Ali HassanColumn

جناب صدر آصف علی زرداری

علی حسن
جناب صدر آصف علی زرداری ایک بار پھر صدر پاکستان کے عہدے پر منتخب ہو کر ایوان صدر اسلام آباد میں اپنی رضا سے محبوس ہو گئے ہیں۔ ایوان صدر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے کسی حصے میں کسی آسیب کا سایہ ہے۔ حیدر آباد کے صحافیوں کا ایک وفد اس وقت کے صدر زرداری کی دعوت پر17دسمبر 2009ء کو اسلام آباد گیا تھا ۔ ملاقات سے ایک روز قبل ہی اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب افتخار چودھری نے 17ججوں کے بینچ میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے دئیے گئے این آر او کے بارے میں از خود نوٹس کی سماعت کر کے این آر او کو ہی غیر قانونی قرار دیا تھا۔ وفد میں کلب کے اس وقت کے صدر مہیش کمار، جنرل سیکرٹری حمید الرحمان، لالہ رحمان سموں، علی حسن، اظہار سومرو، پیپلز پارٹی کے آفتاب خانزادہ شامل تھے۔ صدر زرداری سے جب سوال کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ان کا کیا رد عمل ہے، جواب میں انہوں نے کہا کہ فیصلہ تو سامنے آ نے دیں۔ جنرل مشرف نے این آر او کی سہولت فراہم کر کے تمام سیاسی رہنمائوں کے خلاف درج بدعنوانیوں سمیت مقدمات ختم کر دئیے تھے۔ ان سیکڑوں مقدمات میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں، ن لیگ کے رہنمائوں، ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے خلاف درج مقدمات ختم کر دئیے گئے تھے۔ آصف علی زرداری ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے این آر او سے استفادہ حاصل کیا تھا۔ پھر ان سے سوال کیا گیا کہ وہ سندھ کے دورے پر کیوں نہیں آتے ہیں تو ان کا برجستہ جواب تھا کہ وہ ایوان صدر میں ایک طرح سے قید ہو گئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اسلام آباد میں بڑے اور چھوٹے اژد ھے ہیں ان پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو کی شہادت والے روز اور اس کے بعد جب نو ڈیرو میں پارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہو رہا تھا اس وقت بھی انہیں علم نہیں تھا کہ وہ صدر پاکستان منتخب ہوں گے۔ انہوں نے امین فہیم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ ہمارے مستقبل کے وزیر اعظم ہیں۔ اس وقت تو یوسف رضا گیلانی بھی لا علم تھے کہ امین فہیم کی جگہ وہ وزیر اعظم ہوں گے۔ آصف زرداری نے اس وقت تک اپنا ذہن نہیں بنایا تھا کہ انہیں پاکستان کے صدر کے عہدے کے لئے انتخاب لڑنا ہوگا۔ ضلع ٹھٹہ میں 2008ء میں فروری کے مہینے میں وہ انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے تو انہوں نے اپنا وہ تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ اگر انتخابات کے نتائج میں ہیر پھیر کی گئی تو وہ اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ وہ اسلام آباد کی تو اینٹ سے اینٹ نہیں بجا سکے لیکن خود صدر پاکستان منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پاکستانی سیاست کو جن افراد نے ذہانت سے برتا اور چلایا ہے ان میں آصف علی زرداری بھی شامل ہیں۔ سیاست میں جوڑ توڑ، مفاہمت، مصالحت، وغیرہ کی وہ ایسے بازی گر کہلاتے ہیں جو کسی بھی موقع پر کسی لگی لپٹی کے بغیر کچھ بھی کر سکتا ہے۔
