ColumnFayyaz Malik

یہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں کہاں ہیں؟

فیاض ملک
رمضان المبارک دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے مذہبی اہمیت کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کے دوران، مسلمان صبح سے شام تک روزہ رکھتے ہیں، وہ کچھ کھاتے اور نہ پیتے ہیں، وطن عزیز میں خیر، خیرات، نیکی اور سماجی مساوات کے کام شروع ہو جاتے ہیں، ہر مسلمان اس بابرکت مہینے میں ضرورت مند بھائی کی خدمت کر کے آخرت کمانا چاہتا ہے، لیکن اس ماحول میں اگر کوئی طبقہ الگ تھلگ رہتا ہے تو وہ ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور ہیں جو ایک طرف خیرات کرتے ہیں اور دوسری طرف ضرورت کی اشیا مہنگی کر کے ملک بھر کے کروڑوں مسلمانوں کی خوشیوں کو نگل کر ان کے احساس محرومی کو بڑھاتے ہیں، اس صورتحال میں عام آدمی یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ریاست اسکے مفادات سے لا تعلق کیوں ہے؟ مغربی معاشرے ایسے ایام میں رعایتی سیل لگا دیتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں عجیب روایت ہے کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی قیمتیں بڑھا کر مصنوعی مہنگائی کر دی جاتی ہے جس پر کوئی قابو نہیں پا سکتا، دکاندار اِسے ’’ کمائی کا سیزن‘‘ بنا لیتے ہیں اور کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔ اس وقت بھی پشاور، لاہور اور کراچی سمیت ملک کے دیگر کئی بڑے اور چھوٹے شہروں میں پھل، سبزی، مرغی کے گوشت، آٹا اور چینی سمیت ہر چیز ہی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں، سبزیاں اور فروٹ غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو گئیں، منافع خور بے لگام ہو کر پیاز، ٹماٹر ، لہسن، آلو، کیلے ، سیب، مرچیں، بیسن، خوردنی تیل کی قیمتیں مرضی سے وصول کر رہے ہیں۔ جس کے باعث عوام پریشان ہیں کہ روزہ افطار کیسے کریں گے کیونکہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اِن کی قیمتوں میں کم از کم 30 سے 80فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے ۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اشیاء کی قیمتوں میں زیادہ تر اتار چڑھائو لالچی اور بے ایمان تاجروں سے منسوب ہو سکتا ہے، ہر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کا مسئلہ ہر سال رمضان ، عیدین اور دیگر مواقع پر سامنے آتا رہتا ہے، کسی حکومت نے اس کے مستقل حل پر توجہ نہیں دی، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موقع پرست دکاندار مارکیٹ میں کم سپلائی کا فائدہ اٹھا کر قیمتیں بڑھادیتے ہیں۔ دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کے ذریعے منظم اور موثر طریقے سے پرائس کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سال بھر کہیں بھی کوئی پرائس کنٹرول کرنیوالا نہیں ہے اور نہ ہی پرائس کنٹرول کو یقینی بنانے کیلئے وفاق و تمام صوبائی حکومتوں کی کوئی دلچسپی نہیں ہے، مارکیٹ کمیٹیاں موجود تو ہیں لیکن ان کی کارکردگی صفر ہے، پرائس کنٹرول کی وزارت نہیں ہے جس کی وجہ سے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہیں ہے، کیونکہ جن کی مہنگائی پر کنٹرول کرنا ذمہ داری ہے وہ اور کاموں میں مصروف ہیں۔ پرائس کنٹرول کا ملک بھر میں کوئی نظام ہی موجود نہیں اور جس کی مرضی چاہے، جس قیمت پر چیزوں کی فروخت شروع کر دے۔ ناجائز منافع خوروں کو کوئی لگام دینے والا نہیں۔ رمضان المبارک میں بھی غیر موثر پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال ہوجاتی ہیں لیکن اس وقت تک منافع خور دودھ، دہی، پھلوں، سبزیوں، گوشت غرض ہر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ کر چکے ہوتے ہیں اور پھر رمضان المبارک میں دکھاوے کی حد تک بڑھی ہوئی قیمتوں پر اشیاء کی فروخت کی چیکنگ کی جاتی ہے اور عوام کو یہ دلاسہ دیا جاتا ہے کہ آپ بے فکر رہیں’’ آپ کو ‘‘ سستی، اشیاء کی ترسیل یقینی بنانے کیلئے پرائس کنٹرول کمیٹیاں اپنا کام کر رہی ہیں لیکن عملی طور پر عوام من مانی قیمتوں پر اشیاء خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یقین جانئے حیرت انگیز طور پر زیادہ تر بازاروں، مارکیٹوں میں پرائس کنٹرول کمیٹی کے چھاپے سے نصف گھنٹہ قبل ہی تمام دکانداروں اور ریڑھی والوں کو اس بات کی اطلاع مل جاتی ہے کہ کچھ ہی دیر میں چھاپہ لگنے والا ہے اس لئے وہ مجسٹریٹ کے آنے سے قبل ہی سرکاری قیمتوں پر اشیاء کی فروخت اس وقت تک شروع کر دیتے ہیں جب تک ’’ خطرہ‘‘ ختم نہیں ہوجاتا اور پھر دوبارہ من مانی قیمتوں پر فروخت شروع ہوجاتی ہے۔ حکومتی دعووں کے باوجود ضروری اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا آج بھی ایک سراب ہے۔ ہر سال رمضان کے آغاز سے پہلے اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے معاشرے میں مجموعی طور پر بے چینی پھیل جاتی ہے۔ مصنوعی مہنگائی کا ثبوت یہ ہے کہ قیمتوں میں یہ اضافہ اکثر رمضان کے اختتام کے بعد معمول کی سطح پر آتا ہے۔ بہرحال پرائس کنٹرول کا پاکستان میں کوئی نظام نہیں اور جب تک دکانداروں کو ’’ ڈر‘‘ نہیں ہوگا اس وقت تک قیمتوں کے ساتھ ساتھ معیار و مقدار درست ہونے کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ رمضان المبارک میں ہی بازاروں میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اس بات کا مظہر ہے کہ حکومت کی نظام پر گرفت ایسی نہیں ہے کہ ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیاز کو اس کی کوئی پروا ہو۔ پورے ملک میں ہزاروں افسران انتظامی عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور انھیں بھرتی ہی اس مقصد کیلئے کیا جاتا ہے کہ وہ نچلے درجے تک گورننس کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ اسی کام کیلئے انھیں دوسرے سرکاری ملازموں کے مقابلے میں کئی گنا تنخواہ بھی دی جاتی ہے، گاڑیاں، گھر، عملہ اور دیگر مراعات و سہولیات اس کے علاوہ ہیں لیکن یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ بیوروکریسی گورننس کو بہتر بنانے کی بجائے ساری توانائی اور وسائل صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنے پر خرچ کرتی ہے اسی لیے ملک آج اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ عام آدمی کو ریاست اور جمہوریت پر اعتماد نہیں ہے۔ سب کچھ شتر بے مہار کی طرح چل رہا ہے۔ کرونا وباء کے بعد سے دنیا بھر کی معیشتیں سخت حالات سے گزر رہی ہیں، پاکستان بھی ان سے الگ نہیں ہے لیکن جس طرح کی کساد بازاری یہاں دیکھنے میں آتی ہے اِس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ موجود حکومت کچھ تو الگ کرے ایسا نہ ہو کہ یہ رمضان المبارک بھی ہمیشہ کی طرح ہی گزر جائے، حکومتیں رمضان سبسڈی دے کر اپنا فرض بھی پورا کر لیں گی لیکن اِس کے بعد کیا ہو گا، یہ اربوں کی سبسڈی دینے کے بجائے ایسا نظام وضع کیا جائے جس کے ذریعے ملک کی زیادہ تر آبادی کو مصنوعی مہنگائی اور ناجائز منافع خوری سے نجات مل سکے۔ لیکن یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مہنگائی پر قابو پانے کیلئے جن مافیاز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے انکی حمایت کرنیوالے کئی لوگ پارلیمان میں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں ان حکومتوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ عوام کا نظام پر اعتماد بحال کرنے کیلئے تمام مافیاز کیخلاف کسی بھی قسم کی رعایت کے بغیر کارروائی کی جائے کیونکہ اگر عوام کو ریاست پر اعتماد ہی نہ رہا تو پھر حکومت جو چاہے کر لے وہ ملک کو مضبوط اور مستحکم نہیں بنا سکتی، اس وقت ملک میں موجود تمام بڑی جماعتوں کو کہیں نہ کہیں اقتدار کا موقع مل گیا ہے، لہٰذا انھیں چاہیے کہ وہ عوام کی نظروں میں اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے وہ سب کچھ کر دکھائیں جس کے دعوے انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کیے تھے۔ اس سے ایک طرف عوام کا ریاست اور جمہوریت پر اعتماد بحال ہوگا تو دوسری جانب ان سیاسی جماعتوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button