Editorial

یومِ یکجہتی کشمیر اور مُردہ عالمی ضمیر

کشمیر دُنیا کا سُلگتا ہوا مسئلہ ہے، جو بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث 8 دہائیوں سے حل طلب ہے۔ ظالم بھارت نے تمام تر مظالم مظلوم کشمیری مسلمانوں پر ڈھالیے۔ جبرو ستم، درندگی اور سفّاکیت میں چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ہر طرح کے ہتھکنڈے و حربے آزمالیے، 2لاکھ 37ہزار کشمیری مسلمانوں کو شہید کر ڈالا، اس کے باوجود وہ کشمیری مسلمانوں کو جدوجہدِ آزادی سے باز نہ رکھ سکا، بلکہ اُس کے مظالم کے شدّت اختیار کرنے سے تحریکِ آزادیٔ کشمیر اور توانا ہوئی۔ کشمیر کے کتنے ہی حُریت پسند رہنما بھارتی قید میں عشروں سے ہیں۔ اُن پر بھی طرح طرح کے ظلم اور حربے آزمالیے، لیکن وہ آزادی کے مطالبے سے پیچھے نہ ہٹاسکے۔ کتنے ہی بچے یتیم ہوچکے، کتنی ہی مائوں کی گودیں اُجڑ چکی ہیں، کتنی ہی عورتیں بیوہ ہوچکی ہیں، کتنی ہی خواتین کے شوہروں کو چادر و چہار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے بے گناہ گرفتار کیا گیا اور لاپتا کردیا گیا اور بہت بڑی تعداد میں ایسی خواتین نیم بیوگی کی زیست گزار رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں گمنام قبروں کے سلسلے ہیں۔ ننھے بچے کے سامان نانا کو بھارت کی سفّاک فوج شہید کردیتی ہے۔ کتنے ہی ایسے واقعات ہیں، کس کس کا ذکر کیا جائے۔ انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عرصۂ حیات تنگ ہے۔ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد تو بھارتی ظلم اور ستم میں مزید تیزی آئی۔ 2019میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا گیا۔ وہاں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے ہندو پنڈتوں کو لابسانے کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ میں قراردادیں منظور کی گئی تھیں، جن کے مطابق اس تصفیے کا حل وہاں کے عوام کے حق خودارادیت کے ذریعے نکالا جانا تھا، لیکن بھارتی ہٹ دھرمی برقرار ہے اور وہ پچھلے 76سال سے اس مسئلے کو حل کرنے سے اجتناب برتتا چلا آرہا ہے اور اقوام متحدہ بھی اپنی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کرانے سے قاصر ہے۔ حقوقِ انسانی کے چیمپئن ممالک اور ادارے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ روز پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا، اس سلسلے میں پاکستان، آزاد کشمیر، مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت دُنیا بھر میں کشمیری مسلمانوں کے حق اور بھارت کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں، احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جن میں بھرپور احتجاج دیکھنے میں آئے۔ پوری دُنیا میں کیے جانے والے احتجاج میں کشمیری مسلمانوں کو حق خودارادیت دینے کے بھرپور مطالبات کیے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے نسل کشی پچھلے 76 سال سے جاری ہے، کشمیر جسے جنت کی نظیر سمجھا جاتا ہے، آج اس کشمیر میں کوئی انسان محفوظ نہیں۔ کشمیر کی خوبصورت وادیاں آج چیخ چیخ کرانسانی حقوق کی پامالی کی دُہائیاں دے رہی ہیں، گمنام قبریں، زیادتی کا نشانہ بننے والی کشمیری خواتین اور ہزاروں یتیم بچے بھارت کی جنونی فسطائیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ عالمی سطح پر جمہوریت کی سب سے بڑی دعویدار ریاست نے مقبوضہ کشمیر میں 10لاکھ سے زائد غیر قانونی طور پر فوجی تعینات کر رکھے ہیں، کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں کشمیر کو حق خودارادیت کا پورا پورا حق دیتی ہیں، لیکن بھارتی قابض فوج نے کشمیریوں کو بنیادی حق سے محروم کر رکھا ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر مسلح افواج اور عسکری قیادت نے کشمیری بھائیوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور مسلح افواج کے سربراہان کی جانب سے مشترکہ خصوصی پیغام میں کہا گیا کہ کشمیریوں کی کامیابی ہی ان کا مقدر ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری خصوصی پیغام میں کہا گیا ہے کہ کشمیروں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت ملنا چاہیے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور مسلح افواج کے سربراہان نے مظلوم کشمیریوں کے عزم اور جدوجہد پر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سربراہان کا کہنا ہے کہ کشمیری مسلسل بھارتی قابض افواج کی انسانی حقوق خلاف ورزیوں اور ان کے غیرانسانی لاک ڈائون کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں۔اس موقع پر اپنے پیغام میں صدر عارف علوی اور نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ کشمیر 1948سے یو این ایجنڈے پر طویل عرصے سے زیر التوا حل طلب مسئلہ ہے، کشمیری عوام کو ان کی امنگوں اور یو این قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت ملنا چاہیے۔ پاکستان پچھلے 76سال سے کشمیری مسلمانوں کے حق کے لیے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی فورمز پر آواز اُٹھاتا چلا آرہا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستانی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وطن عزیز میں جتنے بھی حکمراں رہے، اُنہوں نے بھرپور طور پر ناصرف کشمیری مسلمانوں کی حمایت کی، بلکہ اُن کو ان کا جائز حق، حقِ خودارادیت دلوانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ بھارتی تسلط سے اُن کو نجات دلانے کے لیے اپنا کردار نبھایا۔ بھارت کو بارہا مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی پیشکش کی گئی، لیکن ہر بار ہی بھارت کی جانب سے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا۔ وہ اس مسئلے کو حل ہی نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اسی طرح کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کے کالے سائے برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ آزادی کا سورج وہاں طلوع نہیں ہونے دینا چاہتا۔ عالمی ضمیر بھی اس حوالے سے خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کو کشمیر سے متعلق اپنی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالنا چاہیے۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک بھی اس حوالے سے بھارت پر پریشر ڈالیں۔ دوسری جانب کشمیری مسلمانوں کا عزم پہلے سے زیادہ توانا ہے۔ لگ بھگ تمام حریت قیادت بھارتی قید میں ہے، اس کے باوجود کشمیری مسلمانوں کا آزادی کا مطالبہ ذرا بھی پھیکا نہیں پڑا، وہ آزاد اور خودمختار زیست کا حق پانے کے لیے بھرپور جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان شاء اللہ اُن کی یہ عظیم تحریک ضرور رنگ لائے گی۔ جلد مقبوضہ جموں وکشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔
بلوچستان: انتخابی جلسوں اور اجتماعات پر پابندی
ملک عزیز میں عام انتخابات چند دن کے فاصلے پر رہ گئے ہیں، ویسے تو پاکستان میں سال بھر سے زائد عرصے سے دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں اور یہ عفریت سر اُٹھاتا دِکھائی دے رہا ہے، سیکیورٹی فورسز ان کے خاص نشانے پر ہیں اور کئی جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں، دہشت گردی کی کارروائیوں سے بلوچستان اور کے پی کے زیادہ متاثر دِکھائی دیتے ہیں۔ ان صوبوں میں متواتر تخریبی کارروائیاں سامنے آرہی ہیں۔ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے ملک بھر میں مختلف آپریشنز بھی جاری ہیں۔ دوسری جانب عام انتخابات کے دن جیسے جیسے نزدیک آرہے ہیں، ویسے ویسے دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی اضافہ دِکھائی دیتا ہے۔ پچھلے دنوں صوبۂ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں انتخابی امیدواروں کو قتل کردیا گیا۔ اس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اہم اجلاس طلب کیا گیا اور عام انتخابات 8 فروری کو ہر صورت کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ نگراں حکومت بھی مقررہ وقت پر جنرل الیکشن کے انعقاد کے لیے پُرعزم دِکھائی دی۔ بلوچستان میں مسلسل انتخابی امیدواروں پر حملے بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ایسے میں تخریبی عناصر کوئی مذموم کارروائی کر سکتے ہیں۔ سیکیورٹی کے حوالے سے صورت حال گمبھیر ہوتی چلی جارہی ہے۔ سیکیورٹی تھریٹ بھی ہے۔ اسی تناظر میں بلوچستان کی نگراں حکومت نے صوبے میں جلسوں اور انتخابی اجتماعات پر پابندی عائد کردی ہے، تاکہ کسی بڑے نقصان سے بچا جاسکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں نگراں حکومت نے جلسوں اور انتخابی اجتماعات پر پابندی عائد کردی۔ نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کوئٹہ میں سیکیورٹی تھریٹ کے حوالے سے ٹوئٹر پر پیغام دیا کہ کوئٹہ میں خاتون خودکُش حملہ آور کی موجودگی کا تھریٹ الرٹ موجود ہے۔ جان اچکزئی نے کہا کہ تھریٹ الرٹ کے پیش نظر عوامی جلسوں اور انتخابی اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔ جان اچکزئی نے مزید کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی میٹنگز گھر کے اندر کریں، حکومت بلوچستان انتخابی مہم کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہے لیکن عوامی تحفظ اوّلین ترجیح ہی۔ دوسری طرف بلوچستان کے مختلف علاقوں میں انتخابات میں حصّہ لینے والے امیدواروں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پولیس کے مطابق پنجگور میں نیشنل پارٹی کے امیدوار کے گھر میں دھماکا ہوا، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ نوشکی میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے قریب بھی دھماکا ہوا، جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ سیکیورٹی تھریٹ کے پیش نظر انتخابی جلسوں اور اجتماعات پر پابندی کا فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے۔ سیاست دانوں اور عوام کو بھی اس حوالے سے احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ حکومتی ہدایات پر عمل درآمد کیا جائے۔ انتخابی امیدوار اپنے گھروں پر میٹنگز منعقد کریں۔ دوسری جانب ملک میں امن و امان کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے راست اقدامات ناگزیر معلوم ہوتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button