Column

چور پارلیمنٹ ہائوس پہنچ گئے

تحریر : روہیل اکبر
چور پارلیمنٹ ہائوس بھی پہنچ گئے ویسے تو ہمارے ملک میں اتنے چور نہیں ہیں جتنے منشیات استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد ہے اگر دیکھا جائے تو چور اور نشئی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اور ان دونوں قسم کے وارداتیوں کی ہمارے ملک میں تعداد بھی تقریبا برابر برابر ہیں ویسے تو اس وقت ہمارے سبھی ادارے وارداتوں میں ملوث ہیں کوئی چھپ کر اپنی واردات ڈال رہا ہے تو کوئی ببانگ دہل لوٹ مار میں مصروف ہے کسی ادارے کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ انہوں نے کرنا کیا ہے ہماری پولیس کا تو اللہ ہی حافظ ہے جو مظلوموں پرتو ایسے چڑھ دوڑتی ہے جیسے ملک کا کباڑا ہی ان لوگوں نے کیا ہو لاہور سمیت بہت سے مقامات پر اتوار کو ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کو اتنا بھی خیال نہیں کہ وہ ملازمین بلخصوص خواتین ٹیچرز کی ڈیوٹی انکے گھروں کے قریب لگاتے ابھی پچھلے جنرل الیکشن میں میں نے بہت سی خواتین ٹیچرز کو الیکشن ڈیوٹی کے بعد رات گئے گائوں میں رہائشی لوگوں کے گھروں کے کنڈے کھڑکاتے دیکھا اس رات موبائل سروس بھی بند تھی اور الیکشن ڈیوٹی والی خواتین اپنے گھر والوں سے رابطے میں بھی نہ آسکی الیکشن والی رات وہ خواتین ملازمین سکون سے گزار سکی نہ ہی ان کے گھر والے اپنے گھروں میں سو سکے اور اس بار بھی الیکشن کمیشن نے بے سرے انداز میں خواتین ٹیچرز کی ڈیوٹیاں لاہور کی ایک نکر سے دوسری نکر میں لگا دی جو پبلک ٹرانسپورٹ پر کافی کھجل خواری کے بعد اپنے پولنگ سٹیشن پہنچتی ہیں اور اوپر سے ان ٹیچرز کی عرصہ 15سال سے ترقی بھی نہیں ہورہی جو جس سکیل میں بھرتی ہوئی وہ اپنی آدھی سروس گزارنے کے باوجود ایک سکیل ترقی بھی نہ حاصل کر سکی اور رہی سہی کسر الیکشن کمیشن سمیت دوسرے ادارے پوری کر رہے ہیں ہماری پولیس معصوم اور سادہ لوح شہریوں پر تشدد کرنے ان پر مقدمے درج کرنے اور پھر جیلوں میں بند کرنے سمیت چلتی ٹرین سے بھی دھکا دیکر مار سکتی ہماری جیلوں میں اس وقت آدھے سے زیادہ قیدی اور حوالاتی منشیات کے کیس میں بند ہیں ان سے کم تعداد میں چوری والے ملزمان اور سب سے کم لڑائی جھگڑے میں ملوث ملزمان کی ہے ہماری بہادر پولیس کو جب کوئی نہیں مل رہا ہوتا تو وہ منشیات استعمال کرنے والوں پر بھاری مقدار میں چرس، شراب اور افیون ڈال کر انہیں جیل پہنچا آتی ہے جہاں کئی کئی ماہ ان کی ضمانت ہی نہیں لگتی جبکہ چوری والے لوگوں کو جیلوں میں آنا جانا لگا رہتا رہی جیلوں کے اندر کی صورتحال وہ بہت ہی خوفناک اور خطرناک ہے بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب سے زیادہ ظلم اور کرپشن جیلوں میں ہی ہے اس کی تفصیل پھر کبھی سہی کیونکہ جب سے مریم پر تشدد کے بعد اسے ٹرین سے دھکا دیکر قتل کیا گیا تب سے ہماری ریلوے پولیس سب ظالموں کو پیچھے چھوڑ گئی ’’ مریم ہلاکت کا معاملہ‘‘ تھانہ چنی گوٹھ میں قتل عصمت دری اور لوٹ مار کی دفعات کے تحت پولیس کانسٹیبل سمیت 2نامعلوم ریلوے ملازمین کیخلاف مقدمہ درج ہوا ہے پوسٹمارٹم رپورٹ میں ہڈیاں
ٹوٹنے اور جسم پر زخموں کے نشانات کی تصدیق بھی ہوگئی ہے اس کیس کے مدعی جڑانوالہ کے نواحی گائوں چک نمبر 648گ ب کے رہائشی افضل نے تھانہ چنی گوٹھ ضلع بہاولپور پولیس کو درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سائل کی والدہ اور ہمشیرہ 29سالہ مریم بی بی کراچی کے شہر قیوم آباد میں رہائش پذیر اور بیوٹی پارلر کا کام کرتی تھی عید کرنے کیلئے 7 مارچ 2024کو بھیجتے اور بھیجتی کے ہمراہ ملت ایکسپریس میں کراچی سے واپس فیصل آباد آ رہی تھی کہ انہیں اطلاع موصول ہوئی کہ تحصیل احمد پور شرقیہ تھانہ چنی کوٹ کی حدود میں ایک خاتون کی لاش پڑی ہوئی ہے جس پر سائل ہمراہ گواہان وہاں گیا اور پوسٹمارٹم کے بعد لاش کو لیکر جڑانوالہ آ گیا ورثا کا کہنا ہے کہ 29 سالہ مریم بی بی کی تدفین کے بعد سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوئی جس پر علم ہوا کہ ملت ایکسپریس میں ڈیوٹی پر مامور ریلوے کانسٹیبل میر حسن مریم بی بی کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور ٹرین کے گیٹ کی جانب لیکر جا رہا ہے مدعی نے الزام لگایا کہ کانسٹیبل نے اپنے 2نامعلوم ریلوے ملازمین ملت ایکسپریس کے ہمراہ مریم بی بی کو دھکا دیکر قتل کیا ہے پولیس چنی گوٹھ نے مریم بی بی کے بھائی افضل کی مدعیت میں قتل عصمت دری اور لوٹ کی دفعات کے تحت کانسٹیبل میر حسن اور 2کس نامعلوم کیخلاف
