Column

دبئی سے دور رہیں

تحریر : سیدہ عنبرین
سلطان محمود غزنوی تاریخ میں اپنی حکمت دانائی ،دلیری شجاعت و خدا ترسی کے حوالوں سے زندہ ہے اسی کے طفیل سومنات کا ذکر بھی ہوتا ہے جہاں ہندوئوں کا ایک بہت بڑا مندر تھا، علاقے کے بڑے برہمن اس کے کرتا دھرتا تھے۔ محمود غزنوی نے سومنات پر سترہ حملے کیے وہ ہر مرتبہ فاتح فرما، وہ جب بھی حملہ آور ہوا برہمن اس کے پائوں میں گر گئے انھوں نے ہر مرتبہ التجا کی وہ جس قدر دولت چاہے لے جائے لیکن سومنات کے مندر میں پڑے سب سے بڑے بت کو نہ توڑے۔ سلطان محمود غزنوی نے جو جواب دیا وہ اس کی شان بیان کرنے کیلئے کافی ہے اس نے پائوں میں گرے برہمنوں کو شانے سے پکڑا کر اٹھایا اور کہا میں بت شکن ہوں بت فروش نہیں اٹھو اور میرا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو جائو پھر سلطان نے وہ کچھ کیا جسے بیان کرتے ہوئے بتوں کے پجاری آج بھی لرزتے ہیں، وہ سلطان کا کچھ نہ بگاڑ سکے مگر محمود و ایاز کے فرضی قصے تاریخ میں شامل کرتے رہے، تاکہ اس کے کردار کو دھندلا سکیں، ان کی ہر کوشش ناکام رہی قدرت کے اپنے فیصلے ہیں بت شکن تاریخ میں ہمیشہ آب و تاب سے چمکتے دمکتے نظر آئے۔
بردار نبی آخر الزماںؐ تاریخ کے پہلے بت شکن ہیں، رسولؐ خدا نے انہیں اپنے کندھوں پر سوار کرایا اور خانہ کعبہ میں پڑے بتوں کو پاش پاش کر نے کا حکم دیا۔ دین اسلام میں بتوں کو توڑنے کا حکم ہے بت بنانے انہیں سجانے یا انہیں رکھنے کیلئے اہتمام کرنے یا ان کی پوجا کرنے والوں کیلئے سہولتیں مہیا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں جو ایسا کرینگے نقصان میں رہیں گے۔ مندر تو یو اے ای میں بھی بہت ہیں لیکن وہ بادلوں کا پہلا حملہ برداشت نہ کر سکے اور پہلی بارش میں بہہ گئے۔ یہاں کے مکینوں کیلئے یہ بہت بھاری بارش تھی۔ جو بہتر برس میں نہ ہوئی تھی۔ اہل پاکستان نے تو اس سے کئی گنا بھاری بارشیں دیکھی ہیں ان کی جھڑی بعض اوقات مہینہ بھر جاری رہتی ہے۔ یو اے ای میں دو روزہ بارش نے کئی بھرم توڑ دئیے۔ ابوظہبی، دبئی ،شارجہ ،عجمان اور العین زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ املاک کو کافی نقصان پہنچا ہے کچھ انشورنش کمپنیاں دیوالیہ ہو جائینگی ۔
دبئی کی تباہی کا شور نسبتاً زیادہ ہے، وجوہات میں سب سے بڑی وجہ اس کی شناخت ہے کرپٹ ترین یورپی اور ترقی یافتہ ممالک کے کرپٹ ترین حکمرانوں نے اپنی ناجائز دولت چھپانے کیلئے لندن کا انتخاب کیا جبکہ یورپ سے باہر ملکوں کے حکمرانوں ،ان کے فرنٹ مینوں اور دیگر مافیا سے تعلق رکھنے والوں کی اولین پسند دبئی تھا۔ تمام شعبہ ہائے زندگی سے کرپٹ ترین افراد سوٹ کیس بھر بھر کے اپنی دولت یہاں لائے۔ انہوں نے جائیدایں خریدیں، درجنوں منزلہ عمارا ت تعمیر کیں ،رہائشی منصوبوں میں اپنا کالا دھن چھپایا ۔تعمیر سے وابستہ لاکھوں افراد یہاں آئے اور دو دہائیوں تک انہیں روز گار ملتا رہا حیرت کی بات ہے یہاں انوسٹمنٹ کرنے والوں نے کسی بھی قسم کی انڈسٹری لگانے کی طرف توجہ نہ دی۔ آج اس خطے میں چھوٹی چھوٹی انڈسٹری تو موجود ہے لیکن ایسی کوئی انڈسٹری نہیں جو ہزاروں افراد کو روز گار مہیا کرے اور اپنا تیار کردہ سامان ایکسپورٹ کرے۔
