Column

وہ ایک شخص مگر آسمان قامت تھا

تحریر : رفیع صحرائی
زمین نے بہت بڑے بڑے آسمانوں کو اپنے اندر سمایا ہوا ہے۔ انگریزی کا مشہور مقولہ ہےJack of all trades but master of noneیہ مقولہ ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو بظاہر تو ہر فن مولا ہوتا ہے مگر ماہر کسی ایک شعبے میں ہوتا ہے البتہ دیگر شعبوں میں بھی گزارے لائق کام چلا لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے جو ایک سے زیادہ شعبوں میں یکساں عبور اور مہارت رکھتے ہوں۔ حکیم غلام حیدر سہیل ایسی ہی چند نابغہ روزگار ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں طبع آزمائی کی اور تمام شعبوں میں عروج و کمال پر پہنچے۔ آپ بیک وقت حکیم، شاعر، ادیب، فلسفی، دانشور اور گہرے سیاسی شعور کے مالک تھے۔ آپ کا تعلق تو قصور شہر سے تھا مگر اپنے وقت کے بہت بڑے طبیب ہونے کے باوجود آپ نے اپنا مطب منڈی ہیرا سنگھ ( موجودہ منڈی احمد آباد ضلع اوکاڑہ) جیسے دور افتادہ قصبے میں بنانا پسند کیا۔ یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ منڈی ہیرا سنگھ چھوٹا سا قصبہ تھا۔ یہ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے۔ قصبے میں کوئی مستند حکیم یا ڈاکٹر موجود نہ تھا۔ خوش قسمتی سے ریل گاڑی کی سہولت حاصل تھی۔ لوگ علاج معالجے کے لیے 70کلومیٹر دور واقع قصور شہر جایا کرتے تھے۔ حکیم غلام حیدر سہیل کا قصور میں طوطی بولتا تھا۔ منڈی ہیرا سنگھ کے لوگ بغرضِ علاج زیادہ تر انہی کے پاس جایا کرتے تھے۔ ایک دن جانے من میں کیا سمایا، منڈی ہیرا سنگھ جا پہنچے۔ وہاں پہنچ کر عام لوگوں کی مشکلات کا اندازہ ہوا جو اُن تک نہیں پہنچ پاتے تھے۔ منڈی ہیرا سنگھ میں مطب بنانے کا فوری فیصلہ کیا اور اس پر فوری عمل بھی کر ڈالا۔ دوست احباب اور خاندان والوں نے بہت سمجھایا کہ ایسا مت کیجیے مگر وہ نہ مانے اور اللّٰہ کا نام لے کر کام شروع کر دیا۔
حکیم غلام حیدر سہیل کوئی معمولی حکیم نہ تھے۔ اتنے بڑے طبیب تھے کہ مریض مطب کے تھڑے پر قدم رکھتا اور آپ اس کے مرض سے واقف ہو جاتے۔ بہترین نباض تھے اور ان کی تشخیص آج کل کے سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے مقابلے میں ہزار گنا بہتر تھی جو مریض کے لاکھوں روپے ٹیسٹوں پر خرچ کروانے کے بعد بھی مرض کی درست تشخیص نہیں کر پاتے۔
غالبا 1970کی دہائی کے وسط کی بات ہے۔ ہمدرد فائونڈیشن نے پورے ایشیا کے حکما ء کے درمیان ایک سوالنامہ کے ذریعے مقابلہ کروایا تھا۔ اس مقابلے کی نگرانی حکیم محمد سعید بذاتِ خود کر رہے تھے۔ پاکستان اور بھارت سمیت پورے ایشیائی ممالک سے جیّد حکما ء نے اس مقابلے میں حصہ لیا۔ حکیم غلام حیدر سہیل اس مقابلہ میں ایشیا بھر میں نمبر ون قرار دئیے گئے۔ انہوں نے طب کے موضوع پر نصف درجن سے زائد کتب تحریر کیں جنہیں قبولِ عام کی سند ملی۔ ہمدرد اور قرشی والوں نے ان کی کتب کو قسط وار اپنے ماہانہ رسائل میں شائع بھی کیا۔ مستقبل کے حکما ء کی تربیت اور اسناد جاری کرنے والے معروف ادارے بورڈ آف یونانی اینڈ آیو ویدک سسٹم آف میڈیسن کے آپ ممبر بھی رہے جس کے سربراہ کے طور پر حکیم نیّر واسطی صاحب نے طویل عرصہ تک خدمات سرانجام دیں۔