مقدمہ درج کر لیا ہے پوسٹمارٹم رپورٹ میں مریم بی بی کے جسم پر زخموں کے نشانات اور سر پر چوٹ ظاہر کی گی ہے رپورٹ کے مطابق سر پر چوٹ لگنے کی وجہ زیادہ خون بہہ جانے سے مریم بی بی کی ہلاکت ہوئی ہے رپورٹ میں مریم بی بی کی موت خود کشی قرار دی گی ہے جسے ورثا نے مسترد کر دیا ہے حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سارے گندے کام ہماری پولیس کی قسمت میں لکھے ہوئے ہیں ریلوے پولیس کے پہلے بھی بہت سے ایسے کارنامے ہیں کہ وہ اکیلی سفر کرنے والی خواتین کو ڈرا دھمکا کریا سیٹ کا لالچ دیکر کسی نہ کسی بزنس کلاس میں قبضہ کیے ہوئے اپارٹمنٹ میں لے جاکر اجتماعی زیادتی کرتے ہیں جو مریم کے ساتھ کیا گیا ہماری پولیس جہاں کی بھی ہو وہ اپنا کام ضرور دکھاتی ہے شائد انکے خمیر میں ہی ایسا لکھ دیا گیا ایک چھوٹا ملازم اپنے افسر کی گالیاں سنتا ہے اور پھر وہ غصہ عام لوگوں پر اتارتا ہے جبکہ ان کے افسران اپنی نوکری پکی اور بچانے کے لیے ہر غیر قانونی کام قانونی سمجھ کر عمل کرواتے ہیں اور تو اور تھانوں، پولیس لائینوں اور بارکوں میں پولیس والے اپنے ہی پیٹی بھائیوں کا سامان چوری کر لیتے ہیں اب تو ہر ملازم نے اپنے بکسے کو لوہے کا تالا لگانے کے ساتھ ساتھ موٹا سنگل بھی باندھ رکھا ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود بھی یہ کاریگر چور کسی نہ کسی طرح دوسرے ملازم کا صندوق خالی کرنا عین ثواب سمجھتے ہیں اور سب سے اوپر میں نے پارلیمنٹ میں چوروں کا ذکر کیا جنہوں نے گزشتہ روز جمعہ کے دن واردات ڈال دی ویسے تو اس سے پہلے بھی پارلیمنٹ لاجز میں چوری کی متعدد وارداتیں ہو چکی ہیں لیکن اس انوکھی واردات میں چور پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد سے کئی نمازیوں کے جوتے چوری کرکے لے گئے جن میں معزز ارکان اور اعلیٰ افسران کے جوتے شامل تھے اس سے قبل بھی گئی صحافیوں، ارکان اسمبلی اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے افسران کے جوتے غائب ہوتے رہے ہیں لیکن اس بار تو چوروں نے کمال کرتے ہوئے 20سے زائد نمازیوں کے جوتے اکٹھے چوری کر لیے کچھ اسی طرح کی وارداتیں پنجاب اسمبلی میں بھی وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں اس بات پر ایک قصہ یاد آگیا کہ ہماری تبلیغی جماعت رشیا میں سارا دن تبلیغ کے بعد جب وہاں کے لوگوں کو شام کے وقت مسجد لیکر آئے تو سبھی تبلیغی جماعت کے ارکان نے اپنی جوتیاں مسجد کے باہر اتار کر ہاتھوں میں پکڑ لیں اور جب وہ جوتیاں مسجد کے اندر لے جانے لگے تو وہاں کے مقامی نو مسلم لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنی جوتیاں اٹھا کر اندر کیوں لیکر جارہے ہیں تو جس پر امیر صاحب نے بتایا کہیں جوتی چوری نہ ہو جائے رشیا کے نو مسلم لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا پاکستان میں مسجد سے جوتیاں چوری ہوجاتی ہیں تو امیر صاحب نے کہا جی ہمارے ہاں تو مسجد کی ٹوٹنٹیاں، لوٹے، پنکھے اور جوتیاں چوری ایک معمول کی بات ہے وہاں پر تو پانی پینے والے گلاس کو بھی سنگل لگانا پڑتا ہے جس پر تبلیغی جماعت کی دعوت پر آنے والے نمازیوں نے انہیں کہا کہ آپ فورا واپس پاکستان جائیں ہم سے زیادہ انہیں تبلیغ کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا چوروں اور نشیئوں کے اس ملک میں چور اب ببانگ دہل پارلیمنٹ ہائوس بھی پہنچ گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button