ان کے والد حاکم علی زرداری مرحوم ضلع نواب شاہ کے کھاتے پیتے زمین دار تھے اور نہ ہی کوئی پائے کے سیاست داں تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں غلام مصطفیٰ جتوئی جن کے نام کے ساتھ رئیس لگایا جاتا تھا، حاکم علی زرداری کو ٹکٹ دینے پر رضا مند نہیں تھے۔ حاکم علی کو پیپلز پارٹی سندھ کے اس وقت کے صدر میر رسول بخش تالپور کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو سے غلام مصطفیٰ جتوئی کو سفارش کرانا پڑی تھی کہ حاکم علی زرداری کو ٹکٹ دیا جائے۔ وہ انتخاب میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن پہلے سال ہی بھٹو ان سے ان کی قوم پرستانہ تقاریر کی وجہ سے بدظن ہو گئے تھے۔ حاکم علی نے ایک ایسے جلسے میں شریک ہوکر تقریر کر دی تھی جس کی صدارت سائیں جی ایم سید کر رہے تھے۔ بھٹو مرحوم قوم پرست سیاست کی وجہ سے حساس تھے۔ حاکم علی نے ایک زمانے میں رسول بخش پلیجو کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ وہ صوبہ سندھ کے سربراہ مقرر ہو گئے تھے۔ حاکم علی زرداری کراچی کے بیمبینو سنیما کی ملکیت میں دو شراکت داروں کے ساتھ تیسرے شراکت دار تھے۔ دیگر دو شراکت داروں سے ان کے حصے خرید کر حاکم علی نے بھٹو دور حکومت کے پہلے مرحلے میں ہی بیمبینو فروخت کر دیا تھا۔ ایک شراکت دار چودھری لطیف آرائیں نے تو اپنا حصہ لینے کے بعد حیدرآباد میں وینس سینما کے نام سے سنیما ہائوس تعمیر کر لیا تھا۔ بہت عرصے بعد وینس فروخت کر کے وہ لاہور منتقل ہو گئے تھے۔
آصف علی زرداری نے 1979ء میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء میں ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ نواب شاہ ضلع کی سیاست میں شاہوں کا طوطی بولتا تھا۔ غلام مصطفیٰ جتوئی کے والد امام بخش مرحوم بڑے زمیندار ہونے کے با وجود انتخابات میں شاہوں سے مدد اور مشورے کیا کرتے تھے۔ آصف علی زرداری کے پہلے دور صدارت میں ان ہی کی ایما پر آئین میں اٹھارویں ترمیم منظور ہوئی تھی۔ اس ترمیم کے ساتھ ہی آئین میں سے صدر پاکستان کو وہ اختیار ختم ہو گیا تھا، جس کی تحت وہ حکومتوں کو برطرف کر دیا کرتے تھے۔ آصف علی زرداری کی اپنے ہی پارٹی کے صدر فاروق لغاری، غلام اسحاق خان سے کئی معاملات پر الجھائو ہی رہا۔ فاروق لغاری تو ایک زمانے میں پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے تھے۔
صدر آصف علی زرداری کو بظاہر ان کے دوسرے دور صدارت میں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا البتہ آئین کی اٹھارویں ترمیم ان کا پیچھا ضرور کر ے گی۔ ایک سابق سربراہ فوج جنرل قمر جاوید باجوہ کئی بار اس ترمیم کے بارے میں اپنے تحفظات کو اظہار کر چکے تھے۔ کم از کم دو بار انہوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور چینلوں کے اینکر حضرات کے ساتھ آف دی ریکارڈ گفتگو میں مشورہ دیا تھا کہ اس ترمیم کے بارے میں نظر ثانی کرنی چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ترمیم کے بعد وفاق پیسوں کے معاملے میں بے دست و پا ہو گیا ہے۔ اس کے پاس اخراجات کے لئے بہت ہی محدود رقم رہ جاتی ہے جس سے وفاق کے اخراجات پورے نہیں ہوتے ہیں۔ جنرل باجوہ کی تجاویز پر وفاقی حکومت نے کسی بھی مرحلے پر غور ہی نہیں کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کا کیا حل نکالا جاتا ہے، یہ تو پاکستان کے مقتدر حلقے ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ صدر پاکستان کو حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو قائل بھی کرنا چاہئے کہ پاکستان میں رائج جمہوریت کے لبادے میں موروثی اور خاندانی سیاست سے نجات حاصل کرنی چاہئے تاکہ پاکستان میں قابل عمل جمہوریت نافذ ہو سکے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button