حکیم غلام حیدر سہیل کا ایک اورحوالہ شاعری ہے۔ پاکستان کے بہترین شعرا ء میں سے ایک تھے۔ ان کے ہاں وقت کے عظیم شعرا ء حاضری دیا کرتے اور مطب پر ہی ادبی محفلیں برپا ہوا کرتیں۔ گوہر ہوشیار پوری۔ محمود لاہوری۔ حضرت مجروح کلہروی۔ حافظ منظور حسین بصیرپوری۔ حکیم نیّر واسطی۔ نواب اکرم خاں قمر جیسی نابغہ روزگار ہستیاں باقاعدگی سے آنے والوں میں شامل تھیں۔ حکیم محسن فاروقی، محمود شاہ، مختار قریشی، بشیر احمد اور عبدالستار خادم جو کہ حکیم غلام حیدر سہیل صاحب کے شاگرد تھے آنے والے مہمانوں کی آئو بھگت اور خاطر خدمت پر بھی مامور تھے۔
حکیم غلام حیدر سہیل صاحب کا ایک بہت مضبوط حوالہ سیاست ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی و معتمد دوستوں میں شامل تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور پر بھی انہوں نے مبشر حسن کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ اکثر و بیشتر ذوالفقار علی بھٹو انہیں اسلام آباد بلواتے رہتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ پاکستان کے لیجنڈری سیاستدان سابق وفاقی وزیرِ تعلیم و وزیرِ خارجہ میاں محمد یاسین وٹو پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے کا الیکشن لڑنا چاہتے تھے مگر ذوالفقار علی بھٹو پس و پیش سے کام لے رہے تھے۔ وٹو صاحب سمجھدار آدمی تھے، وہ حکیم صاحب کے اچھے دوست تھے، جانتے تھے کہ بھٹو صاحب کے ساتھ حکیم صاحب کے ذاتی مراسم ہیں۔ میاں یاسین وٹو حکیم صاحب کو ساتھ لے کر بھٹو صاحب کے پاس پہنچے۔ حکیم صاحب نے دونوں کے درمیان پیدا ہوئی غلط فہمیاں دور کروا دیں۔ بھٹو صاحب نے میاں محمد یاسین وٹو کو ٹکٹ جاری کر دیا۔
حکیم غلام حیدر سہیل دراز قامت، وجیہہ اور خوبرو تھے۔ چھ فٹ سے بھی نکلتا ہوا قد، سرخ و سفید رنگت، اور موٹی موٹی آنکھوں کے مالک، وجاہت اور خوبصورتی کا مجسمہ تھے۔ بال سلیقے سے بناتے تھے مگر ایک آوارہ لٹ اکثر ماتھے پر بکھری رہتی۔
حکیم غلام حیدر سہیل بہت مہمان نواز تھے۔ نادار مریضوں کے لیے ان کی ذات بہت بڑا سہارا تھی کہ مفت دوائی کے ساتھ ان کی مالی مدد بھی ہو جایا کرتی تھی۔ وہ سراپا محبت تھے۔ خلوص کا مجسمہ تھے۔ جواب میں انہیں بے پناہ چاہت اور عقیدت ملی۔ وہ علاقہ بھر کے لوگوں کے گویا پیر تھے، لوگ ان کے اشارہ ابرو کے منتظر رہا کرتے۔
حکیم صاحب کے تین بیٹے تھے۔ جنید، ابراہیم دانیال اور جبریل عدنان۔ تینوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حکمت کا پیشہ تینوں میں سے کسی نے بھی نہیں اپنایا البتہ سبھی بے پناہ صلاحیتوں کے مالک نکلے۔ ابراہیم دانیال پاکستان ٹیلی ویژن پر چار سال تک بطور اینکر بھی منسلک رہے۔ آج کل کینیڈا میں ہوتے ہیں اور وہاں کی سیاست میں کافی فعال ہیں۔ اپنے شہر کے لوگوں سے ابراہیم دانیال کا رابطہ و تعلق ان کی بے پناہ مصروفیت کے باوجود مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ ان سے چھوٹے جبریل عدنان بھی کینیڈا میں اپنا بزنس کرتے ہیں جبکہ سب سے بڑے جنید یو این او میں ایک بہت بڑے عہدے پر عرصہ دراز سے کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز 21اپریل کو حکیم غلام حیدر سہیل کی 42ویں برسی تھی۔ آپ 21اپریل 1982کو اپنے چاہنے والوں کو دائمی جدائی دے کر راہئی ملکِ عدم ہوئے تھے۔ حق مغفرت کرے۔
یوں تو وقت نے پیدا کیے ہیں لوگ بڑے
وہ ایک شخص مگر آسمان قامت تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button