حد نگاہ کثیر المنزلہ عمارتیں ہیں ہوٹلز ہیں کبھی یہ سب آباد تھے آج اپنے مکینوں کی راہ دیکھ رہے ہیں محتاط اندازے کے مطابق مختلف ریاستوں میں دس ہزار ہوٹل اور رہائشی عمارات ایسی ہیں جہاں ان کے کسی کمرے میں کسی شخص نے ایک رات بھی قیام نہیں کیا۔ عیاشی بزنس بھی اب ختم ہوا تعمیراتی کام اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ دبئی برسوں پہلے اجڑ چکا ہے تا ہم کچھ لوگوں کو اب بھی امید ہے کہ ایک مرتبہ پھر آباد ہو جائیگا۔ امید کی کہانی وہ سناتے ہیں جو اربوں ڈالر کی انوسٹمنٹ کر چکے ہیں جو اب منجمد ہو چکی ہے کسی اپارٹمنٹ، کسی ولا، کسی سپر سٹور کا کوئی خریدار موجود نہیں۔ سرکاری آمدن کا انحصار ایک ایئر لائن ایک مواصلاتی کمپنی اور بڑھتی ہوئی پارکنگ فیس پر ہے جس میں ہر برس اضافہ ہو جاتا ہے کچھ منصوبے اور بھی ہیں جہاں سے آمدن ہو جاتی ہے لیکن ٹیکسوں کے لحاظ سے یہ اب مہنگا ترین شہر ہے۔ دنیا بھر سے اور خصوصاً ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے متمول افراد فنی ماہرین گاہے بگاہے یہاں آتے رہتے ہیں اور نئے مواقعے تلاش کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ گنتی کے چند پکنک پوائنٹس ہیں جہاں ویک اینڈ پر سارا شہر امڈ آتا ہے لوگ سپر مالز اور سٹورز سے اشیائے ضرورت خریدتے نظر آتے ہیں ، خوراک ولباس ہر شخص کی ضرورت ہے بس یہی کاروبار چلتا نظر آتا ہے۔ وائٹ کالر جابز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سری لنکن اور نیپالی کم اجرت پر کام کرنے کو تیار ہیں انہیں کا غلبہ ہے کاروباری دنیا میں ہندوئوں اور چینیوں کا راج ہے جو کاروبار کو بہترین کاروباری اصولوں کے مطابق چلا رہے ہیں۔ دھوکہ اور ملاوٹ موجود نہیں قانون اور قانون کی عمل داری ہے کوئی کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا راہ چلتے ہجوم میں ایک نظم و ضبط ہے جو شخص آپ کو راستہ دے گا وہ سری لنکن بنگلہ دیش فلپائن یا بھارتی ہو گا۔ جو شخص آپ کو مسکرا کر راستہ دے گا، آپ کے احترام میں گردن کو خم دے گا وہ چینی یا جاپانی ہو گا۔ تند خوئی کا مظاہرہ کر ے گا کسی نہ کسی بہانے آپ کی جیب کاٹنے اور نوسربازی کی کوششوں میں مصروف نظرآئیگا وہ پاکستانی ہوگا یہ وہ لوگ ہیں جن کی کارستانیوں سے اب حرم بھی محفوظ نہیں۔ بھیک منگوں اور کم پڑھے لکھے غیر ہنر مند افراد کے غول کے غول ہر چوک میں نظر آتے ہیں۔ لباس میلے کچیلے بڑھی ہوئی شیو پشت پر بندھا بیگ انٹرنیٹ کی دنیا میں گم ہر وقت کسی معجزے کے منتظر رہتے ہیں۔ کوئی انہیں ان کی بری شہرت کے سبب منہ نہیں لگاتا، یہاں قانون کی عملداری نہ ہوتی یا سفارش کلچر ہوتا تو ہم وطن اب تک پورے یو اے ای کو بیچ کر کھا گئے ہوتے۔ دبئی آنے کیلئے ایک ماہ کا وزٹ ویزا ،دوطرفہ جہاز کا ٹکٹ سادہ ترین رہائش تین وقت کا سادہ ترین کھانا نوکری کی تلاش میں بسوں کے کرایے کیلئے ساڑھے نو ہزار درہم کی ضرورت ہوتی ہے جو پاکستانی کرنسی میں سات لاکھ روپے بنتے ہیں۔ اس رقم سے پاکستان میں درجنوں ڈھنگ کے کام ہو سکتے ہیں پس نوجوانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اگر کوئی فنی مہارت یا علیٰ ڈگری نہیں رکھتے تو پاکستان میں کوئی کاروبار کر لیں اور دبئی سے زیادہ کمائیں۔ اگر صرف شریکوں کا منہ لال دیکھ کر اپنا منہ حالات کے تھپڑوں سے لال کرنا ہے تو دبئی ضرور آئیں ورنہ دبئی سے دور رہیں۔ دبئی اجڑ چکا ہے بلکہ اب تو بارشوں میں بہہ چکا ہے۔ سنبھلنے میں وقت لگے گا وہ بھی اس صورت اگر مندروں سے دور اور مسجدوں سے قریب ہوئے ورنہ طوفان نوح آسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button