کی شاعری میں اونٹ اور گھوڑے کے اوصاف اور ان سے والہانہ محبت کو جس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کی مثال کسی اور زبان و ادب میں نہیں ملتی، یہی نہیں بلکہ عرب میں جو ہوائیں چلتی تھیں یا چلتی ہیں اس کا اثر بھی ان کی شاعری میں ملتا ہے۔ مثال کے طور پر عرب میں دو قسم کی ہوائیں چلتی ہیں جس میں ایک صبح کی ہوا ہی جسے ’’ نسیم‘‘ کہتے ہیں جو مشرق سے آتی ہے اور اس میں خنکی ہوتی ہے جو ایک خوشگوار احساس رکھتی ہے، اسے اردو میں نسیم سحر کہتے ہیں۔ دوسری ہوا جسے ’’ سموم‘‘ کہتے ہیں جو نسیم کے بر عکس انتہائی گرم ہوتی ہے اور بعض شعراء نے تو اسے زہریلی ہوا سے تعبیر کیا ہے، جو ان کے پانی کے چشموں اور تالابوں کو خشک کر دیتی اور پیڑ پودوں کو جھلسا کر رکھ دیتی تھی۔ یعنی یہ دونوں ہوائیں عکاظ جیسے میلوں اور بازاروں کے انعقاد کا باعث بنتی تھیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عربوں میں زیادہ تر جنگیں پانی کے حصول کے لئے ہوتی تھیں، جن کا ذکر معلقات کے اشعار میں بہت زیادہ ملتا ہے۔ معلقات کی شاعری میں صحرا اور بیابانوں کی جو تشبیہات بیان کی گئیں ہیں اس کی مثال بھی کسی اور شاعری میں نہیں ملتی۔
اسی طرح معلقات کی شاعری میں عربوں کے رسم و رواج، معاشی مسائل اور جنگ و جدل جیسے موضوعات بھی نمایاں ہیں۔ عہد جاہلیت میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ان کے ہاں جب کسی رہنما، خطیب اور شاعر کی پیدائش ہوتی تو وہ جشن مناتے اور اپنی اس خوشی میں دوسرے قبیلوں کو بھی شامل کرتے۔ اور ان کے لئے سب سے زیادہ خوشی کا مقام کسی شاعر کا پیدا ہونا ہوتا تھا۔ اس مضمون کے دوسرے حصے میں سبعہ معلقات کے شعراء اور ان کا مختصراً جائزہ پیش کیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button